ان دنوں ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ وہ دن گئے جب ہم دوست ممالک سے ادھار پیسے لے کر سٹیٹ بینک میں جمع کروا کر اس پر تھوڑا بہت سود دیا کرتے تھے۔ اب ہمارے دوست ممالک بھی ہم سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ہم سرمایہ کاری کی طرف توجہ دیں اور وہ سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اس تناظر میں حکومتِ پاکستان نے غیرملکی بالخصوص خلیجی ممالک کے سرمایہ کاروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کیلئے کچھ اہم سیاسی اور انتظامی فیصلے کیے ہیں جس میں ریاستی اداروں کو اہم کردار دیا گیا ہے۔ اس مقصد کیلئے رواں برس جون میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کونسل میں ایک شعبہ کارپوریٹ فارمنگ کا بھی شامل ہے۔ یہ سوال کہ اس شعبے میں تو کب سے سرمایہ کاری کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اب اس منصوبے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اقتصادی سروے 2023ء کے مطابق زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں22فیصد سے زائد حصہ ڈالتا ہے اور 37فیصد آبادی کو ملازمت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں زرعی اجناس مثلاً گندم‘ دالوں اور آئل سیڈز کی قلت ہے اور یہ سب کچھ امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ اسی سبب سابق وزیراعظم نے سات جولائی کو لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم سینٹر آف ایکسیلینس کا افتتاح کیا تھا۔ حکومت نے اس سینٹر کے قیام کا مقصد زراعت کے شعبے کو فروغ دینا اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنا قرار دیا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد ملک میں 70لاکھ ایکڑ سے زائد غیر کاشت شدہ اراضی کو استعمال کرتے ہوئے جدید زرعی فارمنگ کو فروغ دینا ہے۔ اگر اس منصوبے پر من و عن عمل ہوگیا تو زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ گرین پاکستان منصوبے کے وجود میں آنے سے ملک میں دو ہزار ارب کی معاشی سرگرمی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم تیار کر لیا گیا ہے۔ اس سسٹم کے تحت جدید کاشتکاری کے کئی منصوبوں پر کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت زرعی شعبے میں تین ارب ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ سعودی عرب فوری طور پر 50کروڑ ڈالر دے گا۔
لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم سینٹر آف ایکسیلینس کے قیام کا مقصد غذائی تحفظ کو بڑھانے کیساتھ ساتھ زرعی برآمدات کو بہتر بنانا اور اس طرح ملک کے اندر لاکھوں ایکڑ غیر کاشت شدہ یا کم پیداوار کی حامل زمین کو بہتر بنا کر قومی خزانے پر درآمدی بوجھ کو کم کرنا ہے۔ یہ جدید ترین نظام‘ جدید ٹیکنالوجیز اور زمین کی زرعی و ماحولیاتی صلاحیت پر مبنی‘ پائیدار اور درست زرعی طریقوں کے ذریعے پیداوار کو بہتر بنانے میں مدد دے گا جبکہ دیہی آبادیوں کی فلاح و بہبود اور ماحولیات کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے گا۔ رہا یہ سوال کہ اس منصوبے کیلئے زمین کہاں سے حاصل ہو گی تو پاکستان کی قومی زرعی پالیسی 2018ء کے مطابق ملک میں 13ملین ایکڑ سے زائد زمین ایسی ہے جس کو قابلِ کاشت بنایا جا سکتا ہے۔ایک سرکاری یونیورسٹی کے تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 9.14ملین ایکڑ بنجر زمین قابلِ کاشت بنائی جا سکتی ہے جس میں بلوچستان کی 4.87ملین ایکڑ‘ پنجاب کی 1.74ملین ایکڑ‘ سندھ کی 1.45ملین ایکڑ جبکہ خیبرپختونخوا کی 1.08ملین ایکڑ زمین شامل ہے۔ بلوچستان میں قابلِ کاشت بنجر زمین قلات‘ کوئٹہ‘ نصیر آباد اور مکران ڈویژن میں ‘ پنجاب میں ڈی جی خان‘ بہاولپور‘ راولپنڈی اور لاہور ڈویژن میں‘ سندھ میں یہ زمین حیدرآباد‘ میرپور خاص‘ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں جبکہ خیبر پختونخوا میں ڈی آئی خان‘ ہزارہ اور کوہاٹ ڈویژن میں موجود ہے۔
پاکستان میں سرکاری زرعی زمینوں کے مالکانہ حقوق صوبوں کے پاس ہیں جبکہ وفاقی محکمے اپنی ضرورت کے مطابق ان سے زمین لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں بہت سے ایسے منصوبے ہوتے ہیں جو کاغذوں میں تو نظر آتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کا کبھی وجود عمل میں نہیں آتا۔ لیکن اگر اس زرعی منصوبے کی بات کی جائے تو اس پر کام پہلے شروع ہوا اور اس کا افتتاح بعد میں کیا گیا جس کے تحت جنوبی پنجاب کے ریگستانوں کو سرسبز کرنے اور وہاں جدید طریقوں سے کاشتکاری کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس منصوبے کا سب سے پہلا اثر یہ ہوگا کہ ہماری فوڈ سکیورٹی یقینی ہو جائے گی۔ گندم کی اچھی فصل کے باوجود جو اس کی قلت رہتی تھی اور ملکی ضرورتیات کیلئے ہمیں باہر سے گندم درآمد کرنا پڑتی تھی‘ کم از کم اب ہم اپنی ضرورت کی گندم خود پیدا کر سکیں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی جس سے ملک میں بیکار پڑی زمین کو آباد کیا جائے گا۔ اس منصوبے کیلئے سعودی عرب نے 500 ملین ڈالرکی سرمایہ کاری کا جو عندیہ دیا ہے وہ بہت جلد پاکستان آر ہی ہے۔ یعنی ایک تو ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آئے گی اور دوسرا 30 سے35 لاکھ نوکریاں پیدا ہوں گی۔ اس کے علاوہ ملک میں جو 95فیصد چھوٹا کسان ہے‘ اسے بھی اس منصوبے میں انگیج کیا جائے گا بلکہ اس مقصد کیلئے 40 لاکھ سے زائد کسانوں کا ڈیٹا اکٹھا بھی کر لیا گیا ہے۔ اس مقصد کیلئے ایسا سسٹم تیار کیا گیا ہے وہ ایک عام آدمی کی زندگی تبدیل کردے گا۔ اس میں Centre of Excellence کا کردار بہت اہم ہے‘ اب اس سنٹر کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا جا رہا ہے۔ پنجاب میں تین ہزار سے زائد محکمہ زراعت کے جو ملازمین ہیں‘ ان کو آن بورڈ لے لیا گیا ہے۔ باقی صوبوں کے جو محکمہ زراعت ہیں‘ ان کو بھی لوپ میں لیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کے اگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے جو طلبہ اور اساتذہ کرام ہیں‘ ان کو بھی اس منصوبے میں انگیج کر لیا گیا ہے۔ اس منصوبے پر اگر من و عن عملدرآمد ہو جاتا ہے تو ملکی زراعت میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت عام کسان کی بھرپور معاونت کی جائے گی‘ ان کی معاشی قوت کو بڑھایا جائے گا‘ کم رقبے سے زیادہ پیداوار کے حصول کیلئے بھی اس کی مدد کی جائے گی۔ یعنی پاکستان کے 95فیصد کسانوں کا فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔دوسری جانب زرعی برآمدات میں اضافے سے زرِمبادلہ کا بحران بھی دور ہو جائے گا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم جو زرِ مبادلہ غذائی اجناس کی برآمدات پر خرچ کرتے ہیں‘ اس کی بھی بچت ہوگی۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ خوارک کی کمی کے حوالے سے ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 37 فیصد پاکستانی خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی طرح 18 فیصد سے زائد پاکستانیوں کو خوراک کے حوالے سے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے ہم خوراک میں خود کفیل ہو جائیں گے۔
ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کے فروغ کی کوششیں گزشتہ 33 سال سے جاری ہیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں کارپوریٹ فارمنگ متعارف کروائی لیکن اس پر عملدرآمد سے پہلے ہی ان کی حکومت برطرف ہو گئی۔ صدر پرویز مشرف نے بھی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے باضابطہ اقدامات کیے تھے اور بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے زرعی فارمنگ پالیسی اور کارپوریٹ فارمنگ آرڈیننس کا اجرا بھی کیا تھا۔ 2008ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اس نے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ذریعے غیرملکی سرمایہ کار کو متوجہ کرنے کی کوشش کی اور 2009ء میں ایک ایسے پیکیج کا اعلان کیا جس کا فوکس مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک تھے لیکن یہ کوششیں کارگر ثابت نہ ہو سکیں۔ اب قوی امید ہے کہ گرین پاکستان منصوبہ مکمل طور پر نافذالعمل ہو جائے گا جس سے پاکستان کا کسان خوشحال ہوگا اور ملک کا بنجر رقبہ سر سبز و شاداب ہو جائے گے‘ ملک زراعت میں پھر سے خود کفیل ہو گا اور زرعی شعبہ پھر سے ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن جائے گا۔