"IYC" (space) message & send to 7575

لاحاصل منزل کا مسافر!

پہلے صرف سن رکھا تھا کہ شہرت اور مقبولیت کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے لیکن اب اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ لیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت اِن دنوں اپنے جارحانہ طرزِ سیاست کی وجہ سے اداروں کے حوالے سے غیر ضروری بیانات دے رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان صاحب جارحانہ اندازِ سیاست اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے نئے بیانیے کی کامیاب مارکیٹنگ کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی دوسری سیاسی جماعت اتنا بڑا پاور شو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ گزشتہ اتوار فیصل آباد میں منعقدہ جلسے میں وہ ایک اہم عہدے پر تعیناتی کے حوالے سے جس طرح کی بیان بازی کر چکے ہیں وہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم کے شایانِ شان نہیں۔ اس سے پہلے خان صاحب کے چیف آف سٹاف شہباز گل بھی ریاستی اداروں کے حوالے سے متنازع بیان بازی کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ خان صاحب شاید یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ وہ اس وقت ایک پاپولر لیڈر کے بجائے ایک پاپولسٹ لیڈر کی سیاست کر رہے ہیں۔ ایک پاپولر لیڈر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنی شہرت کا غلط استعمال نہیں کرتا‘ نہ ہی ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتا ہے لیکن اس کے برعکس ایک پاپولسٹ لیڈر محض عوام کے من پسند نعرے لگا کر‘ ان کی محرومیوں اور تعصبات کو ہوا دے کر اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنا راستہ صاف کرتا ہے۔ قومی مفادات اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتے۔ افسوس کہ عمران خان 2014ء میں دھرنا سیاست سے ملنے والی مقبولیت کے بعد سے اسی روش پر چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔
عمران خان بلاتاخیر عام انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس وقت مقبولیت کی جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ انہیں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جلد انتخابات کروانے کے پیچھے ان کا ایک مقصد نومبر میں ہونے والی ایک اہم تعیناتی بھی ہے۔ خان صاحب چاہتے ہیں کہ وہ یہ تعیناتی اپنی مرضی سے کریں لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان یہ موقع گنوا چکے ہیں۔ سیلاب سے ہوئی تباہی اور اس سے قبل آئی ایم ایف والے معاملے کی بدولت‘عمر ان خان کے لیے اپنی باتیں منوانے کا مناسب وقت اب گزر چکا ہے۔ اگر خان صاحب اگست میں قومی اسمبلی تڑوانے میں کامیاب ہو جاتے تو پھر ممکن تھا کہ وہ نومبر میں الیکشن جیت کر اپنی مرضی کی تعیناتی کر سکتے۔ ان کے پاس یہ موقع بھی تھا کہ اگر وہ پنجاب میں حکومت حاصل کرتے ہی اسلام آباد کی طرف چل پڑتے تو ممکن تھا کہ وفاقی حکومت خود کو پنجاب اور کے پی سے آئے پی ٹی آئی کے کارکنوں میں گھرا دیکھ کر عام انتخابات کے جلد انعقاد کا اعلان کر دیتی کیونکہ ایسی صورت میں حکومت کے پاس چوائسس کم ہوتے لیکن عمران خان یکسوئی سے یہ مقصد حاصل کرنے کے بجائے‘ مخالفین کے ساتھ الجھنے کے مشن پر چل نکلے۔ خان صاحب کا اس سب کے پیچھے بظاہر مقصد یہی تھا کہ وہ اداروں پر دباؤ بڑھا کر انہیں اپنے بارے میں پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ کریں اور ادارے نیوٹرل رہنے کے بجائے ان کی سرپرستی شروع کردیں۔ بیک وقت اتنے محاذ کھولنے سے عمران خان جلد انتخابات کے مقصد سے بہت دور ہوگئے۔ اب جبکہ نومبر قریب آرہا ہے تو عمران خان اس تعیناتی کے حوالے سے اپنا اِن پٹ چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے حالیہ بیان داغا ہے۔
عمران خان کے بعض ناقدین کے مطابق کپتان یہیں پر غلطی کے مرتکب ہو ر ہے ہیں۔ خان صاحب کو کم از کم اس معاملے میں ماضی سے کچھ سیکھ لینا چاہیے تھا۔ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ریاستی اہلکار کسی سیاستدان یا سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ صرف ریاست کے وفادار ہوتے ہیں۔ بطور ریاستی اہلکار‘ ان کی ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہیں اور ان پر کئی ضابطوں کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 7ویں نمبر کی سنیارٹی سے اٹھا کر ضیاء الحق کو آرمی چیف لگایا‘ یہ سوچ کر کہ ضیاء الحق ہمیشہ میرے ممنون رہیں گے لیکن نتیجہ بھٹو کی پھانسی کی صورت میں نکلا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے سب سے زیادہ آرمی چیف مقرر کیے۔ آصف نواز جنجوعہ وہ پہلے جرنیل تھے جنہیں نواز شریف نے بطور آرمی چیف تعینات کیا تھا لیکن ان سے فوری اختلافات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پرویز مشرف کو بھی خود نواز شریف نے آرمی چیف تعینات کیا تھا لیکن پھر انہی کے ہاتھوں وہ معزول ہوئے۔ پرویز مشرف کے بعد آنے والے بھی ریاست کے وفادار ثابت ہوئے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ عمران خان تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اس موضوع پر بیان بازی سے گریز کریں۔ دوسری جانب انہیں یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وہ اس وقت اہم تقرری کے حوالے سے غیر متعلق ہوچکے ہیں ‘موجودہ چیف کو ایکسٹینشن دینی ہے یا نیا چیف مقرر کرنا ہے‘ اس کا فیصلہ اب وزیراعظم شہباز شریف نے کرنا ہے ، عمران خان نے نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اس وقت اپنی پاپولسٹ سیاست کے بل پر سب کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ ماضی میں انہیں اس رویے کے حوصلہ افزا نتائج مل چکے ہیں۔ جب اقتدار میں تھے تو انہوں نے اپوزیشن کو اپنی جارحانہ پالیسی کے ذریعے دیوار سے لگائے رکھا۔ حال ہی میں انہوں نے الیکشن کمیشن اورکچھ دیگر اداروں پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی۔ ان کا نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے بیان بھی اسی تناظر میں ہے۔ دراصل وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے سخت بیانوں سے وہ پالیسی سازوں کو اپنے دباؤ میں لے آئیں گے مگر زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔اس لیے لگتا یہ ہے کہ اس دفعہ عمران خان کی یہ کوشش بار آور ثابت نہیں ہوسکے گی۔ انہیں پہلے ہی اپنے متنازع اور سخت بیانات کی بنا پر اتنی سپیس دی جاچکی ہے جس کا نواز شریف یا آصف زرداری کے لیے تصور کرنا بھی محال تھا لیکن اب صورتحال روز بروز تبدیل ہو رہی ہے۔ عمران خان اپنا تقابل بھٹو سے کرتے ہیں اور انہی کی غلطی بھی دہرا رہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے بھی اپنی مقبولیت کے زعم میں ملتان میں ایک تقریر کی تھی۔ اُس تقریر کے بعد جو ہوا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بھٹو صاحب اس وقت مصلحت پسندی سے کام لیتے تو شاید آج ملکی تاریخ مختلف ہوتی۔ عمران خان کو بھی سمجھنا چاہیے کہ سیاستدان کا کام ہر معاملے کو ٹھنڈے دل سے نمٹانا ہوتا ہے؛ تاہم خان صاحب جس روش پر چل نکلے ہیں اس کے آگے لاحاصل منزلوں کے سوا کچھ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں