''مہنگائی ضرور ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ پہیہ جام ہڑتا ل ہو‘‘ نگران وزیراعظم کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ملک بھر سے بجلی کے بلوں کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی تھیں اور گلی محلوں سے شروع ہونے والا احتجاج بڑی شاہراہوں اور تجارتی مراکز تک پہنچ چکا تھا۔ ابتدامیں تو خبر آئی کہ نگران وزیراعظم نے عوام کی فریاد سن لی ہے‘ جلد ہی بجلی کے بلوں کے ستائے شہریوں کو ریلیف کی نوید ملے گی‘ پھر یوں ہوا کہ ایک کے بعد ایک اجلاس ہوتے چلے گئے لیکن ریلیف کی خبر نہ آئی ۔ پہلے نگران وزیرخزانہ نے کہا کہ شہریوں کو بجلی کے بلوں پر ریلیف دینا مشکل ہے‘ پھر نگران وزیراعظم میڈیا کے سامنے خود آگئے اور دو ٹوک انداز میں کہنے لگے کہ بجلی کے بل تو سب کو دینا ہوں گے ۔اب ہڑتال کی بات کرلیتے ہیں ۔گزشتہ روز کراچی سے لے کر خیبر تک ملک بھر کے تاجروں نے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی ۔ کراچی ‘ لاہوراور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں نہ صرف کاروباری مراکز بند رہے بلکہ صنعتوں کو پہیہ بھی جام رہا۔ وزیراعظم کے بیان کو مدنظر رکھیں تو یوں لگتا ہے کہ بجلی کے بھاری بلوں کے ساتھ نگران وزیراعظم کا بیان بھی عوام کے دلوں پر گراں گزرا ہے۔
معیشت اورسیاست ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے‘ اورسیاسی افراتفری کی موجودگی میں معیشت نشوونما نہیں پاسکتی۔ سیاسی استحکام پرہی معیشت انحصار کرتی ہے۔ہمارے ملک میں معیشت زبوں حالی کاشکار اسی لئے ہے کہ یہاں سیاسی افراتفری اور بے یقینی کا راج ہے۔ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وقت پر الیکشن ہوں گے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی پنجاب الیکشن کے حوالے سے نظر ثانی اپیل مسترد کردی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوگی سپریم کورٹ ایکشن لے گی۔ اب سپریم کورٹ نے صاف کہہ دیا ہے کہ آئین کے تحت انتخابات کو 90 روز سے آگے نہیں لے جایا جاسکتا۔یہ آئینی تقاضا تو ہے ہی ساتھ ساتھ یہ معاشی تقاضا بھی ہے کیونکہ باقاعدہ اور منظم حکومت ہی معاشی معاملات کو چلا سکتی ہے۔ شاید اسی بات کے احساس کے ساتھ الیکشن کمیشن تھوڑی لچک پیدا کر رہا ہے اور الیکشن کمیشن نے حلقہ بندی کے دورانیے کو کم کرنے کافیصلہ کیا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد حلقہ بندیوں کے دورانیے کو کم کردیا گیا ہے‘ اب حلقہ بندیوں کی اشاعت 30 نومبر کو ہوگی ۔ حلقہ بندیوں کے دورانیے کو کم کرنے کا مقصد جلد الیکشن ممکن بنانا بتایا گیا ہے۔اس سے قبل الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا دورانیہ 14 دسمبر رکھا تھا۔چلیں الیکشن کمیشن بھی اگر یہ کوشش کر رہا ہے کہ انتخابات جلد ہوں تو معیشت کیلئے یہ اچھی بات ہے۔
اس وقت مہنگائی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ یوں کہا جائے کہ مہنگائی نے غریب کو چاروں جانب سے گھیر کر ماراہے تو غلط نہ ہو گا۔ ملک تو ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا مگر غریب طبقہ مکمل طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے‘ جبکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید پوش لوگوں کی بات ہی مت پوچھیں‘ پچھلے پانچ سال میں سب سے زیادہ تیل انہی کا نکالا گیا ہے۔ معاشی لحاظ سے کوئی خیر کی خبر نظر نہیں آتی۔پٹرول کودیکھ لیں ‘ ایک بار پھر 14 روپے 91 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا ہے۔ پٹرول مہنگا ہوا ہے تو بجلی‘گیس اور بنیادی اشیا بھی مزید مہنگی ہوں گی۔شنید یہ ہے کہ گیس کی قیمتوں میں بھی 60 فیصد تک اضافہ کیا جائے گا۔ ادارۂ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران 20 ضروری اشیاکی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتے کے دوران چینی 11 روپے 40 پیسے اوردال مسور پانچ روپے فی کلومہنگی ہوئی جبکہ چاول دو روپے فی کلو‘ ایل پی جی گھریلو سلنڈر11 روپے‘ 20 کلو آٹے کا تھیلا تین روپے اورپانچ کلوکوکنگ آئل 17 روپے مہنگا ہوا۔ آلو‘ تازہ دودھ‘ دہی‘ اور دال مونگ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی نے عوام کی قوتِ خرید پر کیا کیا نقش چھوڑے ہیں۔دوسری جانب وزارت خزانہ نے مالی سال 2023-24 ء کی ''فسکل رِسک سٹیٹمنٹ ‘‘جاری کر دی ہے جس کے مطابق میکرو اکنامک کے مختلف عوامل کے باعث مالی صورتحال کمزور قرار دی گئی ہے۔رپورٹ میں وفاقی حکومت کے قرضوں کو مالی خطرہ قرار دیا گیاہے جبکہ سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 78.4 فیصد پر پہنچ گیا ہے‘جوہماری معیشت کیلئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ جی ڈی پی گروتھ‘ مہنگائی‘ شرح سود‘ ایکسچینج ریٹ مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہے۔سرکاری اداروں کے قرضے اورگارنٹیاں جی ڈی پی کے 9.7 فیصد پر پہنچ گئے۔سرکاری اداروں کے نقصانات کو بھی مالی خطرات میں شامل کیا گیا ہے۔وزارتِ خزانہ کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ حکومتی سطح پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کیپٹل سٹاک میں اضافے کا امکان ہے۔پالیسی اقدامات پر عملدرآمدمیں تاخیربھی مالی خطرات میں شامل ہے۔ بری خبریں یہیں تک نہیں ‘سٹاک ایکسچینج بھی بحرانوں سے محفوظ دوچار ہے۔ پچھلے دنوں معاشی بے یقینی اور روپے کی بے قدری کے باعث سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی اورسرمائے کے انخلاسے شدیدمندی دیکھنے میں آئی ۔کے ایس ای100انڈیکس 1242پوائنٹس کم ہو گیا۔ 46ہزارپوائنٹس کی حد بھی برقرار نہ رہ سکی ‘ 79.07 فیصد کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت کم ہو گئی ‘ مارکیٹ کی سرمایہ کاری مالیت 179 ارب 82 کروڑ 65 لاکھ روپے گھٹ گئی۔مختلف معاشی سیکٹرز کا احوال سنانے کا مقصد یہی ہے کہ سیاسی عدم استحکام معیشت کیلئے کتنا نقصان دہ ہے‘ لیکن سیاسی رہنما اپنا پولیٹکل سرمایہ بچانے کے چکروں میں ملکی سرمایہ مسلسل داؤ پر لگا رہے ہیں۔ تحریک انصاف ہو یا پی ڈی ایم حکومت دونوں حقیقت سے نظریں پھیرنہیں سکتیں۔دونوں حکومتوں نے ملکی معیشت کا بے پناہ نقصان کیااور اب یہی جماعتیں ملبہ نگران حکومت پر پھینکنا چاہتی ہے۔ اگر آج ڈالر اور پٹرول ٹرپل سنچری کر گئے ہیں تو اس میں نگران حکومت کا کیا قصور ؟ بجلی مہنگی ہے‘ آٹا چینی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں تو اس میں قصور نگران حکومت کا نہیں سابقہ معاشی پالیسیوں کا ہے جن کے منفی ثمرات معیشت سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔اگر مثبت سوچ سے کام لیا جائے تو اس ملک میں بہت پوٹینشل ہے۔بہت سے ایسے وسائل ہیں جن کو بروئے کارلا کر ہم خود کو پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتے ہیں۔لیکن سیاستدان تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں وہ اپنی ہی حکومت کے فیصلوں کی مخالفت اس لیے کر رہی ہے کیونکہ اس نے عوام میں جانا ہے اور اس کو پتہ ہے کہ وہ مشکل فیصلوں میں برابرکی شریک تھی۔پیپلزپارٹی نے بجلی کے بلوں پر احتجاج بھی کیا ہے۔ پیپلزپارٹی ملک گیر احتجاج کرنے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے۔اگرپیپلزپارٹی ایسا کرے گی تو اس کا یہ احتجاج کس کیخلاف ہوگا؟یہ بلاول بھٹو ہی تھے جنہوں نے شہباز شریف کو (ن) لیگ سے زیادہ اپنی جماعت کاوزیر اعظم قرار دیا تھا‘ تو پھر اب پیپلزپارٹی شہباز شریف کو اپنا وزیراعظم ماننے سے انکار کیوں کر رہی ہے؟ عوام اب یہ چاہتے ہیں کہ بلیم گیم بند ہواور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے تعمیری سیاست کی جائے۔ بروقت انتخابات ہوں اور جو بھی مینڈیٹ لے کر آئے اس کو معاشی اعتبار سے آزادانہ فیصلے کرنے دیے جائیں‘ورنہ حالات اگر حالات ایسے ہی رہے تو عوام کا سخت رد عمل سب کچھ ہلا کر رکھ دے گااور ملک خدانخواستہ اُس تباہی کی نہج پر جا پہنچے گا جس کاپاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔