الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات میں ووٹنگ کاتناسب اٹھاسی فیصد سے تجاوز کرسکتاہے ۔ انتخابی فہرستوں کے مطابق لگ بھگ ایک تہائی ووٹرنوجوان ہیں۔علاوہ ازیں ملک کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے لہٰذا یہ اُمید بے جا بھی نہیں۔ان توقعات کے برعکس برٹش کونسل کے ایک حالیہ سروے میں اٹھارہ سے انتیس سال کی عمر کے پانچ ہزار نوجوانوں کی آرا جانی گئی۔ سروے میں شامل نوجوانوں میں سے 50 فیصد سے بھی کم نے کہا کہ وہ ووٹ ڈالیں گے۔ سروے کے مطابق جمہوری حکومت کے حق میں بولنے والوں کی تعداد صرف 13 فیصد ہے۔بہترین سیاسی نظام کے بارے میں پوچھے جانے پر سب سے زیادہ افراد نے شرعی نظام کے حق میں ووٹ دیا جبکہ فوجی نظام دوسرے اور جمہوریت تیسرے درجے پر رہی۔ نصف سے زیادہ نوجوانوں نے کہا: جمہوریت ان کے اور ملک کے لیے اچھی نہیں رہی ۔ یہ سروے نوجوانوں میں وسیع پیمانے پر پھیلی مایوسی کی عکاسی کرتاہے۔وہ موجودہ نظام سے زیادہ امیدیں نہیں رکھتے کہ وہ انہیں روزگار اور امن فراہم کرسکتاہے۔پوری انسانی زندگی میں روٹی اور امن کے قیام کی ضمانت دینے والے حکمرانوں کو شہریوںنے سرآنکھوں پر بٹھایا۔چین کی آباد ی ایک ارب تیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے ۔اتنی بڑی آبادی کے باوجود خط غربت سے نیچے محض آٹھ فیصد لوگ رہتے ہیں۔ دنیا کی امیر ترین شخصیات اور کاروباری اداروں میں بھی چین سرفہرست ہے۔جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے باوجود عام شہری مطمئن ہیں کیونکہ انہیں تحفظ اور روزگار دستیاب ہے۔برٹش کونسل کے سروے میں بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد نے حیران کن رائے دی کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ بے روزگاری ہے۔ سیاسی نظام اور جماعتوں پر عدم اعتماد اور مایوسی کا اظہار بڑے تسلسل سے ہورہاہے لیکن اس رجحان کا کسی بھی سطح پر باقاعدہ اور سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کیا گیا ‘روکنے کا ذکر ہی کیا۔ 1977ء میں 63فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 1988ء میں یہ شرح 43.1رہی۔2008ء میں ذرا سا اضافہ ہوا اور ووٹ ڈالنے کی شرح 43.65 تک رہی۔عالمی معیارات کے مطابق ووٹنگ کا یہ تناسب بڑا مایوس کن ہے۔بعض ممالک میں ووٹ نہ ڈالنے والوں کو سزا دی جاتی ہے یا جرمانہ کیا جاتاہے۔پاکستان میں ووٹ نہ ڈالنے پر قانونی طور پر سختی نہیں کی جاتی لیکن مختلف طریقوں سے کوشش کی جاتی رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ الیکشن میں شہریوں کی بھرپور شرکت یقینی بنانے کے لیے ووٹ ڈالنے کی عمر اٹھارہ سال کی گئی۔ دوسری جانب عمران خان کی تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کی قیادت بالخصوص میاں شہباز شریف اور مریم نواز نے نوجوانوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آٹھ ارب روپے کی لاگت سے ڈھائی لاکھ طلبہ وطالبات کو لیپ ٹاپ اور پچاس ہزارنوجوانوں کو انٹرن شپ دی گئی جو کہ پاکستا ن کی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اگرچہ یہ سرگرمی پنجاب حکومت کے وسائل سے کی گئی لیکن اس کا مقصد نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا اور انہیں سیاسی عمل کا فعال حصہ بنانا ہے۔پیپلزپارٹی بھی بلاول بھٹو زرداری کو سامنے لائی ۔انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے لب ولہجے میں چند ایک دلفریب تقریریں کیں لیکن پھر وہ منظر سے غائب ہوگئے۔تحریک انصاف کے ساتھ نوجوانوں نے بھاری امیدیں وابستہ کی ہیں۔لاہور کے جلسے میں ،میں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ نوجوانوں کے غول کے غول جلسہ گاہ میں داخل ہوئے‘ جیسے کہ یونیورسٹی میں چھٹی ہوگئی ہو۔ یہ اقدامات اپنی جگہ لیکن نوجوانوں میں مایوسی اور سیاسی عمل سے لاتعلقی کی ٹھوس وجوہات ہیں‘جن کا ازالہ کیے بنا انہیں سیاسی تبدیلی کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا ۔ہر سیاسی جماعت پر کسی نہ کسی خاندان کی اجارہ داری ہے۔عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا :تحریک انصاف میرے رشتے داروں کی نہیں ‘ اسی ہزارمنتخب نمائندوں کی جماعت ہے ۔ وہ کسی بھی رشتے دار کو پارٹی ٹکٹ میں مدد دینے کو تیار نہیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا خاندان ہی ان کے مدمقابل کھڑا ہوگیا۔ رشتے دار پارٹی پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ٹکٹ نہیں ملا تو دشنام طرازی پر اتر آئے۔ یہ حال صرف عمران خان کی جماعت کا ہی نہیں باقیوں کا حا ل اس سے بھی بدتر ہے۔ ایک سینئر صحافی نے لکھا ہے کہ شریف خاندان کے تیس افراد مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ معاشرے کا سب سے نظرانداز شدہ طبقہ خواتین کا ہے۔خواتین ووٹرز کی تعداد 3کروڑ 75لاکھ سے زائد ہے۔قومی اسمبلی میں 342میں سے 60 نشستیں خواتین کے لیے مختص کی گئیں ۔گزشتہ دو عام انتخابات کا جائزہ لیا جائے یا گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر دیئے جانے والے ٹکٹوں کا ۔ یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ عورتیں جو پانچ برس تک جماعت کے لیے کام کرتی رہی ہیں انہیں بڑی آسانی سے نظرانداز کرکے پارٹی رہنمائوں کی بیگمات‘بیٹیوں اور رشتے داروں کو ٹکٹ دیئے گئے۔ توقع تھی کہ پانچ برس بعد جب حکومت اپنی مدت پوری کرے گی تو عام لوگوں کا جمہوری نظام حکومت پر اعتماد مضبوط ہوگالیکن برٹش کونسل کا سروے یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ عام نوجوانوں میں جمہوری نظام پر اعتمادکم ہوا ہے۔نوجوانوں کے غصے کواگرکو ئی جماعت اپنے حق میں اور حکمران اشرافیہ کے خلاف استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئی تو وہ بڑی آسانی سے روایتی سیاسی برج الٹ سکتی ہے۔اس وقت کل آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ ووٹروں میں 18سے25 سال کے عمر کے ووٹروںکی تعداد 20 فی صد جبکہ 31سے40 عمر کے ووٹروں کی تعداد کل ووٹوں کا 23.58فی صد ہے۔ یعنی 43فیصد ووٹر چالیس برس سے کم عمر کے ہیں۔اگر روایتی سیاست کو مسترد کردیں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہ وقت ہے فیصلے کا نہ کہ مایوسی اور ہاتھ پر ہاتھ دھرکر بیٹھے رہنے کا۔ مایوسی کا شکار ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا وہی گلا سڑا نظام عوام پر مسلط رہے گا۔ ملک کو درست راہ پر گامزن کرنے کے لیے صحیح نمائندے منتخب کرنے کا یہ موقع ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت ملک میں تین کروڑ پچیس لاکھ انٹرنیٹ صارفین ہیں ۔موبائل کا استعمال اس بھی زیادہ ہے۔انٹرنیٹ اور موبائل دنیا بھر میں سیاسی اور سماجی تبدیلی کا موجب بن سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسی کا ادراک کرتے ہوئے میرٹ اور اصولوں کا کم ازکم علامتی حد تک ہی احترام کریں۔اپنے خاندان کو پس منظر میں رکھیں ۔ سیاسی جدوجہد میں قربانیاں دینے والوں کو سامنے لائیں تاکہ نوجوانوں کی سیاست سے بیزاری کم ہو۔