"IYC" (space) message & send to 7575

مصلحت کی خوشبو

الیکشن کی آمد آمد ہے۔ 8فروری 2024ء کو عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ کاغذاتِ نامزدگی جمع ہو چکے ہیں اور اگلے مرحلے میں ان کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ الیکشن کے اعلان کے بعد کسی حد تک سیاسی بے یقینی میں کمی آئی ہے لیکن اب بھی سیاسی عدم استحکام مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ لیول پلینگ فیلڈ کی بازگشت اب بھی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف خود کو دیوار سے لگائے جانے کے گلے شکوے کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی تحفظات ہیں۔ ایسے میں اگر عام انتخابات ہو جاتے ہیں تو یہ بات طے ہے کہ ان نتائج کو سوائے جیتنے والی جماعت کے کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ تحریک انصاف پر کڑا وقت اُس کی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے آیا رہی سہی کسر انٹرا پارٹی انتخابات نے پوری کر دی۔ یہ انتخابات شروع سے ہی متنازع رہے۔ کوئی امیدوار نہیں تھا‘ صرف بانی پی ٹی آئی کا من پسند امیدوار تھا جس کو چیئرمین پی ٹی آئی بنا دیا گیا۔ اکبر ایس بابر نے اس معاملے کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ دیا کہ تحریک انصاف نے جانبدار الیکشن کروائے جسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی بلے کا نشان بھی واپس لے لیا گیا۔ اس فیصلے کو پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ہائی کورٹ نے بلے کے نشان کو عارضی طور پر بحال کر دیا ہے۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے پرحکم امتناع جاری کیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق کیس کا حتمی فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل رہے گا۔ عدالت نے کہا ہے کہ سردیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد ڈبل بینچ کیس سنے گا۔ یعنی یہ دائمی ریلیف نہیں ہے‘ ممکن ہے ڈبل بینچ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کر دے۔ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو پھر تحریک انصاف کے پاس سپریم کورٹ جانے کا در کھلا ہے۔ اور فرض کریں سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو پھر یہ شور مچایا جائے گا کہ پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر رکھنے کی تیاری کر لی گئی ہے‘ یعنی اس صورت میں بھی سیاسی بے یقینی کے بادل نہیں چھٹیں گے۔
ملکی معیشت کسی صورت بھی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کوئی نیا سیاسی بحران جنم لے کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی کمزور ستونوں پر کھڑی ہے۔ دیکھا جائے تو سیاسی اور معاشی بحران کو جنم دینے میں کسی ایک جماعت کا کردار نہیں بلکہ برسر اقتدار آنے والی ساری جماعتیں اس کی ذمہ دار ہیں۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ ترقیاتی منصوبوں کی شرح محدود ہو گئی یہاں تک کہ ملک کے ڈیفالٹ ہو جانے کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کی حکومت بذریعہ عدم اعتماد ختم کر دی ‘یہ دعویٰ کیا گیا کہ پی ڈی ایم تحریک انصاف کی معاشی نالائقیوں کو دور کرکے ملکی معیشت کو پٹڑی پر لے آئے گی لیکن یہاں بھی معاشی پالیسیوں کی کمزوریوں کو دور نہ کیا جا سکا۔ وزارتِ خزانہ کے قلمدان کو لے کر مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار میں شدید کشیدگی دیکھنے میں آئی اور اس کشیدگی نے آئی ایم ایف پروگرام کو بھی شدید متاثر کیا۔ یہاں تک کہ اس وقت کے وزیراعظم میاں شہباز شریف کو آئی ایم ایف سے خود مذاکرات کرنا پڑے جس کے بعد ایک بار پھر سے آئی ایم ایف معاہدہ ٹریک پر آ گیا اور پاکستان کو قرض مل گیا۔ یوں عارضی طور پر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل گیا لیکن اس سب کے باوجود ملکی معیشت کی حالت نازک رہی۔ پی ڈی ایم حکومت کا معیشت درست کرنے کا دعویٰ بھی کھوکھلا نکلا۔ وہ اسحاق ڈار جس سے (ن) لیگ کو بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں‘ وہ ان اُمیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ 2013 ء کی معاشی پالیسی سے باہر ہی نہ نکل سکے۔ وہ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکے کہ چند سالوں میں معاشی معاملات کی نوعیت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک میں معاشی اور سیاسی بے یقینی کی فضا پیدا کرنے کی سبب بنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے بعد بھی یہ یقین نہیں کہ نئی آنے والی حکومت معاشی اور سیاسی بحرانوں پر قابو پا سکے گی۔ عالمی بینک بھی ایسی ہی صورتحال کو واضح کر رہا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں الیکشن کے بعد نئی حکومت متعدد اقدامات واپس لے سکتی ہے۔ منظم مفاد پرست طبقہ تیزی سے ضروری اصلاحات کو واپس لے سکتا ہے۔ اس مفاد پرست طبقے کی وجہ سے سٹیک ہولڈرز کو زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ نئی حکومت گیس‘ توانائی اور ٹیکس سے متعلق اقدامات ختم کر سکتی ہے جبکہ سبسڈی‘ تجارتی ٹیرف اور جائیدادوں پر ٹیکس وصولی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے بقول مستقبل کی حکومت کو بنیادی اصلاحات اور ترجیحات کا علم نہیں ہے۔ آئندہ الیکشن کے بعد سیاسی دباؤ کی وجہ سے گورننس کو پہلے سے زیادہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ سیاسی وجوہات کے سبب مالی پابندیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ مشکل اصلاحات پر عملدرآمد جاری رکھنے کا وعدہ بھی خطرے میں پڑھ سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں‘ عالمی بینک کی رپورٹ آئی ایم ایف سے معاہدے کو بھی ختم کرنے کے خدشے کو ظاہر کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدے کے خاتمے کے خطرات بھی بڑھ چکے ہیں۔ سٹینڈ بائی معاہدے کے اختتام پر پاکستان کے ذخائرڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے برابر ہوں گے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ختم ہونے کی صورت میں اضافی بیرونی مدد درکار ہو گی۔ یعنی نئی حکومت کیلئے اقتدار کانٹوں کی سیج سے کم نہیں ہو گا۔
پیپلز پارٹی ہو یا (ن) لیگ‘ دونوں جماعتیں ابھی تک ٹھوس معاشی پلان نہیں دے سکیں۔ رہی بات پی ٹی آئی کی تو اُس کے پاس نہ پہلے کوئی معاشی پلان تھا نہ اب ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس اب تک کوئی ایسی مربوط اور مضبوط معاشی پالیسی نہیں جس سے معاشی مسائل کا تدارک ہو سکے۔ اب کی بار جو بھی جماعت حکومت بنائے گی یا چاہے حکومت مخلوط ہی کیوں نہ ہو‘ کوئی اپنی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکے گا‘ جیسے پہلے پیپلز پارٹی حکومت کے مزے لوٹنے کے بعد معاشی اور سیاسی ناکامیوں کا ملبہ (ن) لیگ پر ڈال کر چل نکلی تھی۔ اب جو بھی حکومت آئے گی اس کو معاشی چیلنجز سے نمٹنے کا باقاعدہ خاکہ پیش کرنا ہوگا‘ ورنہ معیشت مکمل تباہ ہو سکتی ہے۔ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ پیشگوئی بھی کی جا رہی ہے کہ کوئی بھی جماعت تنہا حکومت نہیں بنا سکے گی اور مخلوط حکومت بھی زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی جس کے بعد سیاسی اضطراب مزید بڑھ سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا اب یہ ہے کہ کم از کم ملکی معیشت کے معاملے پر تمام سیاسی قوتیں اپنے آپسی اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آ جائیں۔ میثاقِ معیشت اس وقت ناگزیر ہے۔ ایک ایسی پالیسی تشکیل دی جانی چاہیے جس کو 20سال تک کیلئے لاک کر دیا جائے۔ آرمی چیف خصوصی طور پر بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کوشاں ہیں لیکن ضروری ہے کہ سیاسی قیادت بھی اپنے کوتاہیوں اور غلطیوں کا ازالہ کرے اور معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کیا جائے اور سیاسی فضا کو مصلحت کی خوشبو سے معطر کیا جائے‘ بصورت دیگر سیاسی بحران مزید معاشی بحران کا ہی سبب بنے گا جس سے عالمی بینک پہلے ہی خبردار کر رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں