ملکی سیاست میں پیدا ہونے والی تلاطم برقرار ہے۔ پی ڈی ایم اس سیاسی افراتفری کی وجہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت کو ٹھہراتی ہے جبکہ عمران خان اس کی وجہ رجیم چینج کو ٹھہراتے ہیں۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ عمران خان ابھی تک اپنے دورِ حکومت میں ہونے والی ناکامیوں کی تمام تر ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ خان صاحب سے ہوئی ایک حالیہ ملاقات میں تفصیل کے ساتھ انہوں نے اپنا مؤقف پیش کیا اور ان ناکامیوں کی ساری ذمہ داری قمر جاوید باجوہ صاحب پر ڈال دی۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ بالکل بے اختیار تھے اور باجوہ صاحب جو کچھ چاہتے تھے بہ آسانی منوا لیتے تھے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے جس طرح کے بے بس وزیراعظم ہونے کا خاکہ کھینچا اس سے قدرتی طور پر خان صاحب کی قائدانہ صلاحیتیوں اور ماضی کے دیے بیانات پر سوالات اٹھتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان اگر واقعی بے بس تھے تو وہ اس بے بس حکومت کو آخری دن تک چلانے کے لیے بضد کیوں تھے؟
اگر احتساب اداروں میں اصلاحات اور ریاستِ مدینہ بنانا ہی ان کا بنیادی ایجنڈا تھا تو انہوں نے اس ایجنڈے کا آغاز کیوں نہ کیا؟ کیا انہیں اس کام سے بھی باجوہ صاحب نے روک رکھا تھا؟ احتساب کی بات کی جائے تو اگر نیب بقول خان صاحب باجوہ صاحب کے کنٹرول میں تھا تو ایف آئی اے‘ اے آر یو‘ آئی بی‘ پولیس اور ایف بی آر جیسے ادارے تو حکومت کے کنٹرول میں تھے‘ آپ نے ان اداروں کے ذریعے احتسا ب کی داغ بیل کیوں نہ ڈالی؟ آپ کے دورِ حکومت میں سوائے سیاسی انتقام کے لیے درج کیے گئے مقدمات کے‘ کیا سیاسی مخالفین کے خلاف کوئی ایسا مقدمہ بھی بنا جسے اعلیٰ عدلیہ نے بعد ازاں خارج نہ کیا ہو؟ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کیس‘ مریم نواز کا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس‘ احسن اقبال کا نارووال سپورٹس کمپلیکس کیس‘ شاہد خاقان عباسی کا ایل این جی کیس‘ یہ تمام کیسز اعلیٰ عدلیہ سے خارج ہو گئے۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ قمر جاوید باجوہ صاحب نظامِ عدل پر بھی اثر انداز ہو رہے تھے؟
اپنے دورِ حکومت میں عمران خان نیب کو اپنے ممد و معاون شہزاد اکبر کے ذریعے چلا رہے تھے‘ جن کے اپنے مالیاتی معاملات شکوک کے دائرے میں ہیں۔ شہزاد اکبر‘ مبینہ طور پر چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو مینج کرتے تھے‘ اُنہی کی مشاورت سے یہ فیصلے ہوتے تھے کہ کس کو گرفتار کرنا ہے اور کس کو نہیں۔ پھر نیب کی جانب سے گرفتاری سے قبل وفاقی وزرا کا ٹولہ پریس کانفرنس کرتا تھا اور بتاتا تھا کہ فلاں فلاں اپوزیشن لیڈر فلاں الزامات کی بنا پر گرفتار ہونے جارہا ہے۔ اگر نیب واقعی آئینی طور پر ایک خود مختار ادارہ تھا تو پھر اُس کی فائلیں ان وزرا کے پاس کیسے پہنچتی تھیں؟ انہیں پہلے ہی سے کیسے معلوم ہوتا تھا کہ کون سا سیاسی رہنما گرفتار ہونے جارہا ہے؟ جہاں تک سابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تعلق ہے تو اُنہوں نے جب کوشش کی تو ان کی ایک وڈیو لیک کردی گئی جس کے بعد ان کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پھر احتسا ب کے نام پر وہ تماشا ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔
اسی طرح شہزاد اکبر کی سربراہی میں چلنے والے ادارہ اے آر یو (Assets Recovery Unit)کی طرف سے ڈیلی میل کے نمائندے کے ساتھ مل کر شہباز شریف اور سلیمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس تیار کیا گیا‘ وہ لندن کی عدالت سے مسترد ہو گیا۔خان صاحب نے بعدازاں شہزاد اکبر کو مشیر برائے احتساب کے عہدے سے ہٹا دیا تھا لیکن کیا کبھی ان سے پوچھا کہ ان کیسز کی تیاری پر قومی خزانے سے جو پیسے لگے ان کا حساب کون دے گا؟ جس طرح ایک پراپرٹی ٹائیکون کو برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے جرم میں اربوں روپے کا جرمانہ ہوا‘ پھر وہی جرمانہ ملکِ عزیز میں ایک بڑے کیس میں ایڈجسٹ کرکے اسی ٹائیکون کو لوٹا دیا گیا‘ کیا عمران خان صاحب اور شہزاد اکبر نے کبھی اس سوال کا جواب دیا؟
اسی طرح اداروں میں اصلاحات کرنے اور ریاستِ مدینہ بنانے سے عمران خان کو کس نے روکا تھا؟ ایک لیڈر کی قائدانہ صلاحیتیوں میں سب سے اہم خصوصیت ٹیم سلیکشن اورقوتِ فیصلہ ہوتی ہے اور عمران خان صاحب ایک بڑے سیاسی لیڈر ہیں‘ اُن سے ٹیم سلیکشن میں چُوک کیسے ہو گئی؟ کیا اُن کے وزارتِ عظمیٰ پر براجمان ہوتے ہوئے عثمان بزدار اور محمود خان جیسے وزرائے اعلیٰ نے ریاستِ مدینہ تشکیل دینی تھی؟ اگر قمر جاوید باجوہ صاحب کا واقعی عمران خان پر زور چلتا تو کیا وہ ان سے یہ وزرائے اعلیٰ تبدیل نہ کروا لیتے‘ جن کی کارکردگی نے ہائبرڈ رجیم کو ناکامی سے دوچار کیا اور اداروں کو ایک صفحے کی پالیسی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ اگر عثمان بزدار نے اپنے دورِ اقتدار میں سات آئی جی اور پانچ چیف سیکرٹریز تبدیل کیے تو کیا خرابی ان افسروں میں تھی یا خود بزدار صاحب کی پالیسیوں میں؟ عمران خان صاحب اس وقت دوبارہ حکومت میں آنے کو تو پوری طرح تیار ہیں لیکن کیا انہوں نے ماضی سے کچھ سیکھا ہے یا ماضی میں ہوئی غلطیوں کا کوئی ادراک ہے؟
اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کا اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نظر آ رہا ہے جو اقتدار سنبھالنے کے شوق میں اپنا اتنا سیاسی نقصان کر چکی ہے کہ اس کا مداوا مشکل نظر آتا ہے۔ گوکہ (ن) لیگ نے اعلان کر دیا ہے کہ جماعت کو شہباز شریف نہیں مریم نواز چلائیں گی جنہیں پارٹی کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کا عہدہ دے کر پارٹی کی تنظیمِ نو کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ اس کی بظاہر وجہ یہی نظر آتی ہے کہ اصل ووٹ بینک شہباز کا نہیں نواز شریف کا ہے‘ شہباز شریف اپنے کارکنوں سے جڑنے کا سیاسی مزاج ہی نہیں رکھتے ہیں البتہ نواز شریف صاحب میں عوامی ہونے کی کوالٹی موجود ہے جو کسی حد تک مریم نواز میں بھی نظر آتی ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مریم نواز اس امتحان میں پورا اتر سکیں گی؟
مریم نواز کرؤاڈ پلر ضرور ہیں‘وہ تقریر بھی اچھی کر لیتی ہیں لیکن کیا وہ جماعت اور کارکنوں کو ساتھ لے کر چل پائیں گی؟ کیا ان میں وہ حوصلہ اور برداشت موجود ہے جو ایک پارٹی قائد میں ہونا چاہیے؟ کیا وہ ٹھنڈے مزا ج کے ساتھ تنقید سہہ پائیں گی؟ یہ نہایت اہم سوالات ہیں۔ جہاں تک حمزہ شہباز کا تعلق ہے تو یہ بات طے ہو چکی ہے کہ مریم اور حمزہ کے رول ویسے ہی ہوں گے جیسا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے تھے۔ اصل سوال مگر یہ ہے کہ کیا دونوں کزنز مل کر اپنی پارٹی کا سیاسی سرمایہ اکٹھا کر پائیں گے؟کیا عمران خان کی متحرک سوشل میڈیا فورس کا مقابلہ جوابی بیانیے سے کر پائیں گے؟ اس صورتِ حال کے حوالے سے بہت سے اگر مگر موجود ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ سیاسی کنبہ کیونکر اپنی جماعت کو درپیش سنگین چیلنجز سے نکال سکے گا۔