حضرت ابوذر غفاریؓ کا زہد وتقویٰ اور ان کی دنیا سے بے رغبتی کمال درجے کی تھی۔ دو وقت کی روٹی اور ایک لباس‘ سواری کیلئے ایک گدھا اور سر چھپانے کیلئے ایک کٹیا۔ اس سے زائد کو آپؓ اسراف سمجھتے تھے اور جب مالدار لوگوں کو دیکھتے تو شدید تنقید کرتے۔ حضور اکرمﷺ نے آپؓ کو فرمایا تھا کہ ابوذر! تمہیں مسجد سے نکل جانے کا حکم ملے گا تو اس کی اطاعت کرنا۔ آنحضورﷺ کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہوا تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق اور خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے دور میں سادگی تھی اس لیے حضرت ابوذر غفاریؓ کا لب و لہجہ زیادہ سخت نہیں تھا۔ البتہ جب حضرت عثمان غنیؓ کا دور آیا تو حکومت کے پاس چونکہ دولت بھی بہت آگئی تھی‘ ملکوں پہ ملک فتح ہو چکے تھے اور لوگوں نے پُرتعیش رہائشیں اور زندگی کے امور ومعاملات میں کھلے خرچ کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس موقع پر حضرت ابوذر غفاریؓ کا لب ولہجہ بھی شدت اختیار کر گیا۔
حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں فتوحاتِ بلادِ شرق وغرب کا سلسلہ شروع ہو ا تو مدینہ کی اسلامی ریاست کے مالی وسائل میں معقول اضافہ ہو ا؛ چنانچہ خلیفہ راشد نے تمام صحابہ کے مدارج کے مطابق سالانہ وظائف مقرر کر دیے‘ جو اُن کو اُن کے گھروں میں وصول ہو جاتے تھے۔ حضرت ابوذرؓ کا وظیفہ چار ہزار درہم مقرر ہوا۔ آپؓ اپنی بنیادی ضروریات اور روزمرہ گھریلو اخراجات کیلئے بقدر کفاف رقم اپنے پاس رکھ لیتے۔ باقی ساری دولت غربا و مساکین میں تقسیم کر دیتے تھے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کا زہد وتقویٰ بہت مثالی تھا۔ دولت جمع کرنے اور پُرتعیش زندگی گزارنے پر آپ کی تنقید سے بعض صحابہ ناراض بھی ہوتے تھے مگر آپؓ اپنی ڈگر پر قائم رہے۔ حضور اکرمﷺ اور صاحبینؓ کی خلافت کے بعد فتوحات سے مالِ غنیمت اور جزیے کی بڑی رقوم آنے کے وجہ سے لوگوں کی زندگیوں اور رہن سہن میں بڑی تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ ابوذر غفاریؓ دولت کی فراوانی کے زمانے میں لوگوں کی پُرتعیش زندگی پر شدید اور سرعام تنقید کرتے تھے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا کہ ابوذر میری امت میں عیسیٰ ابن مریم کی مثال ہیں۔ (اسد الغابہ 5/18‘ الاستعیاب میں بھی حضرت ابوذرؓ کے حالات میں یہ قول نقل کیا گیا ہے)
قرآن پاک میں آیت ہے: ''دردناک سزا کی خوشخبری دو اُن کو جو سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (کہا جائے گا) یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا‘ لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو‘‘ (التوبہ: 34 تا 35)۔ حضرت ابوذر غفاریؓ مذکورہ آیت کا حوالہ دیتے تھے۔ کئی اہلِ ایمان کہتے: یہ تو اہلِ کتاب کے بارے میں ہے۔ اس پر حضرت ابوذر غفاریؓ سخت غصے میں آ جاتے اور فرماتے: یہ ان کے بارے میں بھی ہے اور ہمارے بارے میں بھی۔ تم قرآن کی ایسی تاویل نہ کرو جو اس کی روح کے خلاف ہو۔ اسی طرح حضرت ابوذرؓ سورۃ البقرہ کی آیت: 219 کا حوالہ دے کر فرمایا کرتے تھے کہ اپنی بنیادی اور جائز ضروریات سے زائد مال ودولت جمع کرنے کے بجائے غربا ومساکین پر خرچ کر و۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: ''پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے‘ شاید کہ تم دنیا وآخرت دونوں کی فکر کرو‘‘ (البقرہ: 219)
خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں جب حضرت ابوذرؓ کا سلسلۂ تنقید زیادہ شدت اختیار کرنے لگا تو خلیفہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ شام چلے جائیں۔ شام میں بھی ان کا یہ سلسلۂ تنقید جاری رہا بلکہ وہاں کے حالات کو دیکھ کر اس میں اور شدت آ گئی۔ شام کے گورنر حضرت امیر معاویہؓ نے خلیفہ سے شکایت کی تو انہوں نے حضرت ابوذرؓ کو مدینہ واپس بلا بھیجا۔ یہاں ان کے گرد کئی صحابہ محبت وعقیدت کے ساتھ جمع ہو جاتے تھے اور وہ اپنے خیالات کا اظہار بآواز بلند کرتے تھے۔ اب چند افراد کی مشاورت سے فیصلہ کیا گیا کہ ابوذر غفاریؓ کو ربذہ کی بستی میں سکونت اختیار کرنے کیلئے مدینہ سے وہاں منتقل کر دیا جائے۔ یہ جزیرہ نمائے عرب اور عراق کی سرحد پر واقع تھی۔ حکومت کے اس حکم کو آپؓ نے تسلیم کیا اور آنحضورﷺ کا فرمان دہراتے ہوئے کہا کہ میرے حبیبﷺ نے مجھ سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ یہ وقت آئے گا اور آپﷺ نے مجھے اطاعت کرنے کی تلقین کی تھی‘ لہٰذا میں اس پر عمل درآمد کروں گا۔
جب آپؓ ربذہ میں پہنچے اور عراق کے لوگوں کو اس واقعے کا علم ہوا تو ان کی بڑی تعداد آپؓ کے پاس ربذہ میں آئی۔ انہوں نے کہا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کو خلیفہ نے مدینہ سے نکال دیا ہے‘ ہم آپ کے گرد ایک لاکھ مسلح جنگجو جمع کر دیں گے‘ آپ اپنی حکومت کا اعلان کر دیں۔ اس پر آپ نے ان لوگوں کو سختی کے ساتھ ڈانٹا اور فرمایا کہ میں خلیفہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ جان لو کہ جو امیر کی مخالفت کرے گا وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہو گا اور اگر تم نے بغاوت کی تو سب سے پہلے خلیفہ کی طرف سے میں تمہارا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا ہو جائوں گا۔آپؓ کے آخری وقت کا منظر تاریخ میں تفصیل سے نقل کیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ ہم یہاں تاریخ واحادیث کی کتب سے پیش کر رہے ہیں۔
حضرت ابوذر غفاریؓ کی وفات کا واقعہ نہایت حسرت انگیز ہے۔ آپؓ نے 31ھ میں ربذہ کے ویرانہ میں وفات پائی۔ آپؓ کی زوجہ محترمہ نے وفات کے حالات یوں بیان کیے ہیں: ''جب ابوذرؓ کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو میں رونے لگی‘ پوچھا: کیوں روتی ہو؟ میں نے کہا کہ آپ ایک صحرا میں سفر آخرت کر رہے ہیں‘ یہاں میرے اور آپ کے استعمالی کپڑوں کے علاوہ کوئی ایسا کپڑا نہیں ہے جو آپ کے کفن کے کام آئے‘‘۔ یہ سن کر آپؓ نے فرمایا: رونا موقوف کرو‘ میں تم کو ایک خوشخبری سناتا ہوں‘ میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے جس مسلمان کے دو یا تین لڑکے مر چکے ہوں وہ آگ سے بچانے کیلئے کافی ہیں۔ اس کے علاوہ آپﷺ نے چند آدمیوں کے سامنے‘ جن میں ایک میں بھی تھا‘ یہ فرمایا کہ تم میں سے ایک شخص صحرا میں مرے گا اور اس کی موت کے وقت وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت پہنچ جائے گی‘ میرے علاوہ ان صحابہ میں سے سب آبادیوں میں مر چکے ہیں‘ اب صر ف میں باقی رہ گیا ہوں‘ اس لیے وہ شخص یقینا میں ہی ہوں اور میں بحلف کہتا ہوں کہ نہ میں نے تم سے جھوٹ بیان کیا ہے اور نہ کہنے والے نے جھوٹ کہا ہے۔ اس لیے گزرگاہ پر جاکر دیکھو یہ غیبی امداد ضرور آتی ہو گی۔ میں نے کہا: جناب اب تو حجاج بھی واپس جاچکے اور راستہ بند ہو چکا۔ فرمایا: نہیں جاکر دیکھو؛ چنانچہ میں ایک طرف دوڑ کر ٹیلے پر چڑھ کر دیکھنے جاتی تھی اور دوسری طرف بھاگ کران کی تیمارداری کرتی تھی۔
حضرت ابوذر غفاریؓ نے ساری زندگی جفاکشی اور جدوجہد میں گزاری۔ آپؓ عبادت گزار بھی تھے اور مردِ مجاہد بھی۔ اس کے ساتھ آپؓ دنیا کی عیش وعشرت سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ آپؓ کے دل میں جنت کی طلب اور رضائے الٰہی کی تمنا ہمیشہ موجزن رہی۔ اللہ نے آپؓ کو اہل وعیال بھی ایسے عطا فرمائے جو آخر دم تک بغیر کسی شکوے شکایت کے آپؓ کے ساتھ خوش خوش زندگی گزارتے رہے۔ آپؓ کا ایک بیٹا ذر تھا جو ڈاکوئوں کے ایک حملے کے دوران جوانی میں شہید ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ آپؓ کے بچوں میں ایک بیٹی کا تذکرہ ملتا ہے جو آپؓ کی وفات کے وقت اپنی والدہ کے ساتھ آپ کے پاس تھی۔ رضی اللہ عنہم۔ (جاری)