عمران خان کا لانگ مارچ پہلے شروع نہیں ہو پا رہا تھا اور اب ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ وجہ اس وقت بھی شاید وہی تھی جو اب ہو سکتی ہے‘ وہ یہ کہ تحریک انصاف کے چیئرمین چاہتے ہیں کہ طاقتور حلقے مذاکرات کرکے ان کو سیاسی طور پر ریلیف دلوائیں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ لانگ مارچ میں لوگوں کا اتنا ہجوم ہے کہ یہ لانگ مارچ 4 نومبر کی طے شدہ تاریخ کو اسلام آباد نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن کیا کریں‘ کانوں کا سنا تو جھٹلایا جا سکتا ہے آنکھوں کا دیکھا نہیں۔ کپتان کے لانگ مارچ میں لوگ ہیں‘ ہجوم ہے لیکن نہ تو اس کا مقابلہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر لاہور کے تاریخی جلسے سے ہے اور نہ عدلیہ بحالی تحریک والے جمِ غفیر سے‘ جس میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ لانگ مارچ کو مزید طویل کرنے کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ شاید عمران خان کوئی ڈیل چاہتے ہیں اور اگر طاقتور حلقے ڈیل کرنے کو تیار نہیں تو کپتان کی خواہش ہوگی کہ کم از کم یہ حلقے ان کو اور حکومت کو ایک ساتھ بٹھانے میں اپنا کردار ادا کریں‘ جیسے ماضی میں مقتدرہ متحارب گروپوں کے درمیان آئس بریکر کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ دراصل عمران خان اپنے سیاسی مخالفین سے متعلق ایسی ایسی بیان بازی کر چکے ہیں کہ اب وزیراعظم شہباز شریف جیسا معتدل سیاست دان بھی ان سے مذاکرات کو تیار نہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مطالبات ماننے سے منع کردیا ہے۔ اپنی ٹویٹ میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں نے شہباز شریف سے کہہ دیا ہے یہ دو ہزارکا جتھہ لے آئے یا 20 ہزار کا‘ نہ کوئی مطالبہ سننا ہے نہ ہی فیس سیونگ دینی ہے۔
دوسری جانب‘ عمران خان اپنے بیانات میں مقتدر حلقوں کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ڈی جی آئی ایس آئی کی غیرمعمولی پریس کانفرنس نے یہ واضح کردیا کہ فوج نے اپنے آپ کو آئینی کردار تک محدود کر لیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئندہ آنے والی قیادت نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سیاست سے دور صرف اپنے آئینی کردار تک محدود رہے گی۔ لگتا ہے کہ اس اعلان سے خان صاحب کی بے تابی اور بے چینی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ کسی بھی قسم کی ڈیل‘ سیاسی فائدہ یا فیس سیونگ حاصل کرسکتے ہیں تو ان کے پاس صرف یہ مہینہ ہے۔ جیسے ہی نئے آرمی چیف کا اعلان ہوگا اس کے بعد بہت سے معاملات تبدیل ہو جائیں گے۔ نئے آرمی چیف کے آنے کا مطلب نئی فوجی قیادت اور نئی ٹیم کا اہم عہدوں پر براجمان ہونا ہے اور لگتا ہے کہ خان صاحب چاہتے ہیں کہ وہ نئی آنے والی قیادت پر ابھی سے دباؤ بڑھا دیں۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنے لانگ مارچ کا دورانیہ بڑھا دیا ہے تاکہ ان کے بیک ڈور رابطے ازسر نو استوار ہونے کے امکانات بڑھ جائیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس سے عمران خان کے لانگ مارچ کی ناکامی کے چانسز بھی بڑھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ عمران خان کے ساتھ کراؤڈ تو ہے لیکن وہ ہرگز اتنی بڑی تعداد میں نہیں اور نہ ہی اتنا چارجڈ کراؤڈ ہے کہ جو ملک میں حقیقی آزادی یا کسی انقلاب کی بنیاد رکھ سکے۔ اگر یہی معاملات رہے تو پھر حقیقی آزادی کا قلعہ شیخ چلی کے ہوائی قلعے سے مختلف نہیں ہوگا جس کی بنیادیں کہیں نہیں ہوں گی۔ جیسے جیسے اس مارچ کا دورانیہ بڑھتا جائے گا ویسے ویسے لوگ تھکتے جائیں گے اور اوپر سے جب تحریک انصاف کے الیکٹ ایبلز دیکھیں گے کہ طاقتور حلقے واقعی نیوٹرل ہو چکے ہیں تو وہ بھی مایوس ہو جائیں گے‘ جن میں سے بیشتر کا پہلے سے ہی یہ مؤقف ہے کہ خان صاحب اداروں کے خلاف سخت بیانیہ بنانے کے بجائے یا تو پارلیمنٹ چلیں یا حکومت کے ساتھ سیاسی معاملات طے کرکے اس بند گلی سے نکلیں۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق عمران خان کو ایک اور نقصان یہ ہورہا ہے کہ ان کے سیاسی بیانیوں کی قلعی ایک ایک کرکے کھلتی جارہی ہے۔ امریکی سازش والا بیانیہ تو آڈیو لیک اور حالیہ پریس کانفرنس کے بعد زمین بوس ہوچکا ہے۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ عمران خان دراصل سیاسی فائدے کے لیے سائفر سے کھیل رہے تھے۔ اس کے بعد حقیقی آزادی کا بیانیہ‘ ان خبروں کے بعد کہ خان صاحب اپنی حکومت بچانے کے لیے آرمی چیف کو مدتِ ملازمت میں توسیع دینے پر تیار تھے‘ پھر مرضی کا آرمی چیف لگانے کی ضد اور پھر موجودہ چیف سے ایوانِ صدر میں خفیہ ملاقاتوں کی خبروں کے بعد سے دھڑام سے گر چکا ہے۔ جب تحریک انصاف کی قیادت کے طرزِ عمل نے خود ہی واضح کردیا کہ وہ اقتدار میں واپس آنے کے لیے عوامی طاقت سے زیادہ کسی اور راستے کی تلاش میں ہے‘ تو پھر حقیقی آزادی کہاں سے آگئی؟
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف بالفرض اگر کسی طرح اقتدار میں آ بھی جاتی ہے تو اس کے پاس قومی مسائل کا حل کیا ہے؟ آج کے دور میں کوئی بھی ملک بیرونی دنیا سے خوشگوار سیاسی و تجارتی تعلقات کے بغیر خوشحال نہیں رہ سکتا لیکن پی ٹی آئی حکومت کا حال یہ تھا کہ جب یہ اقتدار سے گئی تو دفتر خارجہ میں یہ مشہور تھا کہ اس حکومت نے اپنی پالیسیوں سے 160ممالک کو پاکستان سے ناراض کردیا ہے۔ پھر سائفر بیانیے کے نام پر عمران خان نے امریکہ کو نشانے پر رکھ لیا‘ جس کا خمیازہ ہمیں آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف میں بھگتنا پڑا۔ دوسر ی جانب چین سی پیک منصوبے پر بریکیں لگنے سے سیخ پا ہو گیا۔ سعودی شہزادے کی تحفے میں دی گئی گھڑی بیچ کر سعودی عرب جیسے دیرینہ دوست کو بھی پاکستان سے دور کر دیا۔ معیشت کا جو حشر ہوا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اسی لیے غیر جانبدار تجزیہ کار اس وقت خان صاحب کے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اداروں پر تنقید کو غیر سنجیدہ اور غیر ضروری قرار دے رہے ہیں۔
زمینی حقائق دیکھیں تو پاکستان اس وقت معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے‘ ایسے میں وزیراعظم کا دورۂ چین بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں امید کی جارہی ہے کہ سی پیک پروجیکٹ کا نئے سرے سے احیا ہوگا جس کے نتیجے میںاربوں ڈالر کے نئے پروجیکٹ پاکستان میں شروع ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح شہباز شریف کے حالیہ دورۂ سعودی عرب نے دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلائی نتیجتاً سعودیوں نے پاکستان میں 10 سے 12 ارب ڈالر کی آئل ریفائنری میں سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ پھر وزیراعظم نے 1800 ارب کا کسان پیکیج دے کر یہ امیدزندہ کی ہے کہ سیلاب سے تباہ حال زرعی معیشت میں جان پڑے گی۔ حکومتی وزرا کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی واپسی نے ڈالر کو قابو میں کیا ہے جس سے مہنگائی اور قرضوں کے بوجھ میں کمی آئی ہے۔ اگر ایسے میں اتحادی حکومت چاہتی ہے کہ وہ اپنی بقیہ مدت پوری کرے‘ معیشت کو سہارا دے اور اپنا خرچ شدہ سیاسی سرمایہ دوبارہ حاصل کرکے الیکشن کروائے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ اگر ادارے تاریخ کو دہرانے سے اجتناب کررہے ہیں تو تحریک انصاف کی قیادت کیوں انہیں دوبارہ سیاست میں اپنے حق میں مداخلت کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے؟ اگر تحریک انصاف کی قیادت واقعی ملک و قوم سے مخلص ہے تو ملک کو بند گلی میں لاکھڑا کرنے کے بجائے وہ پارلیمنٹ جائے اور وہاں سے اقتدار میں دوبارہ واپسی کا راستہ تلاش کرے۔