انتخابات پر اگر مگر کی کیفیت نگران کابینہ کی تشکیل کے بعد بھی برقرار ہے۔ اب تو الیکشن کمیشن نے باقاعدہ ہاتھ کھڑے کردیے ہیں کہ 90 روز میں انتخابات نہیں ہوسکتے۔ الیکشن کمیشن نے یہ معذوری اس لیے ظاہر کی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی طرف سے مردم شماری کی منظوری کے بعد اب حلقہ بندیاں ہونا ہیں۔الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا شیڈول بھی جاری کر دیا ہے۔ حلقہ بندیوں کیلئے چار ماہ کا وقت مختص کردیا گیا ہے۔ حلقہ بندیوں سے متعلق انتظامی امور 31 اگست تک مکمل کیے جائیں گے۔ ملک بھر میں آٹھ ستمبرسے سات اکتوبر تک حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔پانچ ستمبرسے سات ستمبرتک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا حلقہ بندیوں کا کوٹہ مختص کیاجائے گا۔ حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت 14دسمبرکو ہو گی۔
کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے حلقہ بندیوں کا شوشہ چھوڑ کر جان بوجھ کر مزید بحران کو جنم دیا ہے۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ تمام تر ٹوٹ پھوٹ کے باوجود تحریک انصاف اب بھی ایک سیاسی حقیقت ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے انتخابات میں 90 روز سے زیادہ کی تاخیر کی کھل کر مخالفت کی ہے‘ جس کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا نام دیا جارہا ہے۔اس حوالے سے پیپلزپارٹی پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ وہ خود تو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس اور فیصلے میں شامل تھی۔ اس وقت سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے یہ مؤقف کیوں نہیں اختیار کیا؟ اب اگر پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں سپریم کورٹ میں جانے سے کس نے روکاہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت میں بھی اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے کردار پر سوال اٹھا ئے جائیں ۔
چند روز پہلے سینیٹ میں عام انتخابات کے نوے روز میں انعقاد کے حوالے سے ایک متفقہ قرار داد منظور کی گئی ۔ چند آئینی ماہرین کے مطابق اس قرارداد کی خلاف ورزی کی صورت میں الیکشن کمیشن کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ مئی میں قومی اسمبلی میں ایک بل منظور کیا گیا جس کو توہینِ پارلیمنٹ بل کا نام دیا گیا۔ ان ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سینیٹ کی متفقہ قرار داد کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہینِ پارلیمان کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے جس کی کم از کم سزا چھ ماہ قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقی بندیوں کا شیڈول جاری کیے جانے سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ واقفانِ حال کے مطابق اس ملاقات میں اس حوالے سے تمام معاملات پر بات ہوئی جس کے بعد الیکشن کمیشن کا روڈ میپ جاری ہوا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سکندرسلطان راجہ کو الیکشن کے انعقاد میں آئین کی شقوں پر عمل درآمد پر زور دیا۔ وکلاکے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ میں الیکشن التوا کا کیس جانے کی صورت میں عدالت الیکشن کمیشن کوکوئی مارجن نہ دے۔ دوسری جانب سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے جو روڈ میپ دیا ہے وہ قانون کے عین مطابق ہے۔الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 17 سے لے کر22 تک پڑھیں تو اس میں لکھا ہے کہ حلقہ بندیاں چار ماہ میں مکمل کرنا لازمی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسی روڈ میپ پر الیکشن کمیشن نے جب یہ دیکھا کہ سابقہ وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کی تحلیل سے تین دن پہلے مردم شماری کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیااور الیکشن کمیشن کو دوراہے پر لا کر کھڑا کردیا۔
الیکشن کمیشن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ آئینی ادارہ ہے اور اس کے ترجمان متنازع بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اب جواعتراجات اٹھائے جارہے ہیں اس پر الیکشن کمیشن کو یہ سوال کرنا چاہیے کہ آپ نے مشترکہ مفادات کونسل میں دستخط کیوں کیے؟ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ جب دستخط ہوجائیں تو الیکشن کمیشن از سر نو حلقہ بندیاں کرنے کا آئینی طور پر پابند ہے۔اب آرٹیکل 224 آتا ہے ‘اس میں 90 دن میں انتخابات کروانے کی بات کی گئی ہے جو کہ بالکل ٹھیک ہے وہ بھی آئین کا تقاضا ہے اور یہ بھی آئین کا تقاضا ہے۔ اب حلقہ بندیاں ہونے میں چار مہینے بھی لگ سکتے ہیں اور چھ مہینے بھی اور لوگوں نے اس پر ہائی کورٹ بھی جانا ہے‘ سپریم کورٹ بھی جانا ہے۔اس کے بعد جو حتمی رزلٹ حلقہ بندیوں کا آجائے گاپھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان حلقہ بندیوں کی قانون کے مطابق انتخابی فہرستوں کو بھی از سر نو مرتب کرناہے۔لیکن یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں آرہی۔ مشترکہ مفادات کونسل میں بیٹھے سیاستدانوں کو پتہ تھا کہ حلقہ بندیوں کے بعد انتخابی فہرستوں کا مسئلہ پیدا ہونا ہے۔انتخابی فہرستیں بھی کم از کم ایک ماہ تو لیں گی یا دو مہینے لگ جائیں گے۔پھر اس کے بعد الیکشن کمیشن نے سیکشن 57 کے تحت شیڈول جاری کرناہے۔وہ تقریباً 60 دن کا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا حکومت نے پانچ اگست کو جو حلقہ بندیوں کا مردم شماری کے بارے میں نوٹیفکیشن کیا ہے اگر اس کوکالعدم قرار دے دیا جاتا ہے تو الیکشن کمیشن 90 دن میں انتخابات کروا دے گا۔پھر الیکشن کے دروازے جلدی کھل جائیں گے۔
بروقت الیکشن نہیں ہوتے تو اس کا ملبہ نگران حکومت پر بھی گرے گا۔نگران کابینہ بروقت الیکشن کرواسکے گی یا نہیں اورکیا یہ کابینہ اس قابل ہوگی کہ ملکی معاملات کو سنبھال سکے؟ اس وقت یہ سب سے اہم سوال ہے۔ نگران کابینہ میں بلا شبہ اپنی اپنی فیلڈ میں تجربہ رکھنے والے افراد کو شامل کیا گیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وزر ا ماضی کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اپنی وزارتوں میں پرفارم بھی کر پاتے ہیں یا نہیں؟ نگران کابینہ اپنا فرض ِاولین سمجھتے ہوئے بروقت انتخابات کرواتی ہے یانہیں؟ نگران کابینہ خود کو لمبا کھینچتی ہے یا ڈے ٹو ڈے افیئر ز تک محدود رکھتی ہے؟ نگران کابینہ کو دیکھیں تو اس میں سوائے سرفراز بگٹی کے باقی سب کے سب ٹیکنوکریٹس ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹیکنوکریٹس طرز کی نگران کابینہ ملکی معاملات کو چلانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی اور اگریہ کابینہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس کی مدت میں اضافہ بھی ہوجائے گا۔ اگر انتخابات کے انعقاد کی بات اگلے سال فروری مارچ سے بھی آگے چلی گئی تو پھر شاید یہ کام سالوں پر محیط ہو جائے۔