جس بڑے فیصلے کی امید ظاہر کی جا رہی تھی وہ فیصلہ آگیا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ بنایا اور اس کیس کی کارروائی کو براہِ راست ٹی وی پر نشر کیا گیا۔ گو کہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ عدالتوں میں زیر التوا کیسوں کے انبار کے باوجود صرف اسی کیس پر فوکس کیوں کیا گیا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ میں دائر مقدمات میں التوا نہ دینے سے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں اب کیسز میں التوا دینے کا تصور ختم سمجھا جائے۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ میں بہت زیادہ کیسز زیر التوا ہیں‘ ذہن سے یہ تصور بالکل نکال دیں کہ مقدمات میں تاریخ دی جائے گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیف جسٹس خود زیر التوا کیسز کو تیزی کے ساتھ نمٹانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک اس کیس کی بات ہے تو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس کیس کو ہولڈ کر لیا تھا۔ قانونی ماہرین کی رائے میں اس کیس کا براہِ راست تعلق چیف جسٹس کے اختیارات سے ہے اس لیے سابق چیف جسٹس کسی صورت اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ یہ کیس عدلیہ کی ساکھ کیلئے بھی ایک ٹیسٹ کیس تھا‘ اس لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس کو ترجیح دی۔ اب اس کیس کا فیصلہ آچکا ہے اور فُل کورٹ کے 15 میں سے 10جج صاحبان نے پارلیمان میں ہونے والی قانون سازی کو قابلِ قبول قرار دے دیا ہے جبکہ اس ایکٹ کے تحت ماضی میں از خود نوٹس کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق کی شق کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اس شق کو آٹھ‘ سات کے تناسب سے مسترد کیا گیا ہے۔ جنہوں نے ایکٹ کی اس شق کے تحت اپیل کا حق دینے کی حمایت کی تھی ان میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ‘ جسٹس سردار طارق مسعود‘ جسٹس منصور علی شاہ‘ جسٹس اطہر من اللہ‘ جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایکٹ کی اس شق سے متعلق کثرت رائے سے جو فیصلہ آیا ہے اس سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین ‘جنہیں از خود نوٹس کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا‘ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے اطلاق کے بعد لیے گئے از خود نوٹسز کے خلاف اپیل کا حق ملنا چاہیے یا نہیں‘ تو اس نکتے پر اکثریت نے یہ فیصلہ دیا کہ اس ایکٹ کے اطلاق کے بعد کوئی بھی متاثرہ شخص اپیل کر سکتا ہے۔ یہ فیصلہ چھ /نو کے تناسب سے آیا۔اب اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے قانون بننے کے بعد چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے کااختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے تین سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔اس کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کااختیار محدود ہو گا‘ بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کافیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔یہی کمیٹی بنیادی انسانی حقوق کے معاملات کم از کم تین ججوں پرمشتمل بینچ کو بھجوائے گی۔انٹرا کورٹ اپیل پر 14 روزمیں سماعت ہو گی۔اہم نوعیت کے معاملات کے مقدمات14 روز کے اندر اندر سماعت کے لیے مقرر ہوں گے۔
اب اس فیصلے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو تسلیم کرلیا ہے اور کچھ تجزیہ کار اور ماہر قانون یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا سپریم کورٹ نے خود چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کردیا ہے ؟ ایسے میں اب پارلیمنٹ عدلیہ کو اپنی مرضی سے چلا سکتی ہے۔بنیادی طور پر یہ قیاس آرائیاں اور مختلف نوعیت کے خدشات ہیں‘لیکن اس فیصلے کے بعد سب سے اچھی چیز جو ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اب چیف جسٹس اکیلے ہی اہم فیصلے نہیں کریں گے۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے نے چیف جسٹس کی مطلق العنانیت کو ختم کردیا ہے۔یہ بات تو حقیقت ہے کہ ماضی میں فل کورٹ ججز کا تصور نہیں تھا اور نہ ہی سابقہ چیف جسٹس صاحبان کا اپنے ساتھی ججزپر بھروساتھا‘لیکن یہاں موجودہ چیف جسٹس کی تعریف کرنی ہوگی کہ انہوں نے چیف جسٹس کی مطلق العنانیت کو ختم کیا۔سب سے اہم بات جو اس فیصلے میں نظر آئی وہ یہ تھی کہ ہمیں ایک جیسے ججز کاایک جیسا فیصلہ نظر نہیں آیا بلکہ واضح فرق نظر آیا۔مثال کے طور پر اس ایکٹ کی ایک شق یہ تھی کہ کسی کیس پر بینچ کیسے بننا ہے ‘تو اس کیلئے تین ججزمل کر فیصلہ کریں گے کہ بینچ کیسا بنے گا ۔اس پر فیصلہ 10 پانچ سے آیا۔پھر ایک شق یہ تھی کہ آرٹیکل184/3کے تحت اپیل کا حق دینے کا فیصلہ نو ‘چھ کے تناسب سے آیا۔ اس قانون کاماضی پر اطلاق ہوگا کہ نہیں‘ اس پر فیصلہ آٹھ‘سات کے تناسب سے آیا۔یہی خوبصورتی ہے اس فیصلے کی کہ ججز کی اپنی آزادانہ رائے نظر آئی ۔ جن پانچ جج صاحبان نے ایکٹ کی مخالفت کی اُن میں جسٹس منیب اختر ‘جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عائشہ شامل ہیں اور کیونکہ یہ مستقبل کے چیف جسٹس ہوں گے‘ شاید اس لیے نہیں چاہتے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کیا جائے۔
بہرحال اب اس فیصلے کے بعدمختلف قانونی آرا سامنے آرہی ہیں۔ماہر قانون اعتزازاحسن کہتے ہیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے قانونی قرار دینے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین کو اپیل کا حق نہیں ملے گا اور نہ ہی ان کو اس فیصلے کا کوئی فائدہ ہوگا۔ماہر قانون عرفان قادر کی رائے میں نواز شریف اور جہانگیر ترین اس فیصلے کے تناظرمیں اہل ہوچکے ہیں اور ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فردواحد کے ہاتھ سے فیصلے لینا اچھا ہے۔ماہر قانون اشتراوصاف نے کہا کہ پارلیمنٹ ہی قانون بناتی ہے تو اسی کے قانون کا فیصلہ کیا گیا ہے۔سینیٹر اعظم نذیر تارڑسمجھتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ2017ء میں پانچ سال کی نااہلی سے متعلق ترمیم ہوئی‘ قانون کہتا ہے کہ جہاں آئین کچھ نہ ہو تو قانون سازی سے آگے بڑھا جا سکتاہے‘ نواز شریف اب اس قانون سازی کے تناظر میں اہل ہیں۔لیکن کچھ قانونی ماہرین کی رائے میں معاملہ اتناسادہ نہیں کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سادہ قانون سازی سے نہیں بدلا جاسکتا۔سپریم کورٹ کا فیصلہ یاتو سپریم کورٹ خود بدل سکتی ہے یا پھر پارلیمنٹ دوتہائی اکثریت کے ساتھ قانون بدل سکتی ہے۔اب الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی سزا پانچ سال مقرر کرنے والامعاملہ سپریم کورٹ جائے گا‘ ممکن ہے قاضی فائزعیسیٰ کی عدالت اس کو Endorse کردے‘ لیکن ایسا قانونی طور پر مشکل نظر آتا ہے۔وکیل عبد المعز جعفری بھی محسوس کرتے ہیں کہ ایکٹ کو ماضی سے روبہ عمل نہ ہونے کے معاملے نے نوازشریف کا مستقبل پیچیدہ کردیاہے اوراس سے پتہ چلے گا کہ وہ آئندہ انتخابات میں کس طرح سے سامنے آئیں گے۔ الیکشن ایکٹ کی ترمیم بھی سپریم کورٹ کی شق 62 ون ایف کی تشریح کی خلاف ورزی ہے۔ اس معاملے میں فیصلے میں خامیاں ہیں اور اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے لیکن جب تک اس پر نظرثانی نہیں ہوجاتی اس وقت تک ا لیکشن ایکٹ کی ترامیم واضح طور پر غیر قانونی ہیں۔اب بہرحال نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نا اہلی کامعاملہ پھر سے عدالت جائے گا اور وہیں سب طے ہوگا۔لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمانی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کاتصور پوری طرح اجاگر ہوگیا ہے۔