سال 1987ء تھا اور مہینہ فروری کا۔ موسم سرد ہونے کیساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار تھے۔ بھارت اپنے روایتی انداز میں پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ جنگی مشقوں کے بہانے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بلکہ پنجاب اور سندھ کے بارڈر پر بھی لاکھوں کی تعداد میں فوج جمع کی جارہی تھی۔ فوجی تیاریوں سے لگتا یوں تھا کہ کسی بھی لمحے انڈیا پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ پاکستان کے صدر جنرل ضیاالحق اور بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی تھے۔ ایسے غیر یقینی کے ماحول میں اچانک خبر آئی کہ صدرِ پاکستان بھارتی شہر جے پور میں کرکٹ میچ دیکھنا چاہتے ہیں۔پاکستانی صدر کے اس فیصلے نے بھارتی حکومت کو تذبذب میں ڈال دیا اور اطلاعات کے مطابق ابتدا میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی‘ صدر ضیا الحق کو جے پور کے ہوائی اڈے پر ریسیو کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے مگر مشیروں کے کہنے پر تیار ہو گئے۔ صدر ضیاالحق نے اسی دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم کو پاکستان پر حملہ کرنے کے خلاف وارننگ دی کہ اس حملے سے دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی۔ بہرحال اس دورے کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں پر آمنے سامنے کھڑی افواج کو پیچھے ہٹانے اور حالات کو معمول پر لانے کا فیصلہ ہوا اور یوں دونوں ملکوں میں ایک خطرناک اور تباہ کن جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ پاکستانی صدر کے اس اقدام کو تاریخ میں ''کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کا نام دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ''کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کا ایک شاندار مظاہر ہ 2011ء میں بھی دیکھنے کو ملا جب بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کو بھارتی شہر موہالی میں کرکٹ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل میچ دیکھنے کی دعوت دی جو پاکستانی وزیر اعظم نے قبول کر لی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اس دورۂ بھارت میں دونوں ملکوں میں جاری ڈیڈ لاک کا خاتمہ دیکھنے کو ملا‘ جس کے باعث 2008ء کے ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے پیدا شدہ تعطل ختم ہوا اور 2004ء میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت شروع ہونے والے مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کر دیا گیا۔
ڈپلومیسی موجودہ دور کی سب سے اہم اور سافٹ پاور سمجھی جاتی ہے جس کے ذریعے بڑے بڑے مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ جنگ کے دہانے پر کھڑے ممالک میں دوستی کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ چار دہائیوں سے زائد جاری رہنے والی سرد جنگ میں ہم نے دیکھا کہ جن مسائل کا حل بندوق ‘ طاقت‘ جاہ و جلال اور ہارڈ پاور کے تمام وسائل بروئے کار لا کر بھی ممکن نہیں ہو پاتا ان کا حل ٹیبل ٹاک اور ڈائیلاگ سے ممکن ہو جاتا ہے۔
پاک بھارت تعلقات شروع دن سے ہی تناؤ کا شکار رہے ہیں‘ اس میں کبھی کبھار ٹھنڈی ہوا کا جھو نکا بھی آ جاتا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ دورۂ بھارت اس وقت میڈیا میں زیر بحث ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت گئے۔ بھارتی وزیرخارجہ کی جانب سے وزرائے خارجہ کونسل کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا‘ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری عشائیے میں سب سے آخر میں پہنچے‘ بلاول بھٹو کے پہنچنے پر جے شنکر نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر ہاتھ ملایا‘ دونوں وزرائے خارجہ نے مصافحے کے دوران خیر مقدمی کلمات کا تبادلہ کیا جسے خوش آئند قرار دیا گیا۔ امید کی جا رہی تھی کہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ دورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ بڑی پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی کئی بار ایسا دیکھنے کو ملا ہے۔ جنوری 2002ء میں سارک کانفرنس کے 11ویں اجلاس میں صدر پرویز مشرف اپنی تقریر کے بعد وہیں بیٹھے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی جانب مڑے اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا‘ اسی طرح 2014ء میں کھٹمنڈو میں سارک کانفرنس کے دوران دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نریندر مودی اور میاں نواز شریف کے درمیان مصافحہ خبروں کی زینت بنا رہا۔ دونوں لیڈروں نے ہاتھ ملائے‘ مسکرائے‘ جملوں کا تبادلہ کیا اور تصویر بنوائی۔ اس سے قبل دونوں وزرائے اعظم ایک دوسرے سے دور دور دکھائی دیے تھے۔18اپریل 2003ء کو سری نگر میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی مشہور تقریر تھی جس میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان مفصل مذاکرات کی تجویز دی تھی‘ لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی ان ملاقاتوں کا نتیجہ تلخ جملوں اور الزام تراشی کی صورت میں نکلا۔
2001ء میں اپنے قیام کے وقت سے ایس سی او نے نئے ممالک کو رکنیت دینے پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور یہ تنظیم صرف چھ بانی رکن ممالک یعنی چین‘روس‘ قازقستان‘کرغزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان تک محدود تھی‘ لیکن بعد میں اس میں مزید ممالک کو بھی شامل کر لیا گیا۔23 اور24 جون 2017ء کو ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کی 16ویں سالانہ سربراہی کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کو مستقل رکنیت دے دی گئی اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دونوں ممالک خطے میں دائمی امن اور ترقی کے لیے اہم کردار ادا کریں گے۔ دونوں ممالک ایسے بیسیوں پلیٹ فارمز پر ہر سال اکٹھے ہوتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ الزامات کے سوا کچھ نہیں ملتا۔حالیہ دورے کی بات کی جائے تو جس طرح سے بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے ڈپلومیٹک ویلیوز اور ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی گئیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بحیثیت میزبان جس طرح کی زبان استعمال کی گئی اور جو الزامات لگائے وہ بھی قابلِ مذمت ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے کم عمر ترین وزیر خارجہ ہیں اور وہ گزشتہ 12 سالوں میں بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر خارجہ ہیں ‘لیکن جس خوبصورت اور متاثر کن انداز میں انہوں نے پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ پیش کیا وہ قابلِ تحسین ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ موجودہ حالات میں بھارت پر منحصر ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے جو مذاکرات کے لیے سازگار ہو۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔ کشمیر پربھارت اپنا یک طرفہ فیصلہ واپس نہیں لیتا تو بات نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی کوشش ہے کہ ہر مسلمان کو دہشت گرد دکھایا جائے اوربھارت کی تنقید کے پیچھے ان کا اپنا عدم تحفظ کا احساس ہے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اجلاس میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دیا۔انہوں نے مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف رکن ممالک کے سامنے رکھا اور بھارت کی سرزمین پر کشمیر کاز کو اجاگر کیا۔ اس دورہ کے دوران بلاول بھٹو زرداری کی رکن اور دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوئیں اور ان میں اقتصادی ترقی کے منصوبوں اور خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ پاکستان بلکہ پورے خطے کو درپیش مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ خطے کے تمام ملک الزام تراشیوں سے نکل کر عملی قدم اٹھائیں اور ایک دوسرے کو دہشت گرد ثابت کرنے کے بجائے مل کر اس کا مقابلہ کریں تا کہ خطے میں اقتصادی ترقی کی راہیں ہموار ہو سکیں۔ بھارت کو مذاکرات اور ڈائیلاگ کے لیے سنجیدگی دکھانا ہوگی ورنہ اس آگ سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔