"IYC" (space) message & send to 7575

بے یقینی کے بادل

شہباز حکومت اپنے اختتام کو جاپہنچی‘ اس حکومت کے آخری دنوں میں جس طرح سے قانون سازی کے ریکارڈ ٹوٹے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔انتہائی عجلت میں کی جانے والی قانون سازی میں حکومت نے سپریم کورٹ آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ بھی پاس کیا‘ جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے جسے کالعدم قرار دے دیا۔ یہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظورکرلیا گیا تھا اور 26 مئی کو صدر مملکت عارف علوی کے دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کرگیا جس کے بعد آرٹیکل 184 (3)کے تحت دیئے گئے فیصلوں پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا۔اس قانون کے تحت آرٹیکل 184 (3)کے تحت فیصلوں پر 60 روز کے اندرنظر ثانی اپیلیں دائر کی جاسکتی تھی‘ جس کی سماعت فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ کر سکتا تھا۔اس ایکٹ کی سات شقیں ہیں‘ شق ایک کے تحت ایکٹ سپریم کورٹ(ریویو آف ججمنٹس اینڈآرڈرز) ایکٹ 2023ء کہلائے گا‘ شق دو کے تحت سپریم کورٹ کادائرہ اختیار مفادِ عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کے لیے بڑھایا گیااور مفادِ عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کو اپیل کے طور پر سناجائے گا۔شق تین کے مطابق نظر ثانی کی سماعت کرنے والے بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سے زیادہ ہو گی‘ شق چار کے مطابق نظرثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کر سکے گا۔شق پانچ کے تحت ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184 (3) کے پچھلے تمام مقدمات پر ہوگا‘ شق چھ کے تحت متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا‘ شق سات کے مطابق ایکٹ کا اطلاق ملتے جلتے قانون‘ ضابطے‘ یا عدالتی نظیر کے باوجود ہر صورت ہوگا۔حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بل کا مقصد سپریم کورٹ کوفیصلوں اور احکامات پر نظرثانی کے اختیارات کے استعمال میں سہولت فراہم کرنا تھا‘ لیکن اپوزیشن نے قانون کو نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ کیا سابق وزیر اعظم نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کی نااہلی ختم ہوپائے گی؟سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے سے نواز شریف کے کیس پرکوئی اثر نہیں پڑے گاکیونکہ پارلیمان 184 (3)کے تحت سزا پر نااہلی پانچ سال کرنے کا قانون منظور کرچکی‘ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی‘ سیاست میں حصہ لینابنیادی حق ہے‘ قانون سازی کے بعد اب پانچ سال کے بعد سب سیاست کے لیے اہل ہوچکے ہیں۔قتل یا ریپ کیسز میں سزا ہوتی ہے تو سزا کے پانچ سال بعد سے آگے نااہلی نہیں جاتی یعنی سابق وزیر قانون اب بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ جو قانون منظور ہوچکا وہ ہوچکایعنی وہ عدلیہ کے اس فیصلے کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کا اپنے فیصلے میں یہ کہنا ہے کہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ آئین سے متصادم ہے‘ قانونی سکیم کے مطابق قانون سازی کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے‘ چونکہ یہ قانون آئین کے مطابق نہیں لہٰذا سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں عدالت اپنے فیصلے میں اس ایکٹ کو پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے تجاوز بھی قرار دے رہی ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس عمل میں سب سے اہم چیز ٹائمنگ ہے۔ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی ختم ہوتے ہی اس قانون کو کالعدم قراردے دیا۔ اب اس قانون کے خلاف دیئے گئے فیصلے پر کوئی سیاسی جماعت تو ریویو پٹیشن کیلئے جاسکتی ہے لیکن جن اراکین ِاسمبلی نے اس ایکٹ کو منظور کیا تھا وہ عدالت سے رجوع نہیں کرسکتے۔بہت سے آئینی ماہرین نے اس بل کی منظوری کے وقت ہی یہ کہہ دیا تھا کہ صدر مملکت نے اس بل پر دستخط تو کردیئے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس کوکالعدم قرار دے سکتی ہے۔ ایسا مؤقف رکھنے والے ماہرین اس کو آئین سے متصادم قرار دیتے تھے۔ اب سپریم کورٹ نے ایسا ہی کیا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کے مطابق اس قانون کو آئین سے متصادم قرار دیئے جانے کے بعد قوی امکان ہے کہ پچھلے پانچ سے چھ ماہ میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے بہت سے قوانین کے حوالے سے کیس سپریم کورٹ میں جائیں اور ان میں سے کچھ قوانین کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ ان میں سے بعض قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے کچھ پٹیشنز ہوچکی ہیں اور کچھ پراسس میں ہیں۔
بادی النظر میں یہ ابھی شروعات ہے۔موجودہ چیف جسٹس ستمبرمیں ریٹائر ہوں گے‘ ممکن ہے وہ جانے سے پہلے اس حوالے سے مزیدفیصلے کریں۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت جانے کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے ان کو یہ پہلا جھٹکا ہے۔ چند ماہ پہلے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عدالت اور حکومت اپنے سامنے آگئے ہیں۔اس کے بعد خاموشی چھا گئی اور ایسا تاثر دیا جانے لگا کہ جیسے دونوں اداروں میں محاذ آرائی کی کیفیت دم توڑ چکی‘لیکن اب قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے بنیادی طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ سابقہ حکومت کے بنائے گئے مزید قوانین کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔اس قانون سازی کے حوالے سے اہم بات قانونی اور آئینی ماہرین کی تقسیم بھی ہے۔ سپریم کورٹ بارایسو سی ایشن کے صدر عابد زبیری اور دیگر بار ایسو سی ایشنزکا یہ مؤقف تھا کہ پارلیمنٹ نے جو قانون منظور کیا وہ غیر آئینی ہے۔اور اس قانون کو ختم ہونا چاہیے جبکہ پاکستان بار کونسل کے کچھ عہدیدار اور قانونی ماہرین کا ماننا تھا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا استحقاق ہے اور پارلیمنٹ کوئی بھی قانون بناسکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمنٹ میں اس قانون پر اس طرح سے بحث نہیں ہوئی جیسی ہونی چاہیے تھی۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عدالت میں اٹارنی جنرل نے اس طرح سے دلائل نہیں دیئے جس طرح کے دلائل کچھ وفاقی وزرااس قانون کے حق میں دیتے رہے۔ اس حوالے سے ریویو میں جانے کی صورت میں اس قانون کا دفاع کیسے کریں گے؟ اس فیصلے کی ٹائمنگ اس لیے بھی اہم ہے کہ نواز شریف کے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ وہ ستمبر کے وسط میں واپس آرہے ہیں۔ ایسے میں اس فیصلے کو ان کی واپسی سے بھی جوڑا جارہا ہے۔کچھ تجزیہ کاراور آئینی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے اثرات بہت زیادہ نہیں ہوں گے کیونکہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال ستمبر میں ریٹائرہونے والے ہیں اور اگلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہوں گے اور آرٹیکل 184 (3) کے بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔جس بینچ نے اس قانون کے متعلق فیصلہ سنایا ہے اُس کے معززججز کا نام لے لے کر سابق اراکین اسمبلی نے تنقید کیاور کہا کہ ان کو اس مقدمے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض ارکان کی طرف سے تو یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اس بینچ میں دوسرے جج صاحبان کو بھی شامل کیا جائے۔اس وقت سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم واضح ہے۔ ایک گروپ کے چیف جسٹس اگلے مہینے ریٹائر ہوجائینگے اور دوسرے گروپ کے چیف جسٹس آجائیں گے‘ جس کے بعد دیکھنا ہوگا کہ معاملہ کہاں تک جاتا ہے۔ ایسے مزید تین قوانین ہیں جن کو چیلنج کرنے کیلئے پٹیشن تیار کی جاچکی ہیں اور جلد ہی دائر کر دی جائیں گی۔ ایک اہم معاملہ نئی مردم شماری بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے نئی مردم شماری کے حوالے سے نئی حلقہ بندیاں کروانے کا جوفیصلہ کیاگیا ہے اس سے الیکشن التوا میں جاسکتے ہیں ‘اس کوبھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے چیلنج کیا جارہاہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سپریم کورٹ اور سیاسی جماعتیں ایک بارپھر آمنے سامنے آجائینگی اور بے یقینی کے بادل گہرے ہونگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں