تحریک انصاف کیلئے کبھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے ہیں توکبھی گرم ہوا کے جھونکے اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔جمعے کے روزبھی ہم نے ایسی ہی صورتحال دیکھی جب سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظوری کا فیصلہ آیا‘ جس سے بانی پی ٹی آئی کو کسی حدتک سکھ کا سانس نصیب ہوا‘ مگر اس کے چند ہی گھنٹوں بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بلے کا نشان پی ٹی آئی سے چھین لیا۔
آئیے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بات کرلیتے ہیں۔ بظاہر پی ٹی آئی نے اس پرخوشی کا اظہار کیا لیکن دیکھا جائے تو یہ کیس ابھی ضمانت کی بنیاد پر سنا گیا۔ابھی کیس کے میرٹ پر فیصلہ ہوناہے۔ بانی پی ٹی آئی کی اس کیس میں ضمانت منظور ہوگئی ہے جو کہ ایک بہت بڑا عدالتی ریلیف ہے لیکن 190ملین پاؤنڈ کیس‘ توشہ خانہ کیس اور سانحہ 9 مئی کے مقدمات اب بھی ان کا پیچھا کررہے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں ان کی سزاکو برقرار رکھا ہے یہاں بھی بانی پی ٹی آئی سپریم کورٹ سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔فی الحال فوری طور پر ان کا رہائی پانا ممکن نظر نہیں آتا۔ سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی کی بھی ضمانت منظور کرلی گئی ہے۔اب یہ کہا جارہا ہے کہ کم از کم شاہ محمود قریشی جیل سے باہر آجائیں گے‘ ان پر ایک ہی کیس تھاجو سائفر سے متعلق تھا۔ اس کے خاتمے کے بعد وہ پارٹی کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔بظاہر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔جہاں تک شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے تو وہ پھر سے اس کیس میں مشکل میں آسکتے ہیں کیونکہ قائم مقام چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ وزیرخارجہ خود سمجھدارتھے‘وہ سمجھتے تھے کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں‘ وزیر خارجہ نے کہاکہ بتا نہیں سکتا اور انہوں نے بانی پی ٹی آئی کو پھنسا دیا ۔اسی طرح جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اصل سائفر تو وزارتِ خارجہ میں ہے وہ باہر گیا ہے تو یہ دفترِ خارجہ کاجرم ہے‘ سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا‘یعنی دومعزز جج صاحبان اس کی ذمہ داری سابق وزیر خارجہ پر ڈال رہے ہیں تویہ کہنا کہ شاہ محمود قریشی اب مکمل طور پر کلیئر ہیں ابھی قبل ازوقت ہے۔اگر شاہ محمود قریشی پر یہ کیس پوری طرح سے ختم ہوجاتا ہے تو ہی تحریک انصاف کو کسی حد تک یہ فائدہ ہوگا کہ پارٹی ایک سیاستدان کے ہاتھ لگ جائے گی لیکن شاید کیس کا حتمی فیصلہ آنے تک ایسا نہ ہو سکے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن اپنا حتمی فیصلہ سناچکا ہے جس کے بعد پی ٹی آئی بلے کے نشان سے محروم ہوچکی ہے۔الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو امیدواروں نے چیلنج کیا تھا‘ الیکشن کمیشن کے پولیٹکل فنانس ونگ نے بھی پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض کئے اور پی ٹی آئی کو سوالنامہ دیا‘ پی ٹی آئی ہماری ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہی۔پی ٹی آئی پر عام اعتراض پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے کا تھا‘فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی پر اعتراض تھا کہ اس نے انتخابات خفیہ کرائے‘ خواہاں شخص نے بلے کاانتخابی نشان لینے کے لیے ایسا کیا‘ پی ٹی آئی چیئرمین کی مدت13 جون 2021ء تک تھی‘ پی ٹی آئی چیئرمین نے 10 جون 2022ء تک انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے۔پی ٹی آئی کے نئے چیئرمین نے انٹرا پارٹی کی دستاویزات جمع کرائیں اور یہ اعتراض بھی تھاکہ کسی ممبر کو الیکشن لڑنے نہیں دیا گیا‘ اعتراض تھا کہ پی ٹی آئی دفتر میں کوئی نامزدگی کاغذات نہ تھے۔اب اس فیصلے پرقانون دان اور تجزیہ کار اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔ماہرین کاکہنا ہے کہ صرف انتخابی نشان واپس لیا گیا ہے‘ لیکن پی ٹی آئی بطور پارٹی برقرار رہے گی۔ ماہر قانون حافظ احسان احمد کے بقول الیکشن ایکٹ کے پانچ سیکشن بڑے اہم ہیں‘ ہر سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کروائے‘ انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن نے سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا تھا۔ الیکشن ایکٹ کے مطابق جو پارٹی رولز کو فالو نہیں کرے گی اسے انتخابی نشان نہیں ملے گا‘ اب تحریک انصاف کے پاس دو راستے ہیں‘ ایک الیکشن کمیشن کی ریکوائرمنٹ کو پورا کر دیں‘ دوسرا اعلیٰ عدلیہ میں اس فیصلے کو چیلنج کریں۔سربراہ پلڈاٹ احمد بلا ل محبوب کی رائے کے مطابق فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کیلئے بڑا سیٹ بیک ہوگا‘ پی ٹی آئی امیدوار اب الگ‘ الگ نشانات پرالیکشن لڑیں گے‘ پی ٹی آئی کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ سپریم کورٹ جائے انتخابی نشان الاٹمنٹ کی آخری تاریخ 13 جنوری تک ہے‘اس سے قبل سپریم کورٹ جانے سے انتخابی نشان الاٹ ہو سکتا ہے۔سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشادکے نزدیک سیکشن 209 کے تحت الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے‘ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے‘ فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی گنجائش موجود ہے‘ پی ٹی آئی کے تمام انٹرا پارٹی الیکشن کوچیلنج کیا گیا تھا جبکہ باقی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن کوچیلنج نہیں کیا گیا۔کنور دلشاد کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے تحت صرف انتخابی نشان واپس لیا گیا ہے‘ تحریک انصاف بطورپارٹی برقرار رہے گی‘ اگر سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ خلاف دیا توپھر پارٹی ممبران آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ سکتے ہیں‘یعنی ابھی بھی گیم تحریک انصاف کے ہاتھ سے نہیں نکلی لیکن اگر تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑناپڑگیا تو پھر کافی مشکل پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں ہر امیدوار یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ تحریک انصاف کا امیدوار ہے۔ آزاد امیدواروں کے مختلف انتخابی نشان ہوں گے توایسے میں ووٹر کو یہ طے کرنے میں مشکل ہوگی کہ کون سا امیدوارتحریک انصاف کا ہے۔ بیرسٹر گوہراس فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا کہہ رہے ہیں اور ممکن ہے تحریک انصاف سپریم کورٹ بھی چلی جائے۔یہ بھی بتاتے چلیں کہ کسی جماعت سے انتخابی نشان چھن جانا نئی بات نہیں‘اس سے پہلے پیپلز پارٹی سے بھی تلوار کا نشان چھینا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی 1970ء اور 1977 ء کے انتخابات تلوار کے نشان پر ہی لڑی لیکن جنرل ضیا الحق نے جب ملک میں مارشل لاء لگایا اور1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا تو انتخابی نشانات کی فہرست سے تلوار کا نشان ہٹا دیا گیا۔ضیاالحق کی 17 اگست 1988ء کو فضائی حادثے میں موت واقع ہوئی تو ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حصہ لیااور کامیابی حاصل کی۔ بینظیر بھٹو کی قیادت میں یہ پہلے انتخابات تھے جن میں پیپلز پارٹی نے تیر کے نشان پر انتخاب لڑے۔ اس کے بعد کے انتخابات میں بھی انتخابی نشانات کی جو فہرست آئی ان میں تلوار کا نشان شامل نہیں تھا ‘جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے تیر کے نشان کا انتخاب کیا۔ اب پیپلزپارٹی کا نشان تلوار نہیں تیر ہے۔پیپلزپارٹی نے انتخابی نشان چھن جانے کے باوجود اپنی بقاکوقائم رکھا‘ کیا تحریک انصاف بھی ایسا کرسکے گی‘ اگر اس کو بلے کا نشان واپس نہیں ملتا؟ پی ٹی آئی کو اس وقت لیول پلینگ فیلڈ کی شکایت ہے اور سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی ہے‘ جس کے بعد الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی وکلا سے ملاقات کی لیکن اس کے کچھ دیر بعد الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ سنا دیاجسے تحریک انصاف اپنے خلاف سازش قرار دے رہی ہے اور الیکشن کمیشن پر اعتبارکرنے کو بالکل تیار نہیں۔ ملک میں جمہوریت کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ مقدمات کے فیصلے میرٹ پرہوں اور مقدمات کی آڑ میں لیول پلینگ فیلڈ کا راستہ بند نہیں ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ مقدمات کاقانونی طور پر مقابلہ کریں نہ کہ مظلومیت کا کارڈ کھیل کر لیول پلینگ فیلڈ کا شکوہ کریں۔ شفاف انتخابات کرواناالیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے اور توقع اسی کی کر نی چاہیے‘ورنہ آنے والے عام انتخابات پر بھی سے سوالیہ نشان لگ جائیگا۔