اسرائیل اور فلسطین کی نئی جنگ نے دنیا کو اُلجھا دیا ہے۔ خود اسرائیل کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ اسرائیلی فورسز کو یا تو ان کا غرور لے ڈوبا یا پھر ان کی نااہلی آڑے آ گئی۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں دنیا کی طاقتور ترین ایجنسیاں ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن یہ دعوے اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب حماس نے یومِ کپور کے موقع پر اسرائیل پر راکٹ برسا دیے۔ حماس کی اس کارروائی سے اسرائیل فورسز اب تک سنبھل نہیں سکیں۔ اس اچانک کارروائی سے اسرائیل کا انٹیلی جنس اور دفاعی نظام بری طرح Collapse کرگیا۔ صرف چند سیکنڈز میں اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ فائر کیے گئے۔ بالخصوص فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ حماس کے مجاہدین درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے۔ حماس کی اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل کے غزہ پر حملے جاری ہیں۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے بقول غزہ میں اسرائیل کے حملوں سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں کے بعد تقریباً دو لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کی کارروائی میں 1200اسرائیلی ہلاک جبکہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بہترین وسائل کی موجودگی کے باوجود یہ کیسے ممکن ہوا کہ اسرائیلی ایجنسیوں کو اس حملے کی خبر تک نہ ہو سکی۔ حماس کے مجاہدین اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے درمیان سخت سکیورٹی والی سرحد عبور کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ اسی دوران غزہ سے اسرائیل پر مبینہ طور پر ہزاروں راکٹ کیسے داغے گئے۔ اسرائیل کی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی شاباک‘ اس کی بیرونی خفیہ ایجنسی موساد اور اسرائیل ڈیفنس فورسز کے تمام وسائل کے باوجود کسی کو بھی حماس کی اس کارروائی کی خبر تک نہ ہو سکی۔ اور اگر خبر تھی بھی تو وہ اس کارروائی کو روکنے میں ناکام رہیں۔ اسرائیل کے پاس پورے مشرقِ وسطیٰ کی سب سے زیادہ وسائل کی حامل وسیع انٹیلی جنس سروس ہے۔ ان کے مخبر اور ایجنٹ فلسطین کے علاوہ لبنان‘ شام اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ ماضی میں ان کی جانب سے حماس کے کمانڈروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایسی کارروائیوں کے لیے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹس مطلوبہ شخص کی گاڑی پر جی پی ایس ٹریکرز لگاتے اور پھر ڈرون حملے کی مدد سے ہدف کو نشانہ بناتے تھے۔ یہ خفیہ ایجنسی موبائل فونز ڈیوائسز کے ذریعے بھی دھماکے کرتی رہی ہے۔
غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی باڑ کے ساتھ ساتھ کیمرے اور گراؤنڈ موشن سینسر یعنی کسی بھی قسم کی حرکت کی صورت میں الارم بجانے والے سینسرز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج وہاں باقاعدگی سے گشت بھی کرتی ہے۔ غزہ کے گرد خاردار تاروں کی باڑ کو کسی بھی قسم کی دراندازی روکنے کے لیے ایک سمارٹ بیریئر سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اس کارروائی کے دوران یہ رکاوٹ بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔ حماس کے مجاہدین نہ صرف اس راستے سے بلکہ پیرا شوٹس اور سمندر کے ذریعے بھی اسرائیل میں داخل ہوئے۔ اس طرح کی پیچیدہ اور مربوط کارروائی کی منصوبہ بندی کرنا‘ جس میں پہلے ہزاروں راکٹ ذخیرہ کیے گئے اور پھر اسرائیل پر فائر کیے گئے‘ یہ سب اسرائیلی فورسز کی ناک کے نیچے سے کر گزرنا حماس کے لاجواب آپریشنل سکیورٹی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسرائیل نے اس حوالے سے وسیع پیمانے پر تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے جوکہ کئی سالوں تک جاری رہ سکتی ہیں۔ حماس غزہ کی پٹی میں موجود آزادی پسند فلسطینیوں کا گروہ ہے جو 2007ء سے اب تک اسرائیل کے ساتھ کئی جنگیں لڑ چکا ہے۔ اسرائیل بھی حماس کو فضائی حملوں کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ 2007ء سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل‘ امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی عالمی طاقتیں حماس کی عسکری وِنگ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔ بہرحال اب دنیا دونوں کے درمیان جاری جنگ پر تشویش میں مبتلا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع نیا نہیں‘ اس کی ایک تاریخ ہے۔ جب یورپ میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے صہیونی تحریک زور پکڑنے لگی‘ جس کا مقصد یہودیوں کے لیے الگ ریاست کا قیام تھا‘ اس وقت فلسطین کا علاقہ سلطنتِ عثمانیہ کے کنٹرول میں تھا۔ لیکن پہلی جنگِ عظیم کے بعد یہ خطہ برطانیہ کے زیر تسلط آیا جہاں یہودی بڑی تعداد میں منتقل ہونے لگے اور یوں مقامی عرب آبادی کے ساتھ تناؤ کا آغاز ہوا۔ برطانیہ اور فرانس نے مشرقِ وسطیٰ کو تقسیم کیا اور مختلف ریاستیں قیام میں آئیں تاہم فلسطین برطانیہ کے زیرتسلط ہی رہا جہاں عرب قوم پرستوں اورصہیونی تنظیموں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔ صہیونی تنظیموں نے عسکری گروہ قائم کر لیے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد الگ ریاست کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو گی اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم ایک بین الاقوامی شہر ہو گا لیکن 14مئی 1948ء کو قیام کے بعد اسرائیل کو پہلی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پہلی عرب اسرائیل جنگ تھی جس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کے منصوبے کے مطابق جہاں عرب ریاست بننا تھی‘ وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آ گیا اور یوں فلسطینیوں کے لیے ایک سانحے نے جنم لیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا جب اسرائیل نے عرب اتحاد کوشکست دے کر مصر سے غزہ کی پٹی‘ شام سے گولان اور اُردن سے مشرقی یروشلم سمیت ویسٹ بینک یعنی غربِ اُردن چھین لیا۔ مصرکو سینائی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ 1973ء میں مصر اور شام نے اسرائیل پر اپنے علاقے چھڑانے کے لیے حملہ کیا لیکن اسرائیلیوں نے اس کا جواب دیا اور اپنی اس فتح کو وہ یومِ کپور کہتے ہیں۔ پھر چھ سال بعد اسرائیل اور مصر نے امن کا معاہدہ کر لیا اور سینائی مصر کو واپس لوٹا دیا گیا۔ اُردن نے بھی کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے مصر کی تائید کی۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تاخیر کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے غربِ اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کے گرد سکیورٹی رکاوٹوں کی تعمیر نے امن کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے‘ تاہم اس کے علاوہ بھی کئی اختلافات موجود ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین میں مرکزی تنازع یہی ہے کہ اسرائیل دعویٰ کرتا ہے کہ یروشلم اس کا دارالحکومت ہے جبکہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کے سرحدیں1967ء کی جنگ سے قبل کی حالت پر طے ہونی چاہئیں تاہم اسرائیل اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا۔
اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کیا وہاں غیرقانونی بستیاں تعمیر کیں اور اب غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی بستے ہیں۔ ایک اور معاملہ فلسطینی تارکینِ وطن کا بھی ہے۔ پی ایل او کا دعویٰ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ فلسطینی موجود ہیں جن میں سے نصف اقوامِ متحدہ کے ساتھ رجسٹر ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان افراد کو اسرائیل واپس آنے کا حق حاصل ہے جبکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی یہودی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ایسے میں امن کیسے قائم ہو گا؟ اس کیلئے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ اسرائیل کو فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہوگا۔ غزہ کی پٹی کے محاصرے کو ختم کرنا ہوگا اور مشرقی یروشلم اور غربِ اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں گی۔ ورنہ ظلم کے آگے بند باندھنے کیلئے فلسطینی ایسے ہی اسرائیلی فوج کے مقابلے میں دلیری سے لڑتے رہیں گے جب تک اُن کو اُن کا حق نہیں مل جاتا۔