پی ڈی ایم کی حکومت کے خاتمے پر یہ سمجھا جا رہا تھا کہ نگران وزیراعظم کی تعیناتی کے بعد صورتحال کچھ واضح ہو جائے گی کہ آئندہ عام انتخابات کب ہوں گے‘ لیکن نگران وزیراعظم کی تقرری کے بعد یہ کہنا مزید مشکل ہوگیا ہے کہ الیکشن بروقت ہوں گے یا نہیں؟ بعض تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ نگران وزیراعظم کوئی معاشی ماہر ہوا تو پھر اگلے دو سال تک الیکشن کو بھول جائیں مگر توقع کے برعکس ایک سیاسی شخصیت کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔ اس کے باوجود ابھی تک ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ انتخابات بروقت نہیں ہوں گے۔ ایسا کیوں کہا جارہا ہے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے سیاسی کیریئر پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے پہلی مرتبہ 2008ء میں کوئٹہ سے (ق) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا جس میں قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ پھر وہ 2013ء میں (ن) لیگ میں شامل ہو گئے۔ وہ نواب ثنا اللہ زہری کے دورِ حکومت میں بلوچستان حکومت کے ترجمان بھی رہے ہیں۔ بعد ازاں وہ آزاد حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ ان کا شمار بلوچستان عوامی پارٹی بانی اراکین میں ہوتا ہے۔ انوار الحق کاکڑ نہ صرف بلوچستان کی سیاست میں متحرک رہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بلوچستان کیلئے ایک توانا آواز سمجھے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس منصب پر فائز ہوکر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو کیسے نبھاتے ہیں اور شفاف اور بروقت انتخابات کو کیسے یقینی بناتے ہیں؟
میں نے پہلے ہی اپنے تجزیوں میں کہا تھا کہ نگران وزیراعظم کا نام آؤٹ آف باکس ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ انوار الحق کاکڑ کا نام راجہ ریاض کی جانب سے تجویز کیا گیا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ نگران وزیراعظم کے انتخاب میں تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ راجہ ریاض کا اصرار تھا کہ نگران وزیراعظم کے لیے میاں شہباز شریف کی طرف سے تجویز کردہ نام کے بجائے ان کی جانب سے دیے گئے نام پر اتفاق کیا جائے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کا اصرار تھا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام نگران وزیراعظم کے لیے فائنل کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو نگران وزیراعظم بنایا جائے۔کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ راجہ ریاض کسی سیاسی جماعت کے بجائے کہیں اور سے ہدایت لیتے رہے اور انوار الحق کاکڑ کا نام بھی وہیں سے آیا۔ انوار الحق کاکڑ ایک تجربہ کار سیاسی شخصیت ہیں لیکن انکی بطور نگران وزیراعظم تقرری کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے کہا جارہاہے کہ انہیں طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے اور آئندہ انتخابات اسی وقت ہوں گے جب حالات سازگار سمجھے جائیں گے۔ نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد ویسے بھی الیکشن کابروقت انعقاد مشکل نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ بار نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی ہے جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو پابند کیا جائے کہ وہ 90روز میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔
90روز کی آئینی مدت میں انتخابات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے بھی نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو خط لکھا ہے۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں ان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نگران وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ''ملک دستور کی مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ سابق حکومت نے ریاستی اداروں کو آئین کے مطابق چلانے کے بجائے اپنی جگہ بنانے اور خود کو احتساب سے بچانے کے لیے ایک کے بعد دوسرا حربہ استعمال کیا۔ حکمران گروہ کے اس طرزِ عمل نے ریاست کی بنیادوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ سابق حکمرانوں نے تحریک انصاف کو انتخابی دوڑ سے باہر کرنے کی نیت سے ریاستی اداروں کا بے دریغ استعمال کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں نہایت ناگفتہ بہ اور انسانیت سوز حالات میں رکھا گیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو آئین اور جیل قواعد کے مطابق بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ پولیس کو بلا روک ٹوک گھروں اور املاک کو تباہ کرنے‘ عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے 10ہزار سے زائد کارکنان پابند ِسلاسل ہیں۔ عدالتوں کے آئینی احکامات کی پیہم توہین جاری ہے۔ ملک کو پھر سے آئین و قانون کی راہ پر چلانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ جمہوریت کی بنیاد شہریوں کے ووٹ کے حق پر استوار ہے۔ دستور‘ اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کی صورت میں 90روز میں انتخابات کے انعقاد کا حکم دیتا ہے لہٰذا ہمارا پُر زور مطالبہ ہے کہ آپ انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنائیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے مردم شماری کے نتائج کی تاخیر سے منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے معاملے کو انتخابات میں التوا کا بہانہ ہر گز نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انتخابات کی ساکھ کیلئے لازم ہے کہ فریقین کو انتخابی مقابلے کیلئے مساوی میدان فراہم کیا جائے۔ موجودہ حالات میں آپ کا منصفانہ طرزِعمل جمہوری اقدار پر عوام کے اعتماد میں پختگی و تقویت کا موجب بنے گا۔ ہم آپ کو سونپے جانے والے اس عظیم فریضہ کی انجام دہی میں آپ کو اپنے تعاون کا یقین دلاتے ہیں‘‘۔
دوسری طرف نگران وزیراعظم کے بعد اب نگران کابینہ کی تشکیل پر کام جاری ہے۔ تادم تحریر اس حوالے سے مختلف خبریں آ رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سابق گورنر سٹیٹ بینک شمشاد اختر‘ گوہر اعجاز‘ ڈاکٹر تابش گوہر اور سرفراز بگٹی سمیت چند نام فائنل ہو گئے ہیں۔ جب راجہ ریاض سے ایک نجی پروگرام میں اس سے متعلق پوچھا گیا کہ نگران کابینہ میں کون کون شامل ہو گا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا کام نگران وزیراعظم کی تقرری تک تھا‘ اب آگے نگران وزیراعظم جانے‘ نگران کابینہ جانے اور مقتدرہ جانے۔ ان کے اس بیان میں بہت سی باتوں کا جواب ہے۔عام انتخابات وقت پر نہ ہونے سے کئی آئینی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ سب سے پہلے تو صدارتی انتخابات کا معاملہ ہے کیونکہ صدرِ مملکت عارف علوی کے منصب کی مدت 20ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ صدرِ مملکت کا الیکٹورل کالج اسمبلیاں ہیں اور جب تک ان کی تشکیل نہیں ہوگی تب تک نئے صدرِ مملکت کا انتخاب کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت صدرِ مملکت اپنے جانشین کے انتخاب تک اپنے منصب پر فائز رہ سکتا ہے لیکن یہ عرصہ کتنی مدت تک کا ہو سکتا ہے‘ اس بارے میں آئین خاموش ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی بالکل نئی صورتحال ہوگی۔ ماضی میں صدرِ مملکت کے مستعفی ہونے پر چیئرمین سینیٹ کے قائم مقام صدرِ مملکت مقرر ہونے کی مثالیں تو موجود ہیں لیکن صدرِ مملکت کے عہدے کی میعاد مکمل ہونے پر صدارتی انتخاب کا عمل التوا کا شکار ہو جائے‘ یہ ماضی سے بالکل مختلف صورتحال ہو گی۔ اسی طرح سینیٹ کے انتخابات بھی آئندہ برس مارچ میں ہونا ہیں۔ چھ سال کیلئے منتخب ہونے والے 48 سینیٹرز اپنے عہدے کی میعاد مکمل ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیرکی صورت میں سینیٹرز تو ریٹائر ہو جائیں گے لیکن نئے سینیٹرز کا انتخاب کرنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ قانونی اور انتخابی پیچیدگیوں کے علاوہ نگران وزیراعظم کا سب سے بڑا چیلنج معیشت ہوگا۔ اب پاکستان آئی ایم ایف کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ نگران سیٹ اَپ معیشت کو کیسے چلاتا ہے۔ نگران وزیراعظم کو آئینی‘ قانونی‘ انتخابی اور معاشی چیلنجز درپیش ہیں جن کو حل کرنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے لیکن کیا وہ اپنی سیاسی بصیرت سے ان تمام بحرانوں پر قابو پالیں گے؟ یہ اہم سوال ہے!