"IYC" (space) message & send to 7575

سیاسی خلیج کم کریں

وہ سیاست ہی کیا جس میں نازک موڑ نہ ہوں۔ انتخابات کب ہوں گے؟ جن دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں‘ ان دونوں صوبوں میں ہوں گے یا صرف جس صوبے میں انتخابات کے لیے عدالت کی طرف سے تاریخ آئی ہے صرف وہاں ہوں گے؟ یا ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات ہوں گے؟ ملکی سیاست اس وقت ان سوالات میں اُلجھی ہوئی ہے۔ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جب سے اقتدار کے ایوان سے نکلے ہیں‘ تب سے واپسی کے لیے ہر طرح کی حکمت عملی آزما چکے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے بڑا داؤ انہوں نے جنوری میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے کھیلا۔ یہ داؤ کھیلنے کے بعد وہ پُرامید تھے کہ اب ملک میں نوے دن میں الیکشن منعقد ہوجائیں گے۔ وہ اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں بھی اپنا یہ موقف بارہا دہرا چکے ہیں کہ ملکی مسائل کا حل صرف انتخابات ہیں لیکن خان صاحب کی بارہا کوششوں اور اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے الیکشن کی تاریخ مقرر ہونے کے باوجود دونوں صوبوں میں انتخابات منعقد نہیں ہو سکے۔اب ملک میں انتخابات کے لیے تحریک انصاف اور اتحادی حکومت کے درمیان مذاکرات کے تین ادوار ہو چکے ہیں مگر مذاکرات کے ان تین ادوار کے باوجود فریقین کے مابین ملک میں ایک ہی دن انتخابات کی تاریخ پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔
مذاکرات سے قبل فریقین نے اپنے اپنے قائدین سے تفصیلی مشاورت کی۔ اتحادی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اپنی اپنی تحریری تجاویز کا تبادلہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن سمیت 8نکاتی تجاویز کا ڈرافٹ حکومتی اتحاد کے حوالے کیا جس میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ عیدالاضحی اور محرم کے درمیان کے ایام میں انتخابات کروائے جائیں۔ اگست کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں بھی الیکشن ہو سکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے وکلا کے ذریعے تجاویز کا ڈرافٹ سپریم کورٹ کو بھی بھجوایا ہے۔ حکومت اس ڈرافٹ پر مشاورت کرے گی۔ تیسرے مذاکراتی دور میں تین اہم باتوں پر ضرور پیش رفت ہوئی۔ پہلی بات یہ کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات ہوں۔ دوسری یہ کہ انتخابات کے لیے نگران سیٹ اَپ تشکیل دیا جائے گا اور تیسری اور سب سے اہم بات کہ انتخابات کے نتائج من و عن تسلیم کیے جائیں گے۔
حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان انتخابات سے متعلق مذاکرات کے تیسرے اجلاس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے اپنی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل اور ملک میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کے مطابق ہماری طرف مذاکرات میں اس بات پر فوکس کیا گیا کہ قومی‘ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں 14مئی سے پہلے تحلیل کر دی جائیں اور پھر اس کے بعد 60دن کے اندر ملک میں ایک ساتھ انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ مذاکرات میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ 90دن کی آئینی مدت کے بعد انتخابات کے لیے ایک وقت کے لیے آئینی ترمیم متعارف کی جائے اور اس کے لیے پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس چلی جائے۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ یہ معاہدہ تحریری ہو تاکہ اسے سپریم کورٹ کے سامنے رکھا جائے اور پھر اس کی منظوری لی جا سکے۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق ہم نے ان مذاکرات میں خاصی لچک دکھائی ہے اور وہ اب مذاکرات کی ناکامی کی تفصیلات سپریم کورٹ کے سامنے پیش کر دی ہیں، علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی جانب سے ایک علیحدہ درخواست میں عدالت سے یہ التماس بھی کی گئی ہے کہ پنجاب میں 14مئی کو الیکشن کرانے کے حکم پر عمل درآمد کرایا جائے۔
قبل ازیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قرار دیا تھا کہ ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہونے پر اتفاق ہونا بڑی کامیابی ہے۔ مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ اتفاق ہو چکا ہے کہ ملک بھر میں الیکشن ایک ہی دن ہونے میں بہتری ہے اور نگران حکومت کی موجودگی میں ملک میں الیکشن ہوں گے۔ امید ہے کہ دونوں فریق خلوص کے ساتھ چلیں گے تو تیسرا مرحلہ بھی کسی نہ کسی طور طے ہو جائے گا۔ الیکشن کی تاریخ پر فریقین کے اپنے اپنے مؤقف ہیں اور الیکشن کی تاریخ پر ابھی اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ ہم نے کہا ہے کہ جو بھی الیکشن جیتے گا‘ نتائج تسلیم کیے جائیں گے۔ الیکشن کب ہوں‘ اس حوالے سے فریقین کی اپنی اپنی تاریخیں ہیں جن پر کچھ لچک ضرور آئی ہے لیکن ہم ابھی کسی ایک متفقہ نکتے پر نہیں پہنچے۔ انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے کئی چیزیں ہمارے سامنے ہیں۔ ملک کو نیا بجٹ چاہیے‘ ٹریڈ پالیسی چاہیے‘ آئی ایم ایف کے جائزے کی تکمیل چاہیے تو ان چیزوں کے لیے انتخابات کی تاریخ کا تعین تھوڑا سا پیچیدہ عمل ہے۔ بجٹ منظوری کے بعد قومی اسمبلی ختم کی جا سکتی ہے۔ مذاکرات کے تیسرے اجلاس کے بعد اُن کا یہ بھی کہناتھا مذاکرات میں انتخابات کے حوالے سے ہونے والی مثبت بات چیت کے بعد اپنی اپنی قیادت سے دوبارہ بات کریں گے۔
ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے موجود ڈیڈ لاک پر تین مذاکراتی ادوار میں حکومت اور اپوزیشن نے اپنی اپنی لچک دکھا دی ہے‘ مذاکرات کے دوران جن نکات پر فریقین نے ڈٹ کر رہنا تھا وہ وہاں ڈٹ بھی گئے۔ یہ ایک مثبت اقدام ہے کہ اتحادی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں یہ تو اتفاق کر لیا گیا ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات ہونے چاہئیں مگر وہ دن کب آئے گا‘ اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تو جنوری میں تحلیل کی جا چکی ہیں مگر باقی دونوں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے پر مذاکرات کے دوران فریقین میں کوئی اتفاق نہیں ہوا۔ دیکھا جائے تو ملک میں جلد یا بدیر انتخابات تو ہونے ہی ہیں۔ اگر قومی اور باقی دونوں صوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری بھی کرتی ہیں تو رواں برس کی آخری سہ ماہی تک انتخابات متوقع ہیں لیکن نئے انتخابات کے انعقاد سے قبل سیاست دانوں کو آپس میں موجود خلیج کم کرنا ہوگی۔ اگر سیاستدانوں کے درمیان موجود یہ خلیج کم نہیں ہوتی تو انتخابات بھی ملک کو درپیش مسائل کا حل ثابت نہیں ہوں گے۔
یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ملک جس معاشی صورتحال سے دوچار ہے‘ حکومت کی عدم توجہی اور ناقص معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی عدم استحکام اس کی بڑی وجہ ہے۔ اگر ملک میں عام انتخابات کے بعد بھی سیاسی عدم استحکام یونہی موجود رہا‘ انتقامی سیاست ہی پروان چڑھائی گئی‘ ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کو ترجیح بنایا گیا تو نہ صرف ملکی معیشت کو درپیش مسائل جوں کے جوں موجود رہیں گے بلکہ خدانخواستہ دیگر کئی بحران بھی سر اٹھا سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک میں عام انتخابات سے قبل اُن اسباب کا تدارک کر لیا جائے جن کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ہوا ملی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں