مادہ پرستی شیوئہ مومن نہیں…(1)

شاعر مشرق نے کیا خوب فرمایا:
یہ مال و دولتِ دنیا‘ یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
آج دنیا میں ہر جانب دولت اور ملکیت کی دوڑ جاری ہے۔ جو دنیا بھر کے امیر ترین دس افراد‘یا پھر سو افراد ہیں‘ میڈیا میں ہر روز ان کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ کون آگے نکل گیا اور کون پیچھے رہ گیا۔ ان امیر ترین سرمایہ داروں کے بعد نیچے کی طرف آئیں تو کئی ہزار منزلیں اترنے کے بعد بھی یہ مقابلہ ومسابقت جاری نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک بندۂ مومن کیلئے یہ صورتحال سوہانِ روح ہے۔ اس عارضی زندگی میں یہ مادہ پرستی کی مسابقت بے عقلی وحماقت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے ''دنیا اس کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں‘ اس کا مال ہے جس کا کوئی مال نہیں‘ اور اس (دنیا) کیلئے وہی جمع کرتا ہے جو عقل سے محروم ہے‘‘ (مسند احمد)۔ محبوبِ خداﷺ کی زندگی ہر لحاظ سے اسوہِ کامل ہے۔ آپﷺ نے سادگی کو اپنا شعار بنایا۔ سادگی معراجِ انسانیت ہے۔ آپﷺ حاصلِ کائنات ہیں۔ آپﷺ کو اپنے فقر پر ناز تھا۔
اللہ رب العالمین نے انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے اور اسے اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ اللہ کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کیلئے سب کچھ مسخر کر دیا گیا۔ قرآنِ مجید میں انسان کیلئے تسخیرِ کائنات کاجگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے‘ بالخصوص سورۃ النحل میں جانوروں سے لے کر دن رات‘ شمس وقمر اور نجوم وکواکب‘ دریا وسمندر‘ خشکی کے جانور اور آبی حیات‘ سمندری جہاز‘ ہوا اور بادل غرض ارض وسما کی ہر چیز کو انسان کیلئے مسخر کرنے کا ایمان پرور بیان موجود ہے۔ ان سب کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گِن نہیں سکتے‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ ( النحل: 18)
جس ابن آدم کیلئے یہ مقامِ بلند متعین کیا گیا اور جسے کلامِ ربانی سے بذریعہ وحی نوازا گیا‘ اسے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا کہ انسان ہونے کے ناتے اس کی عزت اور نجات کا دار ومدار بندگیِ رب پر منحصر ہے۔ غرور وتکبر بندے کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ اس سے ہزاروں سال کی عبادت بھی تباہ وبرباد ہو جاتی ہے۔ عاجزی اور انکسار انسان کی عظمت کی دلیل ہے اور یہی اہل اللہ کی شان ہے۔ دنیا کی یہ زندگی امتحان گاہ ہے اور اس امتحان کا نتیجہ آخرت میں سامنے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تکبر کرنے والوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کو ناکام قرار دیا ہے جبکہ خوفِ خدا کے جوہر سے مالا مال خوش نصیب بندوں کو کامیابی کی بشارت دی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کیلئے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقین ہی کیلئے ہے۔ (القصص: 83)
اس آیت سے قبل پورا ایک رکوع قارون اور اس کی ظاہری شان وشوکت کی نقشہ کشی کرتا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں اور دنیا کے ہر خطے میں فرعون ونمرود اور ہامان وقارون موجود رہے ہیں۔ اگرچہ یہ متعین ومعلوم تاریخی شخصیات کے نام ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک مخصوص ذہنیت وکردار کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ ہر دور اور ہر ملک میں موجود ہوتے ہیں‘ کوئی بڑا فرعون تو کوئی چھوٹا۔ ان کے مقابلے پر اللہ اپنے کسی خاص بندے کو کھڑا کر دیتا ہے‘ اسی لیے ضرب المثل ہے کہ ''ہر فرعونے را موسیٰ‘‘۔ نبیِ مہربانﷺ قائدِ بشریت‘ محسن انسانیت‘ فخر موجودات‘ سید الرسل اور خاتم الانبیاء ہیں۔ آپﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ نورِ مجسم‘ اسوہِ کامل اور منبع ہدایت ہے۔ آپﷺ کو اللہ نے وہ مقام دیا جو کسی اور کو نصیب نہ ہوا لیکن قربان جائیں ختمی مرتبتﷺ پر کہ آپ سادگی‘ عجزو انکسار اور غریب پروری کے ایسے مقام پر نظر آتے ہیں جس پر عقل حیران رہ جاتی ہے اور دل اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ آپﷺ جس دور میں فاتح اور حکمران کی حیثیت سے پورے عرب میں غالب اور ساری دنیا میں مشہور ہوگئے تھے اس وقت بھی آپﷺ کا عجز وانکسار اور سادگی دِلوں کو مسخر کر لیا کرتی تھی۔
ایک مرتبہ ایک بدو آپﷺ سے ملنے آیا تو اس پر شانِ نبوت کا رعب طاری ہوگیا اور وہ کانپنے لگا۔ آپﷺ نے بدو کی اس کیفیت کو دیکھ کر محبت بھرے‘ ملائم لہجے میں اس سے فرمایا: ''خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں (دنیا کے بادشاہوں کی طرح) بادشاہ نہیں ہوں۔ مجھے تو قریش کی ایک خاتون نے جنم دیا جو اتنی سادہ زندگی گزارتی تھیں کہ خشک گوشت پکا کر کھا لیتی تھی‘‘۔ (مستدرک)۔ امام حاکمؒ نے اپنی کتاب میں یہ حدیث نقل کی ہے تاہم اس طرح کے بہت سے واقعات آنحضورﷺ کی سیرت میں ملتے ہیں۔ آپﷺ کے گھر میں فقر وفاقہ کا منظر سب صحابہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ آپﷺ کی سادہ زندگی سے بعض اوقات صحابہ کرامؓ دل میں کڑھتے تھے کہ آپ پُرمشقت زندگی گزارتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ آپﷺ کیلئے ہر طرح کا آرام وآسائش مہیا کی جائے مگر آپﷺ نے فقر کو اپنا فخر قرار دیا۔
ایک مرتبہ گرمیوں کی دوپہر کو آپﷺ کھجور کی بنی ہوئی چٹائی پر استراحت فرما رہے تھے۔ شدید گرمی کی وجہ سے آپﷺ نے کرتا مبارک اتار رکھا تھا۔ آپﷺ کے جسمِ اطہر پر چٹائی کے نشانات نظر آرہے تھے۔ ایسے میں آپﷺ کے جاں نثار اور ہمارے آقا سیدنا عمرؓ بن خطاب خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کے جسم پر چٹائی کے نشانات دیکھ کر بے اختیار آبدیدہ ہو گئے۔ حضرت عمرؓ جیسے مضبوط اعصاب کے مالک کو جب آنحضورﷺ نے یوں غمزدہ دیکھا تو پوچھا: ''عمر! تم کس بات پر پریشان ہو؟‘‘ عرض کیا: ''اے اللہ کے رسولﷺ! قیصر وکسریٰ عیاشی میں زندگی گزاریں اور آپﷺ یوں مشقت کا سامنا کریں‘ یہ چیز ہمارے لیے پریشان کن ہے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اے عمر! کیا تم اس چیز کو پسند نہیں کرتے کہ ان کیلئے فانی دنیا کی عیش وعشرت ہے اور ہمارے لیے دائمی زندگی کے لا زوال انعامات ہیں!‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ آپﷺ کو پوری انسانیت‘ بالخصوص آپﷺ کی امت کے سامنے بطورِ مثال پیش کرنا تھا ورنہ دولت کی ریل پیل جو اللہ کے باغیوں کو نصیب ہوتی ہے وہ اللہ کے پیارے رسول کو کیوں نہ ملتی۔ آپﷺ فقر وفاقہ کی اس زندگی پر راضی اور خوش تھے۔ آپﷺ نے خود ہی اس کا انتخاب فرمایا تھا۔ آپﷺ کی انہی عملی مثالوں اور تعلیمات کا اثر تھا کہ آپﷺ کے جانشین خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفۂ وقت ہونے کے باوجود ایک بیوہ خاتون اور اس کی یتیم بچی کیلئے اس کی بکریوں کا دودھ نکالا کرتے تھے۔ یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ دنیا کے عظیم فاتح اور ہیبت وشوکت میں بے مثال مرتبے کے مالک عمرؓ بن خطاب بیت المال کے اونٹوں کا معائنہ کرنے کے بعد گرمیوں کے دنوں میں دوپہر کے وقت مدینہ سے باہر ایک درخت کے نیچے اپنے ہاتھ کا سرہانا بنائے محوِ آرام ہو جایا کرتے تھے۔ یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ قیصر روم کا نمائندہ جب آپؓ کی خدمت میں مدینہ آیا تو آپ کے محل کو تلاش کر رہا تھا لیکن جب اسے بتایا گیا کہ خلیفۂ راشد چراگاہ کی طرف جا رہے تھے تو وہ اسی طرف چل دیا۔ جب وہ چراگاہ میں داخل ہوا تو درخت کے نیچے زمین پر سوئے ہوئے فاتح فارس وروم کی اس سادگی اور خاکساری سے اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ تھر تھرکانپنے لگا۔ اتنی بڑی ریاست کا حکمران اور یہ سادگی! نہ محافظ‘ نہ دربان‘ نہ محل‘ نہ پُرتعیش سامانِ زیست! یہ طرزِ زندگی آج مسلم حکمرانوں ہی کو نہیں عوام الناس کو بھی گوارا نہیں۔ اسی دنیا پرستی نے ہم کو خزاں کے پتوں اور ریت کے ذروں سے بھی کمتر اور ہلکا کر دیا ہے! (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں