اہلِ خیر ہمیشہ زندہ رہتے ہیں

زندگی میں انسان کو بعض اوقات عجیب وغریب واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری یادداشت کے مطابق آج سے کم وبیش 45 سال قبل کا واقعہ ہے‘ جب میں نیروبی (کینیا) میں اسلامک فائونڈیشن کے ڈائریکٹر کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا۔ ہماری فائونڈیشن کے تحت بہت سے تعلیمی‘ رفاہی اور اصلاحی ادارے چل رہے تھے۔ ان سب اداروں‘ مساجد ومدارس‘ سکول ودارالاقیام اور میڈیکل ایڈ پروجیکٹس میں مفت خدمات فراہم کی جاتی تھیں۔ ہماری آمدن کا ذریعہ ایک تو شہر کے مرکز میں پانچ منزلہ بلڈنگ‘ قرآن ہائوس کے کرایہ جات تھے۔ دوسرا ذریعہ مخیر حضرات کی مالی اعانتیں تھیں۔ ایک مرتبہ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب اور کویت سے اعانت کی وصولی میں تاخیر ہو گئی جو کئی مہینے چلتی رہی۔ اس کی وجہ سے سخت مالی مشکلات کا سامنا ہوا۔ دن رات اسی کشمکش میں لمحات گزر رہے تھے۔ سنا تھا کہ راتوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں‘ اب اس کا براہِ راست تجربہ ہوا تھا۔
یہی صورت حال تھی کہ میں اگلے روز صبح اپنے رہائشی کمرے سے دفتر میں آیا تو ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ دفتر کے آپریٹر نے بتایا کہ کوئی شخص عربی زبان میں بات کر رہا ہے۔ میں نے ٹیلی فون اٹھایا تو دوسری طرف سے ایک شخص عربی میں بولا کہ ہم کویت سے سیاحت کے لیے آئے ہیں اور ہلٹن (Hilton) ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہم نے فون ڈائریکٹری میں دیکھنا چاہا کہ کوئی اسلامی ادارہ یہاں پر ہے تو آپ کے ادارے کا نمبر ہمارے سامنے آیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے ادارے کو وزٹ کریں۔ میں نے بڑی محبت کے ساتھ ان کو خوش آمدید کہا اور عرض کیا کہ ہمارا ادارہ بہت معروف جگہ پر ہے جسے ''قرآن ہائوس‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ ہلٹن ہوٹل سے پانچ چھ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں گاڑی بھیج دوں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں! ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے اور مقامی ڈرائیور جو ہمیں سیر وسیاحت کے لیے میسر ہے‘ اس کے ساتھ ہم تھوڑی دیر میں آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ میں نے اپنے سٹاف سے کہا کہ وہ سب تیار ہو جائیں‘ کچھ معزز مہمان آ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک مرد اور دو نوجوان خواتین دفتر میں داخل ہوئے۔ مرد ان کا ذاتی سیکرٹری تھا جبکہ خواتین کویت کے ایک بہت بڑے مالدار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ دونوں بہنیں تھیں۔ ایک کا نام سارہ مجھے پوری طرح یاد ہے۔ وہ کویت سے عربی زبان میں ایک ماہانہ رسالہ نکالتی تھیں جس کا نام ''اسرتی‘‘ (میرا خاندان) تھا۔ ان کے والد کویت کے بہت بڑے تاجر تھے۔ باہمی گفتگو کے دوران انہوں نے ہمارے ادارے کی تفصیلات جاننا چاہیں تو میں نے زبانی اور تحریری طور پر انہیں پوری معلومات فراہم کر دیں۔
اس ملاقات سے دونوں بہنیں بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاحتی پروگرام اور ا س کا پورا شیڈول تو پہلے سے طے شدہ ہے اس لیے ہم آپ کے کسی ادارے کو وزٹ نہیں کر سکیں گی۔ البتہ یہ بتائیے کہ کیا آپ ڈرافٹ کی صورت میں رقم وصول کر کے کیش کرا سکیں گے۔ میں نے کہا: بالکل! کوئی مسئلہ نہیں۔ انہوں نے ہمیں (غالباً) پچیس سو ڈالر عطیہ کیے جس کی شعبہ مالیات سے ان کو رسید جاری کر دی گئی۔ اس رقم نے ہمیں سانس لینے کے قابل بنا دیا۔ میں نے سعودی عرب میں برادرم رائو محمد اختر صاحب کو ٹیلی فون کر کے یہ تفصیل بتائی تو انہیں بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ مہمانوں کا رسالہ ''اسرتی‘‘ میرے سامنے ہے اور ان دونوں بہنوں نے پیشکش کی ہے کہ اگر ہم کویت جائیں اور ان سے ملاقات کریں تو وہ ہمارا تفصیلی انٹرویو اور ہمارے اداروں کا تعارف اپنے رسالے میں چھاپ دیں گی۔
رائو صاحب کچھ عرصہ کے بعد کویت گئے تو اس رسالے کے دفتر بھی حاضری دی اور پھر ان کا انٹرویو اس رسالے میں بہت آب وتاب سے چھپا۔ کویت میں ہمارے سرپرست اور مالی معاون جناب عبداللہ علی المطوّع المعروف ابوبدر تھے۔ انہی کی وساطت سے ہم کویت کے مختلف تاجروں سے ملا کرتے تھے اور وہ ایک فائل میں سب کے نام لکھ کر ان کے آگے اپنے قلم سے رقم بھی لکھ دیتے تھے کہ کس نے کتنے دینار دینے ہیں۔ عموماً سبھی لوگ ابوبدر صاحب کی تحریر کے مطابق ہمارے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ یہ نیا خاندان پہلی بار ہمارے رابطے میں آیا تھا ہمارے جانے کے بجائے اللہ نے جنہیں ہمارے پاس بھیج دیا۔ سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم۔
اس واقعہ کو 45 سال گزر چکے ہیں۔ اب میں ایک ہفت روزہ جریدے میں اپنی سوانح کے اہم واقعات لکھ رہا ہوں۔ ایک آرٹیکل میں کینیا کے قیام کے دوران اس واقعہ کا ذکر کیا۔ اسے جناب خالد اعظمی (حال مقیم کویت) نے پڑھا تو مجھ سے رابطہ کیا۔ موصوف صاحبِ مطالعہ ہونے کے ساتھ منجھے ہوئے قلمکار بھی ہیں۔ وہ ان دنوں ان دو بہنوں میں سے دوسری بہن‘ جن کا نام غنیمہ المرزوق تھا‘ کے حالات پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ انہی کے ذریعے معلوم ہوا کہ غنیمہ وفات پا چکی ہیں اور ان کی حیات وخدمات پر ایک کتاب مرتب کی جا رہی ہے۔ اس کتاب میں کچھ لکھنے کے لیے اعظمی صاحب نے مجھ سے فرمائش کی۔ میں عدیم الفرصت اور بوڑھا شخص ہوں‘ مگر خالد صاحب کے محبت بھرے انداز میں بار بار اصرار کرنے پر‘ نیز مرحومہ کے اس احسان پر جس کا تذکرہ اوپر ہوا‘ اظہارِ تشکرکے لیے یہ سطور لکھ رہا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی عظیم شخصیات کے احوال وآثار کو مرتب ومحفوظ کرنا ایک کارِ خیر ہے۔ ایسے اہلِ خیر کے کاموں کی تفاصیل سوتے ہوئوں کو جگانے اور غفلت میں پڑے ہوئوں کو بیدار کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ہم خالد اعظمی صاحب کو اس عظیم کارنامے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے ہر واقعہ پوری مستند معلومات کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔ غنیمہ المرزوق کی خدمات کے علاوہ اپنے پیش لفظ میں دیگر کئی اہلِ خیر خواتین کا تذکرہ بھی قلمبند کیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ میں زوال کے باوجود اہلِ خیر معدوم نہیں ہوئے بلکہ بعض اوقات بگڑتے ہوئے حالات میں یہ لوگ آگے بڑھ کر چراغ جلاتے اور خیر کے جھنڈے گاڑتے ہیں۔ یہی لوگ اس امت کا حُسن اور تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں سے امت مسلمہ کا دامن مزید بھر دے۔ آج غزہ میں جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے اس میں مدد کرنے کے لیے امت مسلمہ میں بے شمار افراد اور ادارے موجود ہیں‘ مگر بدقسمتی سے سب راستے بند کیے گئے ہیں اور ظلم کی یہ داستان طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ رب العالمین ان مظلومین کی حفاظت و مدد کے لیے اپنی قدرتِ کاملہ سے راستے کھول دے اور ظالم صہیونیوں کو عبرت کا نشان بنا دے۔
مرحومہ غنیمہ المرزوق اپنے ملک اور آس پاس کے عرب ممالک میں بہت سے خیراتی‘ فلاحی اور اصلاحی ادارے چلا رہی تھیں۔ وہ انسانوں کی فلاح وبہبود کے ساتھ ان کی تہذیبی ودینی تربیت کے لیے بھی فکرمند رہتی تھیں۔ یہ صفات جن لوگوں کے اندر پائی جائیں وہ کائنات کا حسن اور انسانیت کا فخر ہوتے ہیں۔ مذکورہ کتاب میں مولّف نے مرحومہ کی خدمات کا جس انداز میں تذکرہ کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کی شخصیت کتنی جامع‘ صاحبِ بصیرت اور قابلِ تحسین تھی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلّف کو اس تصنیف کے مرتب کرنے پر بہترین اجر عطا فرمائے۔ ہماری یہ بھی التجا ہے کہ وہ رحمان ورحیم ذات اپنی اس نیک نہاد‘ خادمِ خلق اور فلاحِ انسانیت کے کارنامے سرانجام دینے والی بندی سے خوش ہو جائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنا دے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل اور اجر جزیل سے نوازے‘ آمین!
الھم اغفرلھا وارحمھا وادخلھا الجنۃ الفردوس۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں