"IMC" (space) message & send to 7575

مضبوط معیشت‘ مضبوط پاکستان

ایک سو صفحات پر مشتمل مسلم لیگ نون کا انتخابی منشور منظر عام پر آچکا ۔ملک بدلنے کے عزم اور نعرے کے ساتھ شریف برادران کا دعویٰ ہے کہ اگر عوام نے موقع دیا تووہ پانچ سال میں خوشحال اور مستحکم پاکستان بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اسی تناظر میں انہوں نے نوے دن میں دودھ اور شہید کی نہریں بہانے کا دعویٰ کرنے کے بجائے بتدریج اصلاحِ احوال کا عزم ظاہر کیا۔ منشور میں معیشت کی بحالی‘توانائی کے مسائل کا حل‘زرعی پالیسی‘سماجی تبدیلی کا لائحہ عمل ‘طرزِحکومت کی اصلاح ‘انصاف کی جلد فراہمی‘ سائنس اور ٹیکنالوجی‘خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی‘عسکریت اور دہشت گردی سمیت ملک کو درپیش تمام اہم مسائل کے حوالے سے نون لیگ کی حکمتِ عملی بیان کی گئی ہے۔ احادیثِ نبویﷺ ‘قائد اعظم کے ارشادا ت اورعلامہ اقبال کے منتخب اشعارسے مزیّن یہ پالیسی دستاویز کئی پہلوئوں سے متاثر کن ہے۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ کافی غور وفکر کیا گیا۔میاں نواز شریف نے کہا : وہ منشور کو محض انتخابات کے ہنگام کیے گئے خوش کن وعدے نہیں بلکہ شہریوں کے ساتھ کیا گیا عہد تصور کرتے ہیں۔ شریف برادران کو دیگر سیاستدانوں پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ انہیںکاروبار کا عملی تجربہ حاصل ہے اور وہ روزگار کی فراہمی ‘صنعتی ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر سے گہری دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میںیہ دعویٰ کیا گیا کہ اگر نون لیگ کوحکومت بنانے کا موقع ملا تو وہ پاکستان کو دنیا کی دس بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل کردے گی۔میاں نواز شریف بُلٹ ٹرین کے ذریعے پورے ملک کو ایک لڑی میں پرونے کا بھی وعدہ کرچکے ہیں۔منشور میں خارجہ پالیسی کی بات ہویا قومی سلامتی کا ذکر‘ اسے گُھما پھرا کر ملک کے اقتصادی حالات کے تناظر میں بیان کیا گیا ۔مثال کے طور پر منشور میں کہاگیا:پاکستان کی معاشی کمزوریوں نے اسے کشکول اٹھانے پر مجبور کردیا ۔بیرونی ممالک اس کی سرزمین پر آکر کارروائیاں کرتے ہیں اور مخصوص طاقت ور گروہ پاکستان پر اپنا ایجنڈا مسلّط کرنا چاہتے ہیں۔ منشور میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا جبکہ عسکریت اوردہشت گردی پر پورا ایک باب شامل کیا گیا۔ انتہاپسندی کے مقابلے کے لیے مکالمے کی ضرورت اُجاگر کی گئی؛ تاہم شدت پسندی کے حوالے سے نون لیگ کے منشور میں ابہام پایاجاتاہے ۔ دوٹوک موقف لینے سے گریز کیا گیاہے ۔اس مسئلہ کا حل ملازمتوں اور روزگار کی فراہمی میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ میں شہید ہونے والے پاکستانی شہریوں اور عساکر کی قربانیوں کا ذکر ہی گول کردیا گیا ہے۔دہشت گردی پاکستان کو درپیش خطرات اور مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔اس معاملے پر نون لیگ کو جاندار موقف لینا ہوگا‘ بصورت دیگر معاشرے کے فعال طبقات کے شکوک و شبہات کو دور نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک انصاف کی طرح نون لیگ نے بھی تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ اور تعلیمی بجٹ کو چار فیصد تک لے جانے کا وعدہ کیا‘جس کی خاص طور پر تحسین کی جانی چاہیے۔یہ اس لیے بھی ضرور ی ہے کہ گزشتہ چھ سال سے قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختون خوا کے تیرہ سو کے قریب تعلیمی ادارے تباہ کیے گئے۔بعض سکولوں میں دس برس سے تعلیم کا سلسلہ رُکا ہوا ہے ۔ایک سکول کی تباہی کا مطلب ہے کہ پوری ایک نسل علم کی روشنی سے محروم رہ جائے۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے۔سوال یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے ابھی تک تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیوں نہیں کیا؟ مسلم لیگ نون پاکستان کی پہلی جماعت ہے جس نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پائے جانے والے احساسِ محرومی کا ادراک کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ ان دونوں خطّوں کے منتخب نمائندوں کو مزید بااختیار بنایا جاناچاہیے۔اس حوالے سے کہا گیا: آزادجموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کو مرحلہ وار مالی اور انتظامی اختیارات دے کر باقی چار صوبوں کے برابر لایاجائے گا۔ان دونوں خطّوں کی اسمبلیوں کو مزید اختیارات دئیے جائیں گے۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو قومی مالیاتی کمیشن ‘مشترکہ مفادات کمیشن اور ارسا میں نمائندگی دی جائے گی۔اگرچہ یہ نمائندگی عبوری ہوگی لیکن کم ازکم کچھ پیش رفت تو ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دستوری ترامیم نے صوبوں کو مالیاتی اور انتظامی طور پر بے پناہ اختیارات تفویض کردیے ہیں لیکن آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو ابھی تک اسلام آباد ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سے کنٹرول کرتاہے۔دیگر سیاسی جماعتوںکو بھی ان دونوں خطّوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔ منشور میں بلوچستان کے مسئلہ پر کوئی ٹھوس بات نہیں کی گئی۔کیا نون لیگ بلوچوں کے وسائل پر ان کا حق فائق تسلیم کرے گی؟جو بلوچ تصادم کے دوران مارے گئے یا لاپتہ ہوگئے‘کو بھی تروٹھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے گا؟ ٹروتھ اینڈری کنسیلیشن کمیشن کے قیام کا خیال بڑا اعلیٰ ہے لیکن یہ کمیشن کرے گا کیا؟ جیسے کہ پہلے عرض کیا کہ منشور کئی پہلوئوں سے کمزور ہونے کے باوجود کافی متاثر کن ہے ۔یاد رہے کہ یہ حزب اختلاف کی کسی جماعت کا نہیں بلکہ پانچ برسوں سے پنجاب کی حکمران جماعت کا منشور ہے۔ پنجاب‘ جو نون لیگ کا گڑھ ہے‘ کا ووٹر گزشتہ پانچ برسوں سے لیگی حکومت کا مزا چکھ رہاہے ۔وہ شہباز شریف کی حکومت کی کارکردگی کو پرکھنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے جن مسائل کا سامنا رہاوہ دوسرے صوبوں سے مختلف نہیں۔ پنجاب کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ منظم ہے۔یہاں سرکاری ملازمین اور سہولتوں کا معیار نسبتاً بہتر ہے۔ دوسرے صوبوں کی حکومتیں اور انتظامیہ کا حال بہت ہی پتلاہے۔ مسلم لیگ جو تبدیلی لانے کا دعویٰ کرتی ہے اس کے لیے قابل اور اعلیٰ صلاحیتوں سے مالامال رجالِ کار درکار ہیں۔نون لیگ کی صفوں میں اچھے اور قابل لوگوں کی کمی نہیں لیکن حالیہ چند ماہ میں جس طرح گدھے گھوڑے کی تمیز کے بغیر سینکڑوں افراد کو جماعتی صفوں شامل کیا گیا اور ان سے ٹکٹ کے وعدے بھی کیے گئے وہ اس امر کا اظہار ہیں کہ مسلم لیگ او رپیپلزپارٹی دونوں اسٹیٹس کو کی جماعتیں ہیں‘بلکہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے سرداروں اور جاگیر دار وں کی نون لیگ میں شمولیت سے یہ تاثر گہر اہوا کہ شریف برادران کو ہر حال میں انتخابات جیتنے ہیں۔بلوچ سردار لشکر رئیسانی پانچ سال تک پیپلزپارٹی سے فائدے اٹھاتے رہے ۔ اب جب رائے عامہ کے جائزے نون لیگ کی مقبولیت ظاہر کرنے لگے تو موصوف مشرف بہ مسلم لیگ ہوگئے۔خورشید محمود قصور ی نے بھی شریف برادران سے رابطہ کیا کہ انہیں بھی قبول کرلیا جائے۔جماعت کے سینئر راہنمائوں نے ان کی سفارش کی لیکن نواز شریف نے یہ کہہ کر باب بند کردیا کہ اگر قصوری کو قبول کیا جاتاہے تو پھر پرویز مشرف کو قبول کرنے میں کیا قباحت ہے؟ نواز شریف کو سندھ ‘کراچی اور بلوچستان میں نئے چہروں کو جماعت میں جگہ دینی چاہیے۔فنکشنل لیگ کے پیر پگاڑااورلیاقت جتوئی کی طرح کے ر وائتی جاگیرداروں کی مدد سے چند ایک نشستیں تو جیتی جاسکتی ہیں لیکن تبدیلی کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ تبدیلی کے لیے نئے چہروںکو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔نوازشریف کو چاہیے کہ جماعت کی اگلی صفوں میں ان لوگوں کو رکھیں جن کا ماضی بے داغ ہے اور وہ ستھرے کردار کے مالک ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں