"IMC" (space) message & send to 7575

حسینہ واجد کی تاریخ سے جنگ

افسوس!بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے تاریخ سے جنگ شروع کردی ہے جس میں کبھی کوئی سرخرونہیں ہوا۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے نام پر سزائیںسنائی جارہی ہیں۔ اس پر پابندی کا مطالبہ بھی شدت پکڑرہاہے۔جماعت اسلامی کی اپیل پر ہونے والے احتجاج میںستر کے قریب لوگ مارے جاچکے ہیں۔ عوامی لیگ کے مخالفین بالخصوص بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کو‘ مظاہروں میں شریک ہوکر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا بہترین موقع مل گیا ہے۔ ملک میں اشتعال اور تلخی کا ماحول ہے۔ اس ماحول میں بنگلہ دیش کی فروغ پذیر معیشت اور جمہوریت کو زبردست خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس وقت جو سیاسی شورش برپا ہے‘ اس کی جڑیں متحدہ پاکستان کے آخری دنوں میں رونما ہونے واقعات میں پیوستہ ہیں۔1971ء میں متحدہ پاکستان ٹوٹ گیا اور بنگلہ دیش کے نام سے ایک نیا ملک معرض وجود میں آیا۔علیحدگی کا سفر سیاسی تلخیوں اور سماجی عداوتوں کو مزید گہرا کرگیا۔علیحدگی کی تحریک کے مخالفین‘ عوامی لیگ کے حامیوں کے نزدیک بنگالیوں کی امنگوں کے دشمن اور اس وقت کی فوجی حکومت کے پروردہ قرارپائے۔پاکستان اور اس کے حامی‘ بنگالی قوم پرستوں کو پاکستان اور اسلام کا دشمن اور بھارت کا ایجنٹ تصور کرتے تھے۔ 1971ء میںبھارت نے عوامی لیگ کی مسلح تنظیم مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں شورش برپا کی۔اسے ہتھیار اور تربیت فراہم کی ۔بھارت نے خطے میں پہلی بار ریاست کے خلاف شہریوں کو مسلح کیا اور انہیں باقاعدہ فوج سے بھڑادیا۔پاکستان نے بھی جوابی طور پر البدر اور الشمس کے نام سے متحدہ پاکستان کے حامیوں پر مشتمل گروہوں کو منظم کیا۔دونوں گروہوں کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش بن گیا تواس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس بلاکر بنگلہ دیش کو آزاد اور خودمختار ملک تسلیم کرلیا۔شیخ مجیب الرحمن بھی کانفرنس میں شریک ہوئے۔مقصد عہد رفتہ کی لغزشوں اور تلخیوں کو فراموش کرتے ہوئے باہمی تعلقات میں نئے باب کا آغاز کرنا تھا۔پاکستان اور بنگلہ دیش ایسا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ۔ 2008ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کو پارلیمنٹ میںبھاری اکثریت ملی تو پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین دوستانہ تعلقات بھی بری طرح متاثر ہوئے ۔ عوامی لیگ نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بنگلہ دیش سے سرکاری سطح پرمعافی مانگے۔دوسر ی جانب عوامی لیگ نے برسراقتدار آتے ہی سیاسی مخالفین کے خلاف سخت گیر انتقامی کارروائیاں شروع کردیں۔ 2001تا2006 ء کے دوران بنگلہ دیش میںخالدہ ضیا ہ کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت رہی۔عوامی لیگ نے خالدہ ضیا اور ان کے خاندان پر بدعنوانیوں اور مالی سیکنڈلز میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور ان کے خلاف مقدمات شروع کردیئے گئے۔ اس وقت بھی بی این پی کے کئی ایک سینئر راہنما جیلوں میں ہیں۔ خالدہ ضیا کی حکومت میں شامل جماعت اسلامی کے وزراء پر کرپشن کے الزامات نہیں‘لہٰذا یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ مستقبل میں بڑی سیاسی قوت بن کرابھرسکتی ہے۔اس خطرے کا سدباب کرنے کے لیے عوامی لیگ کی حکومت نے آئین میں ترمیم کی‘ جس کے مطابق جس جماعت پر ثابت ہوجائے کہ وہ جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم میں ملوث رہی ہے اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگ سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کی اعلیٰ سطحی قیادت کو گرفتار کرکے ان کے خلاف غداری کے مقدمات شروع کردیئے گئے۔اس کی نوجوان قیادت کو بھی اس جرم پر پس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا کہ وہ جنگی جرائم کے الزام پر مقدمات چلانے کے فیصلہ کے خلاف ہیں‘حالانکہ اس نسل کا 1971ء کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں۔ جماعت اسلامی کے اندر یہ بحث چل پڑی ہے کہ ترکی کی حکمران جماعت کی طرزپر نئی جماعت کھڑی کی جائے تاکہ ماضی کی تلخیوں سے جان چھڑائی جاسکے۔یہ بھی کہاجاتاہے کہ ایک ایسی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے حامیوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہے اور مغربی ممالک سے بھی دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے قابل ہوجائے گی۔ 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دینے والی نسل عمر کے آخری حصہ میں ہے۔چند برسوں میں وہ طبعی عمر پوری کرجائیں گے لہٰذا جماعت اسلامی کی نئی نسل کو نئے راستے تلاش کرنے چاہئیں۔نوجوان طبقات اس تصور کو شکست خوردہ ذہنیت کی پیدوار قراردے کر مسترد کرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ عوام کی حمایت سے وہ ریاستی طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔وہ مصر اور تونس کی مثال دیتے ہیں جہاں عوامی مظاہروں نے جابر حکومتوں کا تختہ الٹا۔ جماعت اسلامی کے کئی ایک سابق حامی‘ جماعت اسلامی کی پرامن اور جمہوری سیاسی جدوجہد سے مایوس ہوکر شدت پسند تنظیموں خاص کر حرکتہ الجہاد اور مسلم جنتا بنگلہ دیش میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ عالمی جہادی تحریکوں سے متاثر ہیں۔جمہوریت اور انتخابات کے ذریعے مسائل کا حل نہیں سمجھتے بلکہ مسلح جدوجہد کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسلامی حکومت قائم کرسکیں۔ جماعت اسلامی نے اس سیاسی فکر کی مخالفت کی۔یہی وجہ ہے کہ امریکا سمیت یورپی یونین جماعت اسلامی کو ایک اعتدال پسند جماعت تصور کرتی ہے۔متعدد مرتبہ اس خیال کا اظہار بھی کیاگیا کہ جماعت اسلامی کے گرد دائرہ تنگ کرنے سے انتہاپسند حلقے فائدہ اٹھائیں گے‘ نتیجتاً اعتدال پسند قوتیں غیر موثر ہوجائیں گی‘لیکن حسینہ واجد پر انتقام کا بھوت سوار ہے۔ بنگلہ دیش میں جاری بحث ومباحثہ اور جماعت اسلامی کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال نے پاکستان کے اندر سانحہ مشرقی پاکستان کی یادیں تازہ کردی ہیں۔قوم پرست اور اسلامی رجحانات رکھنے والے عناصر اس صورت حال پر سخت پریشان ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کو حسینہ واجد کے ہاتھوں تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں بھی کئی لوگوں کا خیال ہے کہ حسینہ واجد بھارتی اسٹبلشمنٹ کی شہہ پر جماعت کو دیوار سے لگا رہی ہے کیونکہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں بھارت کی سیاسی اور تہذیبی یلغار کے خلاف ہے۔وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور اسٹرٹیجک تعلقات کے قیام کی علمبردار ہے۔ گزشتہ چند برس سے بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا تھا۔خود پاکستان سے سینکڑوں صنعت کاروں نے بنگلہ دیش میں صنعتیں قائم کیں۔حالیہ تین برسوں میں اس کی اوسطاْجی ڈی پی چھ فیصد کے قریب رہی ۔ جو بہت متاثر کن ہے۔یورپی یونین اور امریکا نے بنگلہ دیش کو تجارت کے لیے خصوصی مراعات دیں ۔اب دنیا بھر کی مارکیٹوںمیں بنگلہ دیش کی کاٹن مصنوعات ملتی ہیں۔دہشت گردی یا ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بدولت بنگلہ دیش کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق نہیں۔ لہٰذا دفاع پر غیر معمولی اخراجات نہیں کیے جاتے۔ملک کے اندر شدت پسندی کا رجحان زیادہ نہیں۔ اس لیے یہ امید کی جاتی ہے کہ اگر بنگلہ دیش معاشی ترقی کی موجودہ رفتار برقرار رکھ سکا تو جلد ہی اس کا شمار خوشحال ممالک میں ہوسکتاہے۔ حالیہ فیصلوں کودیکھتے ہوئے لگتاہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ قیادت امن اور استحکام کی قیمت پر اپنے جماعتی ایجنڈے کی تکمیل کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔جماعت اسلامی کے چند رہنمائوں کو سزادینے کا مطلب آبادی کے ایک بڑے فعال حصہ کو مستقل دشمن بنانے کے مترادف ہے۔آج کی جماعت اسلامی کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں ۔وہ بنگلہ دیش کی وفادار ہے۔شیخ حسینہ واجد کو نیلسن منڈیلا کی طرح تاریخ کی بے رحمیوں اور تلخیوں کو دفن کرنا ہوگا تاکہ بنگلہ دیشی ایک قوم بن سکیں۔سیاسی مخالفین کو پھانسیاں چڑھانے اور جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے ملک تباہ ہوجاتے ہیں۔انتقام درانتقام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتاہے۔جس کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں