انسان کی جبلت میں ہے کہ جب وہ کسی تناؤ میں ہو تو وہ بہت پریشان ہوجاتا ہے اور ڈپریشن میں چلا جاتا ہے‘ دوسری صورت میں وہ غصے میں جلنا کڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہماری سیاست میں بھی مایوسی اور غصے کا ملاپ نمایاں نظر آتاہے۔ بلال بھٹو زرداری ہی کو لیں‘ جمعہ کے روز ان کی پریس کانفرنس میں کافی aggression نظر آئی اور بے چینی اور اضطراب بھی جھلکتا رہا۔ ان کے اس رویے کی بڑی وجہ سندھ میں( ن) لیگ کا ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے اتحاد ہے۔بلاول بھٹو نے (ن) لیگ کو اپنا احسان یاد کرواتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے میں بہت محنت کی جس کا مقصد ملک میں جمہوری اور معاشی بحران میں بہتری لانا تھا۔ 2013 ء میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی اور ہم اپوزیشن میں تھے‘ چیئرمین پی ٹی آئی کوحکومت ملی تب بھی ہم اپوزیشن میں تھے۔(ن) لیگ اور ایم کیوایم کے اتحاد سے ہمیں نقصان سے زیادہ فائدہ ہوگا۔بظاہربلاول بھٹو یہ ظاہر کر رہے تھے کہ انہیں اس اتحاد سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا‘لیکن اندر ہی اندر پیپلزپارٹی کو یہ ڈر بھی ہے کہ اگر (ن) لیگ ‘جی ڈی اے اور ایم کیو ایم آپس میں مل کر سندھ میں ان کے خلاف محاذ بناتے ہیں تو پیپلزپارٹی کو کافی ڈینٹ پڑ سکتاہے۔کچھ تجزیہ کار سندھ میں بدلتی ہوئی سیاسی رُت دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس باروزیر اعلیٰ سندھ ایم کیو ایم سے ہو۔اور ایسا ہو بھی سکتاہے کیونکہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔اور ممکنات کے اس کھیل میں کچھ بھی ممکن ہے۔جی ڈی اے ‘پاکستان مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ زور لگائیں تو سندھ میں وزیراعلیٰ ایم کیو ایم کا ہوسکتا ہے۔(ن) لیگ اس لیے پتنگ کو پکڑرہی ہے تاکہ پیپلزپارٹی کا سندھ سے بو کاٹا کرسکے۔ ایم کیوایم اور( ن) لیگ سندھ میں 2013ء والی اپنی پوزیشن حاصل کرسکتی ہے۔دونوں جماعتوں کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ کراچی میں 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج جیسی صورتحال حاصل کرسکیں۔یاد رہے کہ ان انتخابات میں کراچی سے ایم کیو ایم کو صوبائی اسمبلی کی 33 اور قومی اسمبلی کی 17 نشستیں ملی تھیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں حاصل کی تھیں۔ایم کیو ایم کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر امین الحق کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ لوکل سطح پر کی جائے گی اوریہ کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگرعلاقوں میں بھی ہوگی۔لیکن یہ طے ہونا باقی ہے کہ کن کن جگہوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔یقینا ایم کیو ایم بھی سمجھتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں اکثریت مسلم لیگ( ن) کی ہو گی تومرکز میں اور صوبے میں اس کا اتحاد ہوگا‘ لہٰذا کراچی کی23 نشستوں میں سے کچھ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہوں گی اوراکثریت ایم کیو ایم کے پاس ہوگی ‘یعنی جو پوزیشن 2013 ء کی تھی وہی رہے گی۔ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ اپنے قیام سے لے کر تین بارمسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت رہی اور تینوں ادوار میں اسے آپریشن کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013ء کے آپریشن کے دوران ایم کیو ایم دھڑوں میں بٹ گئی جو رواں سال ایک بار پھرمتحد ہو گئی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف حکومت میں بھی شامل تھی اور جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو ایم کیو ایم نے اس کا بھی ساتھ دیا اور بعد میں وہ شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کا حصہ بن گئی۔یعنی ایم کیو ایم کسی بھی بننے والی حکومت کا ہمیشہ سے اہم جزو رہی ہے اور اگر وہ ہاتھ اٹھا لے تو حکومت کا ٹھہرنا مشکل ہوجاتا ہے اور ایسا ہی جی ڈی اے کا بھی معاملہ ہے۔ اگر تحریک انصاف کو سپیس نہیں ملتی تو اس بات کا امکان ہے کہ ایم کیو ایم کا ووٹر واپس آئے گا۔
پیپلز پارٹی کے بعدتیسرا چیلنج تحریک لبیک پاکستان ہے جو اچھا خاصا ووٹ لے سکتی ہے۔ اس صورتحال میں ایم کیو ایم کی قیادت اس جماعت کی طرف جانا چاہتی ہے جس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں‘ اور ایم کیو ایم کے بھی بہترہوسکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آنے والی حکومت بنتی ہے تو وزارتوں میں حصہ ملے گا کیونکہ کراچی میں اب ایم کیو ایم کے لیے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے دوبارہ کراچی کا حصول دشوار ہے۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی نے میئرشپ حاصل کرلی ہے ‘لہٰذا وہ وفاقی حکومت کا حصہ بن کر کچھ وزارتیں لے سکتے ہیں۔اب سارے حالات دیکھتے ہوئے ممکن ہے پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے ساتھ اپنی قربتیں بڑھائے‘ اور حالیہ دنوں میں پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کو لے کر کافی لچک کا مظاہرہ دکھایا ہے۔یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے تحریک انصاف کے لیے لیول پلینگ فیلڈ بھی مانگی گئی ہے ‘جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پیپلزپارٹی خود کو insecure محسوس کرتے ہوئے تحریک انصاف کی جانب اپنا جھکاؤ کر رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی میں میدان مارا تھا‘یہاں تک کہ بلاول بھٹو اپنے سیاسی گڑھ لیاری کی نشست این اے 246 سے صرف39325 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے شکور شاد کامیاب ہوئے‘یعنی 2018 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو بڑے جھٹکے لگے اور اب کی بار اِن میں اور بھی اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ اس بار سندھ میں اس کو بڑے محاذ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اسی طرح (ن)لیگ بلوچستان میں بھی اپنے پنجے گاڑنے کی تیاری کر رہی ہے اور BAPپارٹی سے اپنے تعلقات کو مضبوط کر رہی ہے۔ممکن ہے (ن) لیگ BAP کے ساتھ مل کر یہاں پر بھی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے‘حالانکہ اس سے پہلے آصف زرداری صاحب بہت فخر سے بھرے جلسوں میں یہ بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت گرائی۔اب وقت پھر سے پلٹ کر( ن) لیگ کی حمایت میں جاسکتا ہے اور یوں بلوچستان میں بھی( ن) لیگ پیپلزپارٹی کاراستہ روک سکتی ہے۔BAP کی بھی اپنی ایک حیثیت رہی ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ پیپلزپارٹی نے راتوں رات (ن) لیگ کوditchکرکے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کا اپوزیشن لیڈربنوایا تھا۔اس وقت پیپلزپارٹی اور باپ پارٹی میں اتحاد نظرآیا۔ پیپلزپارٹی کی یہ کوشش ہوگی کہ بلوچستان میں خود کو مضبوط کرے اور اس سلسلے میں حالیہ دونوں بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پیپلزپارٹی بلوچستان کا بلاول ہا ؤس میں اہم اجلاس ہوا جس میں مختلف سیاسی امور پرگفتگو ہوئی۔
اب انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔اور اتحاد بنانے پر بھی کام تیزہوگیا ہے‘لیکن ایک سوال یہ جنم لے رہا ہے کہ کیا کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ امید نہیں کہ وہ تنہا حکومت بنالے گی؟کیا سیاسی جماعتوں نے پہلے ہی یہ ذہن بنا لیا ہے کہ وہ انتخابات میں اتحاد کے بغیر حکومت نہیں بنا سکتی؟ اگر آئندہ انتخابات میں مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ایسی حکومت کمزور تصور نہیں ہوگی؟کیونکہ ایک جماعت کی بلیک میلنگ سے حکومت مشکل میں آسکتی ہے؟آزادانہ فیصلے نہیں ہوسکتے جس سے کھل کر حکومت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے اتحاد تو بنا لیں لیکن کل کو یہی اتحاد فساد کا باعث بن جائیں‘کیونکہ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔بہرحال اب انتخابات قریب ہیں اس دوران بہت سے اتحاد بن بھی سکتے ہیں ٹوٹ بھی سکتے ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کا راستہ روکتا ہے۔سندھ ‘پنجاب ‘ خیبر پختونخوا اوربلوچستان میں کون میدان مارتا ہے‘ کس کے ہاتھ تخت لگتا ہے اور کس کا تختہ ہوتا ہے۔