افغانستان اور پاکستان کے مابین تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی جنم لے چکی ہے۔افغان حکومت نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ مفاہمت کے عمل میں تعاون نہیں کررہا‘ وہ افغانستان میں جاری بدامنی کو برقرار رکھنا چاہتاہے۔ افغان نائب وزیرخارجہ جوادلودن نے کہا:افغانستان پاکستان کے بغیر طالبان سے مذاکرات کا خواہاں ہے۔ پاکستان جس طرح پیس پراسیس چلانا چاہتاہے وہ گزشتہ دس برسوں میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو ضائع کرادے گا۔جب بھی دونوں ممالک اتفاق رائے کے قریب پہنچتے ہیں پاکستان حکمت عملی بدل لیتا ہے۔ پاک افغان تعلقات میں موجودہ تنائو کا طویل پس منظر ہے لیکن حالیہ چند واقعات نے کشیدگی بڑھانے میں خصوصی کردار اداکیا ہے۔25اور 26مارچ کوافغان صوبے کنڑ سے پاکستانی علاقوں پر فائرنگ ہوئی جس کے جواب میں پاکستانی فوج نے توپوں سے جوابی حملہ کیا۔ اس کارروائی پرکرزئی حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور افغان فوج کے گیارہ رکنی وفد کادورۂ پاکستان منسوخ کردیا جو کوئٹہ سٹاف کالج میں ایک تربیتی مشق میں حصہ لینے کے لیے آرہاتھا۔ صدارتی ترجمان ایمل فیضی نے کہا :پاکستان نے طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت میں تعاون کے بدلے میں تین ناقابل قبول شرائط عائد کی ہیں: (1) پاکستان چاہتاہے کہ افغانستان اس کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ قائم کرے۔ (2)بھارت کے ساتھ تعلقات کا مکمل خاتمہ کرے۔ (3) افغان فورسز کی پاکستان میں تربیت کا اہتمام کرے۔فیضی کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے پاکستان سے اسٹریٹیجک شراکت دار ی کا معاہدہ کیا تو افغان عوام ہمیں پتھر ماریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ افغان عوام کو قتل کرنے والے خودکش حملہ آور پاکستان سے آتے ہیں۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی اور افغان حکومت کی طالبان سے مفاہمت کے عمل کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا لیکن افغانستان میں اس طرح کے بیانات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔گزشتہ چند ماہ میںپاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں نمایاں بہتری آئی تھی۔امریکا سمیت دنیا نے خوش دلی سے یہ تسلیم کیا تھا کہ پاکستان امریکی افوج کے انخلا ء اور مابعد کے عمل میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ پاکستانی اداروں اور شخصیات کا افغان رہنمائوں سے روابط کا پس منظر ہے اور ان میں سے کئی ایک کے خاندان کوئٹہ اور پشاور میں مقیم ہیں۔علاوہ ازیں امریکا اور مغربی ممالک کو یہ احساس بھی ہے کہ طالبان کرزئی حکومت پر اعتماد نہیں کرتے اور نہ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی موجودگی میں وہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔چنانچہ قطرکی طرح کے غیر جانبدار ممالک اور پاکستان کو سامنے لایا گیا تاکہ وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔جوابی طور پرپاکستان نے طالبان رہنمائوں کو رہا کیااور اپنی روائتی افغان پالیسی کے برعکس کرزئی حکومت کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔افغانستان کی دیگر جماعتوں سے بھی تعلقات کو بہتر بنایا تاکہ وہ کسی ایک گروہ کی حمایت کرتانظر نہ آئے اور امن عمل میں اس کا کردار قابل قبول ہو۔ کرزئی چاہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مفاہمت کا عمل جلداز جلد مکمل ہوتاکہ نیٹو افواج کے انخلا ء سے قبل ان کی پوزیشن مضبوط ہواور وہ بعد میں بھی موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔وہ اپنے آپ کو قوم پرست اور بہادر افغان رہنما کے طورپر پیش کررہے ہیں جو افغانستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی طاقت اور ملک سے ٹکرا سکتاہے اور جسے اپنا نہیں بلکہ ملک کا مفادعزیز ہے۔گزشتہ ماہ انہوں نے امریکیوں کی طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت پر کڑی نکتہ چینی کی۔انہیں بگرام ائر بیس خالی کرنے اور وردک صوبے سے نکلنے کا حکم دیا۔ پاکستان نے گزشتہ صدارتی انتخابات میں کرزئی کی بھرپور مدد کی تھی ۔اس وقت پاکستان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہ تھا لیکن گزشہ ایک سال میں پاکستان نے کامیابی سے تاجک اور ازبک رہنمائوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرلیے ہیں ۔پاکستان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے طالبان تاجک اور ازبک رہنمائوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں جو کرزئی انتظامیہ کو سخت ناگوار گزراہے۔ حالیہ دورۂ کابل کے دوران یہ احساس شدت سے ہوا کہ پاکستان کا نام سنتے ہی افغانستان کی حکومت اور اس سے وابستگان کا بلڈپریشر ہائی ہوجاتاہے۔افغان انتظامیہ بالخصوص سکیورٹی اداروں کی تربیت میں یہ بنیادی نکتہ شامل کیا گیا ہے کہ افغانستان کی سلامتی اور وحدت کو پاکستان سے خطرہ لاحق ہے۔جس طرح پاکستانی فورسز اور اداروں میں بھارت کی مخالفت راسخ ہوچکی ہے بالکل اسی طرح افغانوں میں یہ خیال پختہ ہوچکاہے کہ پاکستان افغانستان کی سلامتی اور ترقی سے خائف ہے اور وہ اسے باجگزار ریاست کے طور پر رکھناچاہتاہے‘لہٰذا اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ افغانستان کے ایک سینئر سیاستدان ڈاکٹر اشرف غنی نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز اسلام آباد کے تعاون سے کابل کا دورہ کرنے والے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا : اگر افغانستا ن میں امن قائم نہیں ہونے دیا جائے گا تو ہم جنگ کو افغان سرحدوں کے باہر جاکر لڑیں گے۔یہ محض کوئی گیدڑ بھبکی نہ تھی بلکہ عملاًایسا ہی ہوررہاہے ۔چند دن قبل سپریم کورٹ میں فوج اور خفیہ اداروں کی طرف سے جمع کرائی جانے والی ایک رپورٹ میں پہلی بار سرکاری سطح پر انکشاف کیا گیا کہ تحریک طالبان سوات کو افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔وہ افغان حکومت کی شہ پر افغانستان سے متصل علاقوں‘ مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، سوات ، دیر اور چترال میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے: اب تک افغانستان سے ہونے والے حملوں میں ایک سو کے لگ بھگ سپاہی اور شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔یہ لوگ افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستانی علاقوں پر مسلسل حملے کرتے ہیں۔ چند ہفتے پہلے افغان وزیر خارجہ زلمے رسول نے پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو تحریک طالبان کے کمانڈر مولوی فقیر حسین کی گرفتاری کی اطلاع دی۔پاکستان کو امید تھی کہ مولوی فقیر کو پاکستان کے حوالے کردیا جائے گا لیکن روائتی حیلے بہانے آڑے آتے گئے اور کابل حکومت نے موقف اختیار کیا کہ چونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ملزموں یا قیدیوں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں‘ اس لیے وہ مولوی فقیر کو پاکستان کے حوالے نہیںکرسکتے۔ افغانستان میں جاری جنگ نے ہماری ریاست کی چولیں ہلادی ہیں۔ فوج اور خفیہ اداروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک پندرہ ہزار پانچ سو سکیورٹی اہلکاروں سمیت انچاس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اگرچہ فوجی کارروائیوں میں تین ہزار سے زائد شدت پسند بھی مارے گئے لیکن اس کے باوجود ان کی ریاستی اداروں اور شہریوں کو ہدف بنانے کی صلاحیت میں نمایاں کمی نظر نہیں آتی۔ عموماً ہر جمعۃ المبارک کو خودکش حملہ ہوتاہے‘ خاص طورپر پشاور اور خیبر پختون خوا کے دوسرے علاقوں پر طالبان کی خصوصی نظر کرم رہتی ہے۔ پاکستان نے اچھا کیا کہ افغان حکام کے تندوتیز بیانات پر جواب الجواب کا سلسلہ شروع نہیں کیا۔یہ کسی کمزوری کی نہیں بلکہ خود اعتمادی کی دلیل ہے۔اخباری اور جارحانہ بیانات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہو جاتاہے۔ پاکستان کو ناراض اور کرخت لب ولہجے والے کرزئی کو برداشت کرنا ہوگا ۔بہت سی طاقتوں نے بھاری سرمایہ کاری سے پاکستان کو افغانستان کے دشمن ملک کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اس امیج کو بدلنا آسان نہیں۔ افغان‘ پاکستان کے ہر اقدام کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ا ن مشکلات کے باوجود پاکستان کو خلوص اور دیانت داری سے افغانستان میں امن کے لیے سرگرم کردار اداکرنا ہوگا ۔پرامن افغانستان ہی پاکستان میں امن کی ضمانت ہے۔ہمارا اپنا مفاد اسی میں ہے کہ طالبان اور صدر کرزئی کے درمیان مفاہمت ہوجائے تاکہ شدت پسندوں سے جان چھوٹ سکے۔