جب پاکستانی سیاسی نظام کے حوالے سے ناقدین کہتے ہیں کہ اس ملک پر گورننس یا حکومت کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے تو برا معلوم ہوتا ہے‘ لیکن جب آس پاس پھیلے تلخ حقائق اور اپنے لیڈروں کے رویے دیکھتے ہیں تو بادل نخواستہ یہ بات درست لگنے لگتی ہے۔ جس ملک میں سیاست‘ اقتدار اور عہدے‘ عوام الناس سے زیادہ اہم ہوجاتے ہیں‘ جہا ں ذاتی مفاد‘ قومی مفاد پر مقدم ہوجاتا ہے وہاں ملک و قوم کے حوالے سے فاش اور غیر معمولی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور جب 75 سال سے یہ غلطیاں تواتر سے دہرائی جاتی رہیں تب کوئی ملک اس حال کو پہنچ جاتا ہے جہاں اس وقت ہم کھڑے ہیں۔ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود جب عوام کیلئے بجلی‘ پانی‘ تعلیم اور سکیورٹی موجود نہ ہو تو ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ کہیں تو کچھ غلط بلکہ بہت غلط ہورہا ہے۔ جس ملک کا سسٹم گزشتہ تین ماہ سے اس سوال میں غوطے کھا رہا ہے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا اس سسٹم کی افادیت پر اگر سوالیہ نشان لگ جائیں تو کیا غلط ہے؟ اس وقت اہم ترین مسئلہ قبل از وقت انتخابات‘ اداروں کی بالادستی اور اہم تعیناتیوں سے کہیں زیادہ عوام کے بنیادی مسائل ہیں جو کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔ موسم گرما رخصت ہواتو جان میں جان آئی کہ سخت لوڈشیڈنگ اور اس سے بھی سخت بجلی کے بلوں سے جان چھوٹی لیکن ہماری مثال تو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق ہے کہ اب جان لیوا سردی میں گیس کی کمی سر اٹھائے کھڑی ہو گی۔ کھانا کیسے بنے گا‘ گھر کیسے گرم رکھے جائیں گے‘ گیس سے چلنے والی انڈسٹری کا کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس وقت عمران خان اس اہم مسئلے پر حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہوتے اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم شہبازشریف لندن میں بڑے بھائی کے پاس عوام کے ان مسائل کے حل کیلئے رہنمائی لینے گئے ہوتے۔
ہمارا اس وقت اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ترجیحات درست نہیں۔ عوام سیاستدانوں کے نزدیک انگوٹھوں سے ووٹوں پر ٹھپے لگانے والی مشین بن گئے ہیں جو انہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانے کا ذریعہ ہیں‘ لیکن جب بات ان کی تکالیف دور کرنے کی ہو تو وہ بے حسی کی عمدہ مثال بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں سیکرٹری پٹرولیم نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ عوام زیادہ کی توقع نہ کریں انہیں سردیوں میں صرف 8 گھنٹے گیس ملے گی اور وہ بھی 3 گھنٹے صبح‘ 2 گھنٹے دوپہر اور 3 گھنٹے شام کو۔ یعنی گیس نہ ہوئی دوا ہوگئی جو روزانہ 3 ٹائم ملے گی۔ اس کا بنیادی طور پر تو مطلب یہ ہوا کہ وہ صارفین جن کی رہائش مین گیس پائپ لائن کے قریب ہوگی یا جنہوں نے غیرقانونی کمپریسر لگائے ہوں گے وہ گیس حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور وہ صارفین جن کے گھروں تک گیس پہنچتے پہنچتے پریشر ویسے ہی کم ہوجاتا ہے وہ ایل پی جی کے سلنڈر لیے بازاروں میں قطاریں بنائے کھڑے ہوں گے۔ یہ بات درست ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے سبب دنیا میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے‘ خاص طور پر روس سے یورپ کو گیس برآمدات پر پابندی لگنے کے بعدیورپ نے قطر سے مہنگے نرخوں پر ایل این جی کی ایڈوانس بکنگ کروالی ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان جیسا غریب ملک اضافی گیس درآمد کرکے اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتا‘ لیکن اس سے بھی اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قدرتی گیس کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں گیس کی مقامی پیداوار اس سال گزشتہ سال کے مقابلے میں 9 سے 10 فیصد کم ہے جبکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال 0.2 بلین کیوبک فٹ درآمدی گیس بھی کم ہے۔ملک کی روزانہ کی بنیادوں پر گیس کی ضرورت 1.4 ارب کیوبک فٹ ہے جبکہ سردیوں میں طلب بڑھ جانے کی وجہ سے 4.5 ارب کیوبک فٹ روزانہ تک چلی جاتی ہے۔ ملک میں مقامی گیس کی پیداوار 3.1 ارب کیوبک فٹ روزانہ ہے۔ کم مقامی پیداوار کو درآمدی گیس سے پورا کیا جاتا ہے؛ تاہم گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے اس سال اب تک 0.2 ارب کیوبک فٹ روزانہ کم گیس درآمد کی گئی ہے۔
سیکرٹری پٹرولیم نے واضح کیا کہ موجودہ ذخائر اگلے 10سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں قدرتی گیس کے مزید ذخائر موجود نہیں‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے مناسب کوششیں ہی نہیں کیں۔ سونے پہ سہاگہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری کیلئے نہیں آرہیں۔ اوپر سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بھی کمپنیاں بزنس کرنے سے گھبرا رہی ہیں کیونکہ ان کے کام کرنے کی لاگت میں 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے جس کے سبب بزنس قابلِ عمل نہیں رہتا۔ پاکستان انرجی بُک کے مطابق ملک میں توانائی کی ضروریات کا 31 فیصد گیس سے پورا کیا جاتا ہے جو ملکی پیداوار اور درآمدی گیس پر مشتمل ہے۔ وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کی حکومت کو مقامی سطح پر پیدا ہونے والی گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری نہ کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں سستی آر ایل این جی کے طویل مدتی معاہدے نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایالیکن گزشتہ حکومت پر تنقید کرنا قدرے آسان ہوتا ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مقامی گیس کی پیداوار کئی دہائیوں سے مسلسل کمی کا شکا ر ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں گیس کی ویل ہیڈ پرائس بھی نہیں بڑھی جس کی وجہ سے مقامی سطح پر گیس کی پیداوار کو پُر کشش نہیں بنایا جا سکااور نہ ہی سکیورٹی کے حالات کو اس قدر بہتر کیا گیا کہ غیر ملکی کمپنیاں یہاں آکر سرمایہ کاری کرسکیں‘ لہٰذا بجلی بحران کی طرح گیس بحران کا ذمہ دار بھی کوئی ایک نہیں بلکہ تمام حکومتیں ہیں جنہوں نے اس شعبے پر بالکل توجہ نہیں دی جس سے گیس کی پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ بھی پروان چڑھا اور عوام اب گیس کو ترس رہے ہیں۔
اسی طرح موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پاکستان میں سیلاب کی صورت میں آئی حالیہ تباہی بھی لگتا ہے ہمارے معزز لیڈروں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں۔ ان کے لڑائی جھگڑے دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ سیلاب کبھی آیا ہی نہیں تھا۔ لگتا ہے کہ حکومت کو یاد ہی نہیں کہ اس وقت کھلے آسمان تلے قائم کیمپوں میں چار ہزار بچے کسی کے دستِ شفقت کے منتظر ہیں‘ سردیاں آچکیں اور تباہ حال خلقت ٹھٹھر رہی ہے۔حکومت منہ سے کہہ چکی ہے کہ اسے سیلاب سے آئی تباہی کے سبب 30 بلین ڈالر درکار ہیں تاکہ آبادکاری کا عمل مکمل کیا جا سکے۔ حال ہی میں مصرمیں ہوئی ماحولیاتی کانفرنس( کوپ 27) میں ماہرین نے رپورٹ پیش کی کہ ہمارے خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والی تباہی اگر روکنی ہے تو 215 بلین ڈالرکی ضرورت ہے‘ لیکن کیا ہماری قومی بحث اور بیانیے میں یہ اہم موضوع شامل ہے ؟ کیا اس حوالے سے ہمارے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوچکا ہے ؟ یقینا نہیں۔ تو بات ترجیحات کی ہے۔ ہماری ترجیح اگر عوام اور ملک ہوتا تو آج ہمیں ایسا ملک ہونے کے طعنے نہ مل رہے ہوتے جن پر گورننس کرنا مشکل سے ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ خدارا! آنکھیں کھولیے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرے‘ اس کے سوا کوئی اور حل نہیں۔