غزہ کے اہلِ ایمان نے اپنی بہادری، استقامت اور ناقابلِ شکست عزیمت کی بدولت ایک بڑی قوت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ دنیا کے مسلمان حکمران محض بے جان سی قراردادیں پاس کر کے سمجھتے ہیں کہ اپنے فرض سے ''سبکدوش‘‘ ہو گئے ہیں۔ ایسے حالات میں غزہ کے سرفروش مجاہدین محض اللہ کے توکل اور بھروسے پر میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اپنی ساری قوت اور خباثت کے باوجود مجبور ہو گیا کہ عارضی جنگ بندی کو قبول کرے۔ اس معاہدے کے باوجود اپنی فطرت کے مطابق ان خبیث صہیونیوں نے جنگ بندی کے دوران بھی حملے مکمل طور پر روکے نہیں جبکہ دوسری جانب غزہ کی طرف سے اس معاہدے کی پابندی کا اہتمام کیا گیا۔ پوری دنیا میں اہلِ غزہ کی بے مثال خوبیوں کی وجہ سے عام لوگ ان کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ غیر مسلم ممالک‘ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا وغیرہ جو اسرائیل کی ہر طرح پشت پناہی کر رہے ہیں‘ میں بھی وہاں کے عوام اہلِ غزہ کے حق میں سراپا احتجاج ہیں۔ یہ بھی ایک عظیم فتح ہے جو اہلِ غزہ کو اس جنگ کے دوران حاصل ہوئی۔ پھر یہ بھی دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ جرأت ایمانی اور عزم ِصمیم اندھی قوت پر غالب آتا ہے۔
اہلِ غزہ کا تعلق اس نظریے کے ساتھ ہے جس میں مادی وسائل کو حتی الوسع فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، مگر کامیابی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی نصرت کو سمجھا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپﷺ کے صحابہ کرامؓ نے ہر جنگ میں مادی وسائل کی کمی کے باوجود بھاری بھرکم فوجوں پر فتح پائی۔ یہ ہمارا ملّی اثاثہ ہے جس کا مطالعہ ہمیں وہ جذبات عطا فرماتا ہے جو ناقابلِ شکست ہوتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ غزوۂ بدر کے لیے جب مدینہ سے نکل رہے ہیں تھے تو عجیب کیفیت تھی۔ آپﷺ کے ساتھ 313صحابہ تھے جن میں قبیلہ اوس کے انصاری 61، قبیلہ خزرج کے انصاری 170 اور مہاجرین 82تھے۔ آپﷺ سمیت یہ تعداد 314بنتی ہے۔
اس فوج میں صرف دو (بعض روایات کے مطابق تین) گھڑ سوار تھے، جبکہ باقی لوگ ستر اونٹوں پر باری باری سوارہوتے تھے۔ ساٹھ آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ اسلحہ بھی بہت کم تھا۔ رسول اللہﷺ خود مرثد بن ابی مرثدؓ اور حضرت علیؓ بن ابی طالب کے ساتھ ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ آنحضورﷺ کے دونوں ساتھیوں نے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ وہ پیدل چلیں گے اور ان کی جگہ آنحضورﷺ مسلسل اونٹ پر سوار ہیں، مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکار کر دیا اور فرمایا: ''ما انتما باقوی منی ولا انا اغنی الاجر عنکما‘‘ (مسند احمد، عن عبداللہ بن مسعودؓ، حدیث: 3891)یعنی: نہ تو تم مجھ سے زیادہ طاقتور ہو اور نہ میں اجر کے معاملے میں تم دونوں سے زیادہ بے پروا ہوں۔ اس طرح فوجوں کا سپہ سالار اعظم بھی عام سپاہیوں کی طرح کبھی پیدل چلتا اور کبھی اونٹ پر سوار ہو جاتا۔ آنحضورﷺ نے اونٹوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیاں بھی اتروا دیں تاکہ خاموشی کے سفر کیا جا سکے۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے لشکر کے آگے بعض صحابہ کو دشمن کی جاسوسی اور ان کے احوال کی خبر رسانی کے لیے روانہ فرمایا۔
مدینہ منورہ سے نکلنے کے وقت نوجوان لڑکوں کا جوش شہادت دیدنی تھا۔ حضرت عمیرؓ بن ابی وقاص پندرہ سولہ سال کے نوجوان لڑکے تھے۔ جب آنحضورﷺ نے انہیں دیکھا تو فوج سے نکال دیا۔ عمیرؓ جہاد سے محرومی کے خیال سے غمزدہ ہوئے اور رونے لگے۔ بالآخر ان کے بھائی حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے آنحضورﷺ سے ان کے لیے خصوصی اجازت لی۔ روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت عمیرؓ کو کہا گیا کہ تم واپس چلے جائو، پھر اگر کوئی موقع آیا تو جہاد میں شریک ہو جانا تو انہوں نے حسرت کے ساتھ کہا: زندگی کا کیا بھروسہ، شہادت منتظر ہے۔ مجھے میدانِ جہاد کی طرف جانے سے نہ روکا جائے۔ جب یہ میدان میں پہنچے تو قریش کا سب سے طاقتور جنگجو عمرو بن عبدودّان کے مقابلے پر آیا اور انہیں شہید کر دیا۔ قریش کا یہ گرانڈیل قاتل بعد میں جنگ خندق میں شیر خدا حضرت علیؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔
یہ چونکہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور اسی سال روزے فرض ہوئے تھے، اس لیے بعض لوگوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔ نبی اکرمﷺ نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ آنحضورﷺ کی طرف سے منا دی کی گئی کہ روزہ دار بھی روزہ کھول لیں، کیونکہ دشمن سے مقابلے کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن‘ جلد اول‘ صفحہ: 142میں لکھا ہے: حضرت عمرؓ کی روایت ہے کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضورﷺ نے فرما دیا تھا: ''دشمن سے مقابلہ درپیش ہے۔ روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو‘‘۔
حضرت سعد بن معاذؓ نے میدانِ جنگ میں ایک جگہ حضورﷺ کا خیمہ لگا دیا جو آپ کی کمان پوسٹ تھا۔ اس کو عریش کہا جاتا ہے۔ اس کی جگہ آج مسجد عریش میدانِ بدر سے ملحق موجود ہے۔ حضرت سعدؓ نے عریش کے قریب تیز رفتار اونٹنیوں کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ فتح کی صورت میں اہلِ مدینہ کو جلد از جلد خوش خبری سنا دی جائے اور اگر خدانخواستہ جنگ کا پانسہ پلٹ جائے تو حضور اکرمﷺ کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچایا جائے۔ حضور اکرمﷺ نے حضرت سعدؓ کو دعا دی اور مسکراتے ہوئے فرمایا: ''اے سعد! اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اچھا ہی فیصلہ کرے گا۔‘‘ یعنی فتح و کامیابی سے ہمکنار فرمائے گا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدانِ بدر میں ایک چکر لگایا۔ آپﷺ کے دست مبارک میں ایک نیزہ تھا۔ آپﷺ نے نیزے سے میدان کے مختلف مقامات پر نشان لگائے اور فرمایا: ''یہاں ابو جہل کل قتل ہو جائے گا، یہاں فلاں سردار قتل ہو گا...‘‘ یہ پیشین گوئی حضرت انس بن مالکؓ کی روایت کے مطابق یوں پوری ہوئی کہ نامزدسردارانِ قریش میں سے کوئی بھی بالشت بھر ادھر ادھر نہ تھا۔ سبھی اپنے اپنے متعین مقتل پر ہی قتل ہوئے۔
قریش کی فوجوں کی آمد سے قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں سمیت بدر پہنچ گئے تھے۔ ابوسفیان اپنا راستہ بدل کر مکہ کی جانب نکل گیا تھا۔ اس نے مکہ کے قرب و جوار سے ابوجہل کے نام پیغام بھی بھیجا کہ چونکہ کاروانِ تجارت بخیریت مکہ آ گیا ہے اس لیے تم بھی واپس آ جائو، مگر ابوجہل قوت کے نشے میں بدمست تھا۔ وہ جگہ جگہ تقریریں کرتا رہا تھا کہ مدینہ اور اہلِ مدینہ کو تباہ و برباد کر لوٹے گا۔ راستے میں کئی مقامات پر اس سے مختلف قبائل کے سردار ملے اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اس نے شکریے کے ساتھ ان کی مدد لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے نزدیک اس لشکر جرار کو کسی مزید مدد کی حاجت نہ تھی۔ بنوغفار کے علاقے سے قریش کا گزر ہوا تو رئیسِ قبیلہ خفاف بن ایماء بن رحضہ الغفاری نے اپنے بیٹے کو ابوجہل کے پاس بھیجا۔ وہ اپنے ساتھ ضیافت کے جانور بھی لے کر گیا تاکہ لشکر کی خدمت کی جا سکے۔ پھر اس نے اپنے والد کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ اگر ضرورت ہو تواسلحہ اور جنگجو جوان حاضر ہیں۔ اس کے جواب میں ابوجہل نے کہا: اپنے باپ کو میرا سلام اور شکریے کا پیغام دے دینا۔ تم لوگوں نے صلہ رحمی کا حق ادا کر دیا ہے اور دوستی کو خوب نبھایا ہے۔ میری عمر کی قسم! اگر ہم انسانوں کی کسی فوج سے نبرد آزماہوں تو اس وقت کوئی فوج ہمارے سامنے نہیں ٹھہر سکتی اور اگر ہمارا مقابلہ خدا سے ہے جیسا کہ وہ مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ خدا سے مقابلے کی کسی میں سکت ہے نہ مجال‘‘۔
قرآنِ مجید نے ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے تکبر و غرور کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
''اور ان لوگوں کے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ ذرا خیال کرو اس وقت کا کہ جب شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوش نما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور یہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘ (الانفال:47 تا 48)
آج بھی اسرائیلی فرعونوں کے ساتھ دنیا کی ساری باطل قوتیں کھڑی ہیں، دوسری جانب اہلِ غزہ اللہ کی نصرت کے بھروسے ڈٹے ہوئے ہیں۔ جس طرح بدر کے میدان میں شیطانی قوتوں کو ملیا میٹ کر دیا گیا تھا، ان شاء اللہ اسی طرح ایک وقت آئے گا کہ اسرائیل مٹ جائے گا اور اسلام کا جھنڈا ہر جانب لہرائے گا۔ مسجد اقصیٰ بھی آزاد ہو گی اور اہلِ فلسطین بھی عزت و کامیابی سے سرشار ہوں گے۔ امتِ مسلمہ اگر آج زندہ ہوتی اور اس کے حکمران غیرت و حمیت سے مالا مال ہوتے تو دنیا کی کوئی قوت ان کو چیلنج نہ کر سکتی۔ اقبالؒ نے کہا تھا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر