پاکستان کے مسائل یقینابہت بڑے ہیں‘ لیکن اتنے گمبھیر نہیں کہ اگر ہم نیک نیتی کے ساتھ ان کو نمٹانے کی کوشش کریں تو یہ نمٹ نہ سکیں۔ بھارتی لابی کی زوردار کوششوں اور مغربی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کے باوجود اگر پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے تو یہ معمولی کامیابی نہیں۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ٹیرر فنانسنگ یعنی دہشت گردوں کو فنڈنگ اور منی لانڈرنگ جیسے سنگین الزامات سے بچ نکلنے میں اس لئے کامیاب ہوئے کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں نے مل کر اس چیلنج کا سامنا کیا۔ دوسری صورت میں ہمارے سر پر فیٹف کی لٹکتی تلوار نے نہ صرف یورپی یونین کے ساتھ ہمارے جی ایس پی پلس معاہدے کو مشکل میں ڈال رکھا تھابلکہ ہمارے بینکنگ سیکٹر سے ہوئی ٹرانزیکشنز کو بھی عالمی سطح پر مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے بے ساختہ یہ سوچ ابھرتی ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ تمام سیاسی جماعتیں اور قومی ادارے مل بیٹھ کر گورننس کے حوالے سے کچھ رہنما اصول طے کرلیں ‘ جس کے نتیجے میں ہمارا سسٹم ملک کے مستقبل اور عام پاکستانی کیلئے ڈیلیور کرنا شروع کردے۔اگر ہم یکساں مفادات کو دماغ میں رکھتے ہوئے ایٹمی پروگرام جیسا مشکل منصوبہ کامیابی سے تشکیل دے سکتے ہیں تو کیا یہی سوچ اپنا کر معیشت ‘ توانائی ‘بے روزگاری ‘ دہشت گردی‘ آبادی کے بڑھتے مسائل اور ماحولیاتی آلودگی کے چیلنجز سے نہیں نمٹ سکتے؟
گزشتہ تین دنوں سے یہ خبریں گردش میں ہیں کہ میثاقِ معیشت ‘ ادارہ جاتی اصلاحات اور قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین رابطے شروع ہوچکے ہیں‘ جو بلاشبہ گزشتہ ایک سال سے وقوع پذیر ہونے والے سیاسی بھونچال کی سب سے خوش کن اور بہترین خبر ہے ‘ جس کے حوالے سے امید ہے کہ کوئی مثبت پیشرفت سامنے آئے گی۔ یاد رہے کہ فیٹف سے نکلنے کیلئے پاکستان کو دو ایکشن پلانز پر عمل کرنا تھا جن میں سے ایک تو مالیاتی نظام کو مضبوط کر کے منی لانڈرنگ کا سدباب کرنا تھا تو دوسری طرف داخلی سطح پر ان افراد اور ان تنظیموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا تھا جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ فیٹف کے صدر ٹی راجا کمار نے پیرس میں ہوئے اجلاس میں پاکستان کی اس پیشرفت کا خیرمقدم اور ستائش کرتے ہوئے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان 2018ء سے گرے لسٹ میں تھا اور حکام کی جانب سے بڑی محنت کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے حوالے سے کمزوری پر قابو پاتے ہوئے 34 نکات پر عمل درآمد مکمل کرلیا گیا۔پاکستان اب انسداد منی لانڈرنگ و دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے انسداد پر مؤثر کام کر رہا ہے‘ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں اس ضمن میں اصلاحات کی گئی ہیں اور اصلاحات جاری رکھنے کے لیے اعلیٰ سطح کی قابلیت اور عزم ہے ‘یہ اصلاحات ملک اور خطے کے استحکام اور سلامتی کے لیے اچھی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں مزید کام کی ضرورت نہیں۔ہمیں امید ہے پاکستان نظام کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کے ریجنل شراکت دار ایشیا پیسفک گروپ سے تعاون جاری رکھے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان سب سے پہلے 2008ء میں فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہوا جب ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی جبکہ پاکستان پر کراس بارڈر ٹیرر ازم کے الزامات بھی لگائے جاتے تھے۔ ایک سال بعد پاکستان اس لسٹ سے نکل گیا مگر 2012ء میں دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کرلیا گیا ‘ لیکن 2015ء میں پاکستان اس سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا‘ لیکن جب جون 2018ء میں پاکستان کو اس لسٹ میں شامل کیا گیا ‘ جس میں یہ امکانات پیدا ہونا شروع ہوئے کہ پاکستان گرے سے بلیک لسٹ میں داخل ہوکر عالمی سطح پر اپنی تجارت اور بینکنگ ٹرانزیکشنز پر پابندی لگوا سکتا ہے ‘ جس کے بعد ریاستی سطح پر اس سے نمٹنے کیلئے اقدامات شروع ہوئے۔ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کلیدی کردارادا کیا۔ انہوں نے فیٹف شرائط پرعملدرآمد یقینی بنانے کیلئے جی ایچ کیو میں ایک سپیشل سیل قائم کیا اور ایک میجر جنرل کی سربراہی میں سپیشل سیل نے وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان روابط کانظام بنایا۔سپیشل سیل نے ہر ایک نکتے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا اور منی لانڈرنگ‘ ٹیرر فنانسنگ اور بھتہ خوری پرمؤثرلائحہ عمل سے قابو پایا۔سپیشل سیل نے اغوابرائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ جیسی وارداتوں پر مؤثرلائحہ عمل سے قابو پایا اور بھارتی پراپیگنڈے کا بھی منہ توڑ جواب دیا۔ پاکستان میں منی لانڈرنگ کے 800 سے زائد کیسز درج کئے گئے جن پر گزشتہ 13 مہینوں کے دوران تحقیقات مکمل کی گئیں اور58 ارب کے اثاثے ضبط کیے گئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان نے 26ہزار630 بین الاقوامی درخواستوں پر کارروائی کی‘ ایف بی آر نے 1700 سے زائد نامزد غیرمالیاتی کاروبار اور پیشوں کی نگرانی کی اور 35کروڑ روپے کے جرمانے عائد کیے۔ اسی طرح ایف بی آر نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکسز کے دائرے میں شامل کیا‘ ایس ای سی پی نے قانونی تعمیل میں دو ارب روپے سے زائد کے جرمانے عائد کیے۔یہ کارروائی اس لئے بھی ضروری تھی کیونکہ فیٹف کی گرے لسٹ میں رہنے سے قومی معیشت پر کئی طرح کے منفی اثرات برقرار رہتے ہیں ‘ جس سے مقامی سرمایہ کاری‘ برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوتی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق جب پاکستان 2009ء اور 2015ء میں گرے لسٹ سے نکلا تو اس کے بعد بھی اس کے اثرات پاکستانی معیشت پر موجود رہے اور اب بھی پاکستان کو سنبھلنے کیلئے ایک سال تک کے وقت کی ضرورت ہے۔اگر ہم گرے لسٹ میں شامل رہتے تو پاکستان کیلئے عالمی مارکیٹ کی رسائی مزید مشکل ہوجاتی۔ پاکستان کی ایکسپورٹس کو نقصان پہنچتا ‘ گرے لسٹ میں جانے سے ہونے والی ہر ٹرانزکشن کو اور بھی زیادہ جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا یعنی جب بھی کوئی پاکستانی بینک دنیا میں کسی پاکستانی کیلئے کوئی رقم منتقل کرنا چاہتا تو اس حوالے سے پہلے سے پوری تفصیلات بتا دینے پر بھی مزید سوالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی طرح دنیا بھر میں ٹریڈنگ کرنے کیلئے لیٹر آف کریڈٹ کھلوانا اور مہنگا ہوجاتا اور یوں باہر سے آنے والا مال مہنگا ہوجاتا اور پاکستان سے مال باہر بھیجنا مشکل ہوجاتا۔ ان حالات میں ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ دنیا بھر سے قرضہ لینا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا۔
قصہ مختصر یہ کہ جب ریاست اور حکومت یکجا ہوئی تو پاکستان فیٹف کے وبال سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوا۔ جنرل قمر جاویدباجوہ کی کوششوں کے علاوہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے بھی اس حوالے سے سنجیدگی سے کام کیا جبکہ موجودہ حکومت سنبھالتے ہی وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے امریکہ سے سر د مہری کے تعلقات ختم کرکے ‘ بائیڈن انتظامیہ کو فیٹف کے حوالے سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی جانب راغب کیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ریاست کے سبھی سٹیک ہولڈرزاپنی انائیں قربان کرکے قومی مفاد کیلئے یکجا ہوجائیں ‘ اگر 2018ء میں ایسا ہوتا تو ہمیں دوبارہ فیٹف کی گرے لسٹ میں نہ جانا پڑتا اور نہ ہی عالمی اعتماد حاصل کرنے کا یہ سفر ہمیں دوبارہ شروع کرنا پڑتا۔ خدارا‘ اس سے کچھ سبق سیکھیں‘ پاکستان کے اہم مسائل پر اکٹھے ہوں ‘ گورننس کے رہنما اصول طے کریں اور پاکستان کی دائروں میں سفر کرنے کی 75 سالہ روایت کو توڑتے ہوئے مستحکم مستقبل کے راستوں کے مسافر بنیں۔