آسمانوں کو چھوتی بلند وبالاعمارتیں‘لمبے چوڑے شاپنگ مال‘دیدہ زیب مکانات ‘بے شمار زیرتعمیر ہوٹل‘رہائشی عمارتیں اور قیمتی گاڑیاں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہ کابل ہے ‘ پاکستان میںجس کے بارے کوئی اچھی خبرسننے کو نہیں ملتی۔ائر پورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے جابجا سیکورٹی کے حصار نظر آئے۔ خاص کربڑے ہوٹلوںاورسرکاری عمارتوںمیںحفاظتی اقدامات کا غیر ضروری حد تک خیال کیا جاتاہے، جس سے الجھن ہوتی ہے‘اس کے باوجود اسے خوشدلی سے قبول کیا جاتاہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں افغانستان کے بارے میں 80فیصد خبروں اور تبصروں کا مرکزی خیال سکیورٹی ہے۔اس پس منظر میں یہ تصور بھی محال ہے کہ کابل میںمعمول کی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ کابل نے غیر معمولی طور پر تیزی سے ترقی کی اور شہر میں پھیلائو بھی آیا۔شاندار انفراسڑکچر قائم ہوا۔ کہا جاتاہے کہ افغانستان میں جاری جنگ میں ایک ہزارارب ڈالر کی خطیر رقم خر چ کی گئی۔ اس رقم کا بڑا حصہ کابل میں خرچ ہوا۔ملک کے دیگر شہروں اور قصبات سے لوگ تحفظ ‘روزگار اور تعلیم کی سہولتوں سے مستفید ہونے کی خاطر کابل کا رخ کرتے ہیں۔ طالبان حکومت کے زمانے میں کابل میں پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگ نہیں بستے تھے۔آج شہر کی آبادی پچاس لاکھ سے تجاوز کرچکی اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔ امریکی اور نیٹو فورسز کی آمد سے کاروبار اور روزگار کے غیرروایتی مواقع بھی پیدا ہوئے۔ تعلیم یافتہ اور فنی مہارت رکھنے والے افراد کے وارے نیارے ہوگئے۔پاکستان میں زیر تعلیم نوجوان دھڑادھڑ کابل پہنچے اور اچھے عہدوں پر فائز ہوئے یا اپناکاروبار شروع کیا۔بیرون ملک آباد افغانوں نے بھی اپنے ملک کی تعمیر نو میں حصہ ڈالنے کی خاطر کابل کا رخ کیا۔پارلیمنٹ کے انتخابات کی بدولت کابل ملک کی سیاسی سرگرمیوںکا محور بھی ہے۔ہربڑی جماعت یا گروہ کے رہنمائوں کے دفاتر ہیں۔بہت سار وں کے مستقل ٹھکانے ہیں۔ غیر ملکی‘افغان نژاد یورپی یا امریکی‘مقامی سیاسست کاراور تاجروں سمیت لاکھوں لوگوں نے کابل کو نئی سماجی اور سیاسی زندگی عطا کی۔ حالیہ برسوں میںنوجوان نسل کے لیے امکانات کی ایک دنیا وا ہوئی۔شہرمیں سرکاری وسائل سے چلنے والی کابل یونیورسٹی اورکالجز کے علاوہ ہ چھ پرائیویٹ یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔اعلیٰ معیار کی کتب اور اساتذہ کی موجودگی شائقینِ علم کی پیاس بجھا رہی ہے۔عورتوں کے لیے بھی تعلیم اور روزگار کے مواقع بہت ہیں ۔ افغان پارلیمنٹ میں 249ارکان میں سے 68 خواتین ہیں۔ دنیا کی کسی بھی پارلیمنٹ میں عورتوں کی اتنی تعداد نہیں۔اگرچہ کلچرل پابندیوں کے باعث وہ زیادہ نمایاں نظر نہیں آتیں ‘لیکن بتدریج منظرعام پر آ رہی ہیں۔ صدر حامد کرزئی کی اہلیہ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔وہ کابل کی سماجی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ نہیں لیتیں۔ کابل سٹار ہوٹل ‘جہاں ہم ٹھہر ے ہیں‘ایک مہنگا اور مشہور ہوٹل ہے۔بعد میں معلوم ہوا کہ جس خاتون نے استقبالیہ پر ہماری مدد کی تھی وہ ہوٹل کی ملازمہ نہیں‘ مالکن ہے۔ ذرائع ابلاغ میں آنے والا پھیلائو بھی حیرت انگیز ہے۔پچاس سے زائد ٹی وی چینلز‘ایک سو پچاس سے اوپر ریڈیو اسٹیشنزاور سو کے قریب روزنامے چھپتے ہیں۔ہزاروں نوجوان ان اداروں میں کام کرتے ہیں۔ان اداروں کو قائم کرنے کے لیے عالمی امدادی اداروں نے کافی مدد کی ۔ ایران‘بھارت اور پاکستان بھی ذرائع ابلاغ کے کئی ایک اداروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔یہ ادارے ان ممالک کے نقطہ نظر کی ترویج بھی کرتے ہیں ۔مقامی صحافیوں نے بتایا کہ گزشتہ گیارہ برسوں میں افغان میڈیا کافی طاقت ور ہوگیا ہے۔ سیاسی اورجمہوری نظام ‘انسانی حقوق‘شفافیت ‘موثر اور اچھی حکمرانی جیسے ایشوز کی حمایت کرتاہے۔سیاستدان میڈیا سے خائف رہتے ہیں‘تاہم وہ اس کے خلاف نہیں۔اس کے برعکس وارلارڈز‘طالبان اور دیگر شدت پسند گروہ آزادصحافیوں کو پسند نہیں کرتے۔گزشتہ بارہ برسوں میں ہرسال تین صحافیوں کو قتل کیا گیا۔اس کے باوجود افغان صحافی جرأت اور حوصلے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں کی بہتات ہے۔ہزاروں نوجوان این جی اوز میں شامل ہو گئے ۔ اس دوران نوجوانوں کی استعداد کار بھی بڑھی اور انہیں عالمی اداروں کے نیٹ ورک سے مربوط ہونے کا موقع ملا۔وہ افغان سوسائٹی کی قدمت پسندانہ جہت کو تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان تنظیموں میں زیادہ ترتاجک ‘ہزارہ اورازبک کا غلبہ ہے کیونکہ وہ تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی پر مہارت رکھتے ہیں۔ سکیورٹی کی وجہ سے این جی اوززیادہ تر غیر پشتون علاقوں میں کام کرتی ہیں۔ کابل میں بہت سارے پشتون نوجوانوں اور تجزیہ کاروں کے ساتھ گفتگو کا موقع بھی ملا۔ان کا نقطہ نظر تھا کہ افغان معاشرے کی ساخت ہی بدل چکی ہے۔وہ دن گئے جب لوگوں نے طالبان کو قبول کیا تھا۔اس وقت وہ مجاہدین کی باہمی لڑائیوں سے عاجز آچکے تھے۔اب افغانوں نے آزادی کامزا چکھ لیا ہے۔وہ طالبان کو واپس لانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔معاشرے میں ان کے لیے قبولیت نہیں پائی جاتی۔طلوع ٹی وی کے ایک اینکر نے بتایا: پشتون شہروں میں بھی طالبان کی حمایت میں نمایاں کمی آچکی ہے۔کابل میں کوئی ان کا نام سننے کو تیار نہیں۔ گزشتہ بارہ برسوں میں اربوں ڈالر کے سرمائے سے اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے ‘ہسپتال اور سڑکیں بنائی گئیں۔ چونکہ پشتون علاقوں میں جنگ جاری ہے۔ اس لیے وہاں کے نوجوان اعلیٰ تعلیم سے محروم رہے گئے۔عام شہری جب کابل یا تاجکوں ‘ہزارہ اور ازبکوں کے علاقوں میں جاتے ہیں تو ان کی ترقی دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں۔انہیں احساس ہوتاہے کہ جنگ کی وجہ سے ان کے علاقے پسماندہ رہ گئے ہیں۔ کابل میں کئی ایک سیاسی اور سماجی گروہ طالبان کا خوف برقرار رکھنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیںتاکہ مغربی ممالک کی افواج کا انخلاء نہ ہو۔وہ جانتے ہیں کہ موجودہ سرکاری اور غیر سرکاری انفراسڑکچر کو جب تک ڈالر کی آکسیجن ملتی رہے گی‘ وہ قائم رہے گا ۔اس لیے وہ طالبان کی قوت کا ہَوّا کھڑا کیے رکھنا چاہتے ہیں۔صدر حامد کرزئی نے اتحادی فورسز کو حکم دیا کہ وہ وردگ خالی کریں تو مغربی اور مقامی میڈیا میں ایسی خبریں اور تبصرے چھپوائے گئے کہ طالبان وردگ پر قبضہ کرلیں گے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ امریکی ا فواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں امن برقرار نہیں رکھا جاسکے گا۔نیٹو کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے بتایا کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے مقامی فورسز اور پولیس نے انتظام سنبھال رکھا ہے ۔ان کی استعداد کار میں نمایاں اضافہ ہوچکاہے۔انخلاء کے باوجود انہیں نیٹو اور امریکا کی مالی امداد دستیاب رہے گی۔علاوہ ازیںافغان فوج اور پولیس کی مدد کے لیے امریکی افواج کا ایک مختصر جتھہ بھی موجود رہے گا۔ ان یقین دہانیوں کے باوجود غالب خیال یہ ہے کہ طالبان اور ان کے حامیوں کی یلغار کے آگے بندھ باندھنا دشوار کام ہے۔ان حالات میں جب امریکا اور یورپ کی مالی امداد بھی میسر نہ ہو۔ ایک اَن دیکھا خوف ہے کہ مقامی فوج‘ پولیس اور سیاستدان شدت پسندوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ کابل میں رجائیت اور مایوسی ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔لوگ پرامید بھی ہیں کہ امریکیوں کے نکلنے سے شدت پسندوں کے پاس مسلح کشمکش کا جواز ختم ہوجائے گا۔خائف ہیں کہ غیر ملکی امداد کے خاتمے کے بعد تین لاکھ سے زیادہ فوجی دستوں کو پالنے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے؟کہیں یہ عمارت اپنے ہی بوجھ تلے زمین بوس نہ جائے! ہر محفل میں بلاتکلف پاکستان کو افغانستان کی ناکامیوں اور نامرادیوں کا ذمہ دار قرار دیاجاتاہے۔اس موضوع پر اگلی نشست میں بات ہوگی۔