"IMC" (space) message & send to 7575

افسوسناک ناکامی

حیرت ہے کہ پاکستان کے چوٹی کے سیاستدانوںچودھری شجاعت حسین‘خورشید شاہ‘مہتاب عباسی‘ پرویز رشید‘سعد رفیق‘ یعقوب ناصر اور فاروق ایچ نائیک پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی نگران وزیراعظم کا فیصلہ نہیں کرسکی۔یہ وہ نام ہیں‘ جن کی ذہانت اور معاملہ فہمی کی بڑی دھوم ہے۔اب گیند ایک غیر سیاسی ادارے اور شخص چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کے کورٹ میںہے۔ میرے خیال میں ان کے بوجھ میں مسلسل اضافہ کیا جارہاہے۔ان سے غیر ضروری امیدیں باندھی جارہی ہیں۔وہ مسائل جن پر ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے مابین اتفاق رائے نہیں ہوسکا ۔ فخرالدین جی ابراہیم کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ وہ ان پر قومی سطح کا اتفاق رائے پیدا کردیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر چودھری نثار علی خان نے بے لچک موقف کیوں اختیار کیا؟انہوں نے اپنی ہی جماعت کے سینئررہنما اسحاق ڈار کو بیک چینل پر مذاکرات سے روک دیا۔اسحاق ڈار دھیمے مزاج کے ایک صلح جو شخص ہیں۔پیپلزپارٹی کی حکومت نے انہیں نگران وزیراعظم کے طور پر قبول کرنے کا عندیا دیا تھا لیکن مسلم لیگ نون نہیں مانی۔انہیں پارلیمانی کمیٹی تک میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ سعد رفیق کی طرح کے سخت گیر سیاستدان کو کمیٹی میں شامل کیا گیا۔چودھری نثار نے نگران وزیراعظم بنانے کی متفقہ کوششوں کو سبوتاژاور سیاستدانوں کو بے وقعت کیا۔انکا طرزِسیاست سمجھ سے بالاتر ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے یہ موضو ع زیربحث رہا کہ نگران وزیراعظم کیسے بنانا ہے۔ حکومت اور نون لیگ کے مابین مذاکرات بھی ہوتے رہے۔میڈیا میں بھی جم کر اس موضوع پر بحث ہوئی۔توقع کی جاتی تھی کہ سیاستدان ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے ۔ ذاتی انا اور گروہی جھگڑوں سے بالاتر ہوکر قومی مفادمیں فیصلے کریں گے۔ افسوس! یہ خواہش پوری نہ ہوئی۔ نگران وزیراعظم نے کرنا بھی کیا تھا ۔ان کا سکہ صرف اسلام آباد تک چلتا ہے۔صوبوں میں وزرائے اعلیٰ ‘چیف سیکرٹری اور پولیس کے سربراہ کا کردار فیصلہ کن ہوتاہے۔وہ جس امیدوار کی حمایت کرتے ہیں ‘اسے دوسروں پر برتری حاصل ہوجاتی ہے۔ماضی میں اسٹبلشمنٹ اپنے پروردہ گروہوں کی مدد کیا کرتی تھی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی پوری طرح غیر جانبدار ہیں۔ غالباً اسٹبلشمنٹ چاہتی تھی کہ عبوری سیٹ اپ بن سکے لیکن عوام کا موڈ دیکھ کر وہ پسپا ہوگئی۔ طویل عرصے بعد یہ تاثر زائل ہوا تھا کہ سیاستدان فوج سے بہتر حکومت چلا سکتے ہیں۔وہ قومی مفاد کے پیش نظر مشترکہ طور پر فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔نگران وزیراعظم کے تقرر کا جس طرح مذاق بنایا گیا اس نے سیاستدانوں کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ان کے بچگانہ فیصلے دیکھ کر یہ قیاس کرنا عبث کہ وہ ملک چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاستدانوں کو طعنہ دیا جاتارہاہے کہ وہ اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔جب کوئی چیلنج آتاہے وہ اس پر پورا انہیں اترتے۔ ساٹھ برس تک انہیں مطعون کیا جاتارہاحتیٰ کہ عوام کی نظر میں وہ بے وقعت ہوتے گئے۔ آج بھی ان کے تئیں رائے عامہ زیادہ مثبت جذبات نہیں رکھتی ۔پانچ برسوں کی حکومت میں وہ روزگار اور امن وامان کے مسائل حل نہیں کرسکے۔اگر چودھری نثار علی خان اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف مل جل کر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کرلیتے تو ملکی تاریخ میں سنہرے باب اور سیاستدانوں کی عزت میں اضافہ ہوتا۔اب لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو سیاستدان ایک چھوٹے سے معاملے پر اتفاق رائے نہیں پیدا کرسکے ‘وہ بڑاکارنامہ کیا سرانجام دیں گے؟ دوسری جانب سیاسی جماعتوں نے عین انتخابات کے قریب وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کا جمعہ بازار لگادیا ہے۔ نون لیگ میں دھڑادھڑ الیکشن جیتنے والوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کو چھوڑ کر ان کی ساری کی ساری ٹیم نون لیگ کا حصہ بن گئی ہے۔طار ق عظیم ‘ماروی میمن اور ھمایوں اختر تو پرویز مشرف کے نفس ناطقہ تھے۔اب وہ رائے ونڈ میں معتبر اور موثر ہیں۔سب کو معافی مل گئی ۔معلوم نہیں چودھری شجاعت اور پرویز الہٰی نے ایسا کیا گناہ کیا جو شریف برادران انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نواز شریف جو سعودی عرب سے واپسی کے بعد ایک عرصہ تک مثالیت پسند کے طور پر معروف رہے۔ اب روایتی سیاستدان بن چکے ہیں‘ جو انتخابات جیتنے کے لیے تمام حربے استعمال کرتاہے۔ پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا گراف تو اس کے برسراقتدار آنے کے ساتھ ہی گر نا شروع ہوگیاتھا ۔ پانچ سال کے اندر عوام کو روزگارتو دور کی بات‘ معمولی بنیادی ضرورتیںبھی نہیں پوری کی جاسکیں۔ الیکشن کے دنوں میں بجلی کا بحران عروج پر ہوگا۔گرمی اور حبس کے ماحول میں جب لوگ پولنگ اسٹیشن جائیں گے تو حکمرانوں کا ضرور احتساب کریں گے۔پیپلزپارٹی کا مسئلہ ہے کہ یہ آئینی ‘دستوری اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ وہ طویل المیعاد اوراہم قومی فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔جسے اس نے آئینی ترامیم کرکے ثابت کیا۔گوادر اور پاک ایران گیس پائپ لائن کا مشکل ترین فیصلہ کیا ‘لیکن یہ جماعت عام لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے۔وہ پیٹ کی آگ بجھانے اور شہریوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بناتی۔اگر بناتی ہے تو اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ الیکشن کمیشن پر کڑا وقت آن پڑاہے۔فخر الدین جی ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کو شفاف انتخابات کرانے کے لیے صوبائی حکومتوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی ۔خاص طور پر پولیس اور انتظامیہ کو لگام دینا ہوگی۔جو بالادست طبقات کی بے دام غلام ہے۔وہ آنے والے آقائوں کی مدد کے لیے ہر وقت دستیاب رہتے ہیں۔وہ وقت سے پہلے ہی اندازہ کرلیتے ہیں کہ مستقبل کا کیا منظر نامہ تشکیل پانے والا ہے۔سندھ اور خیبر پختون خوامیں انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پورا بندوبست کیاگیا ہے۔پنجاب میں انتظامیہ پر نون لیگ والوں کے گہرے اثرات ہیں۔اگر الیکشن کمیشن کڑی نگرانی رکھے اور مانیٹرنگ کا انتظام اچھا ہو تو قابل قبول اور شفاف انتخابات ممکن ہیں۔ایسے انتخابات جنہیں تمام اسٹیک ہولڈرز قبول کرلیں‘ مطلوب و مقصود ہیں۔ الیکشن کی شفافیت کسی بھی شک وشبہ سے بالاترہونی چاہیے۔اگر اس مرتبہ قابل قبول انتخابات ہوگئے تو پاکستان کی تاریخ بدل جائے گی اور آئندہ کوئی بھی طالع آزما جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اتارسکے گا۔اگرچہ سیاستدان بالخصوص پیپلزپارٹی اور نون لیگ نگران وزیراعظم کا مسئلہ طے نہیں کرسکے تو کم ازکم اب انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات نہ لگائے جائیں۔ اسٹبلشمنٹ کی بھی ذمہ داری ہے کہ شفاف انتخابات کرانے میں اپنا حصہ ڈالے۔ جنرل کیانی کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ عسکری قیادت کسی بھی سیاسی جماعت کی مخالف ہے اور نہ حامی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں