مختلف طرح کی دو نمبریاں ہمارے معاشرے میں عام ہو چکی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاسے لے کر پٹرول تک شاید ہی کوئی چیز ایسی ہو جو آسانی سے خالص دستیاب ہو۔منافع خورزیادہ منافع بٹورنے کیلئے انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ملاوٹ پہلے دودھ اور خوراک کی دیگر اشیامیں ہوا کرتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ملاوٹ کا یہ سلسلہ ادویات تک جاپہنچا ہے۔وہ ادویات جو انسانی جانوں کو بچانے کے کام آتی ہے ‘منافع خوریہاں پر بھی انسانی جانوں سے کھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ابھی کچھ دن پہلے یہ خبر آئی تھی کہ پنجاب حکومت نے لاہورکی ایک فارماسیوٹیکل کمپنی کے بنائے ہوئے کھانسی کے سیرپ میں نقصان دہ اجزاکا انکشاف ہونے کے بعد پانچ سیرپس پر پابندی عائد کر دی۔یہ پابندی اُس وقت لگائی گئی جب مالدیپ حکومت اور ڈبلیو ایچ او نے لاہور کی اس کمپنی کے بنائے ہوئے کھانسی کے سیرپ پر الرٹ جاری کیا۔بتایا گیا تھا کہ لاہورکی کمپنی کے بنائے ہوئے کھانسی کے سیرپ میں نقصان دہ ڈائی ایتھلین گلائکول اور ایتھلین گلائکول نامی اجزا پائے گئے ہیں۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے اس پر کارروائی کرتے ہوئے کھانسی کے ان سیرپ کے مختلف بیچ مارکیٹ سے اُٹھانے کی ہدایت کردی ہے۔اس کمپنی کاسیرپ مالدیپ اور فجی سمیت چار ممالک کو برآمد کیا گیا تھاجبکہ یہ سیرپ پاکستان میں بھی سپلائی کیا گیا ہے۔نگران صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر کے بقول مالدیپ کی شکایت پر ڈبلیو ایچ او کی تحقیقات میں لاہور میں تیارہونے والے کھانسی کے پانچ سیرپس میں الکوحل کی زیادہ مقدار کی تصدیق ہوئی ہے۔ ادویات میں مضر صحت اجزا بھی موجود تھے جس کی وجہ سے ان پر پابندی عائدکی گئی۔اس سے پہلے بھارتی کف سیرپس میں موجودانہی کثافتوں سے کئی بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔افریقی ملک گیمبیا کی ایک سرکاری ٹاسک فورس کے مطابق بھارت سے درآمد کیے گئے کھانسی کے چار مختلف شربتوں کی وجہ سے کم از کم 70 شیرخوار بچوں کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ موت کے منہ میں چلے گئے۔ کم از کم70 شیر خوار بچوں کی اموات کے بعد گزشتہ سال ستمبرکے آغاز سے اب تک گیمبیا نے کھانسی اور نزلہ و زکام کی کئی دیگر دوائیوں کے ساتھ ساتھ انڈین لیبارٹری میڈن فارماسیوٹیکلز کی تیار کردہ تمام مصنوعات پر پابندی عائد کر دی تھی۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق لیب ٹیسٹوں کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ کھانسی کے ان شربتوں میں ڈائی تھیلین گلائیکول اور ایتھیلین گلائیکول کی ناقابل ِقبول مقدار موجود تھی۔
رواں سال کے آغاز میں ڈبلیو ایچ او نے جعلی ادویات کے خاتمے کے لیے فوری اور مربوط کارروائی کامطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبے میں خاص طور پر کھانسی کے ان شربتوں کا حوالہ دیا گیا تھا جو گیمبیا‘ انڈونیشیا اورازبکستان میں کم از کم 300 بچوں کی اموات کا سبب بنے۔ جعلی ادویات کا یہ گھناؤنا کھیل صرف پاکستان اوربھارت تک محدود نہیں پوری دنیا میں یہ کھیل بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ انڈونیشیا میں بھی جعلی ادویات کاسکینڈل حال ہی میں سامنے آیا۔انڈونیشیا میں کھانسی کا وہ سیرپ بنانے والی کمپنی کے مالک اور تین اہلکاروں کو جیل کی سزا سنائی گئی ہے‘جس کے استعمال سے ملک کے 200 سے زائد بچوں کی موت واقع ہو گئی تھی۔اس کمپنی پر کھانسی کا ایساشربت تیار کرنے کا الزام ہے جس میں زہریلے مادے کی ز یادہ مقدار موجود تھی۔ منشیات سے متعلق اقوام متحدہ کے نگران ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جعلی ادویات کی بھرمار ہے جن کے بعض اوقات تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔انسدادِ منشیات کے عالمی بورڈ کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹوں میں پچاس فیصد سے زائد ادویات جعلی ہوتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق جعلی ادویات کا کاروبار بہت جلد دنیابھرمیں منشیات کے کاروبار سے بڑھ جائے گا۔ حکومتوں کو ادویات کے متعلق موجودہ قوانین پرسختی سے عملدرآمد کرانا چاہیے اور ادویات کے غیر قانونی کاروبار سے متعلق نئے قوانین متعارف کرانے چاہئیں۔رپورٹ کے مطابق جعلی ادویات کی مارکیٹ بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔بورڈ کی رپورٹ کے مطابق ان مارکیٹوں میں ایسی ادویات دستیاب ہیں جن کے لیبل پر ناکافی اور غلط تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ یہ ادویات غیر مؤثر‘ غیر معیاری اور بعض اوقات زہریلی ہوتی ہیں‘جس سے مریض کی صحت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ اگر اس خوفناک عمل کو نہ روکا گیا تویہ منشیات کی روک تھام کے سلسلے میں عالمی سطح پرہونے والی کامیابیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کو ان رکن ممالک کی مدد کرنی چاہیے جن کے پاس جعل سازوں اورسمگلروں سے نمٹنے کیلئے کافی وسائل نہیں ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات کا غلط استعمال یورپ‘ افریقہ اورجنوبی ایشیاکے بعض علاقوں میں منشیات کے استعمال سے بھی بڑھ گیا ہے۔ایک حالیہ تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ پر نوے فیصد کاروبار کرنے والے ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر دوائیاں فروخت کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ بعض قانونی طور پر دستیاب سکون آور ادویات اتنی طاقتور ہوتی ہیں جو منشیات سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔چونکہ سکون آور ادویات سستی ہوتی ہیں اس لئے نشہ کرنے والے انہیں با آسانی خرید کر نشے کی لت کو پوراکرتے ہیں۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ادویات میں سب سے پہلے ہیروئن کا استعمال کیا گیا جس کے بعد یہ زہر اب پوری دنیا کیلئے ناسور بن چکا ہے۔آج ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ہیروئن دنیا کی بدنام ترین نشہ آور اشیا میں سے ایک کے طور پر جانی جاتی ہے ۔ گزشتہ 20 بر س میں صرف امریکہ میں اس کے زیادہ مقدار میں استعمال کی وجہ سے ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں۔19ویں صدی کی آخری دہائی میں پہلی بار ایک لیبارٹری میں تیار کیے جانے کے چند برس بعد تک ہیروئن کو کھانسی اور گلے کی خراش کے لیے بنائی جانے والی ادویات میں استعمال کیا جاتا تھا۔یونیورسٹی آف نارتھ فلوریڈا میں تاریخ اور طب کے ایک پروفیسر کے مطابق1900ء اور 1906ء کے درمیان شائع ہونے والے طبی لٹریچرمیں متعدد مضامین خبردار کرتے ہیں کہ اس دوا میں لت لگانے کی صلاحیت ہے۔ییل یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کے مطابق ڈاکٹروں اور ادویات فروخت کرنے والوں کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ مریض ضرورت سے زیادہ خوراک لے رہے ہیں اور اس کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔پھرآہستہ آہستہ بات ہیروئن کی لت پر آپہنچی اور یہ لت اس طرح لگی کہ 1910ء کی دہائی میں ہیروئن جرائم پیشہ افراد میں مقبول ہونا شروع ہوگئی ۔محققین کے مطابق امریکہ میں ہیروئن کے غیر طبی استعمال کے ابتدائی شواہد 1910ء سے ملتے ہیں اور یہ وہی وقت تھا جب منشیات کے بارے میں تنازع شروع ہوا۔''One Hundred Years of Heroin‘‘ کے ایک باب میں منصف کورٹ رائٹ لکھتے ہیں کہ کہانی یہ ہے کہ ملک کی جیلوں میں کچھ قیدیوں کو کھانسی کی دوا کے طور پرہیروئن دی گئی۔ اس کے بعد باقی قیدیوں میں یہ بات پھیل گئی کہ یہ ایک خاصی نشہ آور چیز ہے اور پھر یہ افواہ جیل کے باہر بھی پھیل گئی۔اب دیکھا جائے تو ادویات میں زہریلے اور نشہ آور مادوں کا استعمال صدیوں سے چلاآرہا ہے اور اس پر عالمی ادارے کئی بار تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان سمیت جہاں جہاں جعلی ادویات کا گھناؤنا کھیل کھیلا جاری ہے وہاں سختی سے ایکشن لیا جائے اور منافع خوروں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔جو بھی اس بدترین جرم میں ملوث ہے اس کو کسی صورت رعایت نہیں دینی چاہیے ‘ تب جاکر ادویات میں ملاوٹ کا شر انسانی جانیںبچانے والی ادویات سے دور ہوگا۔