"IMC" (space) message & send to 7575

پیپلزپارٹی خاموش کیوں؟

پاکستان پیپلزپارٹی کو الیکشن مہم چلانے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحادکے حوالے سے تین طرح کے مسائل درپیش ہیں۔سکیورٹی کے خدشات کے باعث بڑے رہنما کُھل کر انتخابی مہم نہیں چلاسکتے ۔صدر خود کو سیاسی سرگرمیوں سے الگ کرچکے ہیں ۔ لاہور ہائی کورٹ نے انہیں ملکی صدارت یا جماعتی سرگرمیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا حکم دیا ہے۔وہ بطور صدر پاکستان اب پی پی پی کے جلسوں سے خطاب یا پارٹی کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے ملک گیر دورے نہیں کرسکتے۔ سکیورٹی کے مسائل کا یہ عالم ہے کہ پی پی پی کوچار اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کا پروگرام بھی مختصر کرنا پڑا۔ قمر زمان کائرہ کہتے ہیں :یہ میڈیا کا زمانہ ہے، ضروری نہیں بڑے جلسے کرکے ہی انتخابی مہم چلائی جائے۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ پی پی بڑے پیمانے کی انتخابی مہم چلانے کے موڈ میں نہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دوسابق وزرائے اعظم جناب راجہ پرویز اشرف اور سیّدیوسف رضا گیلانی انتخابی عمل سے باہر ہوچکے ہیں۔راجہ پرویز اشرف پر بدعنوانی بالخصوص کرائے کے بجلی گھروں کے حصول میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور بعدا زاں وزارت عظمیٰ کے دور میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔ان کے خلاف سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں کئی مقدمات زیرسماعت ہیں۔بعید نہیں کہ راجہ صاحب کو گجر خان سے الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے لیکن ان کا بہت سا وقت عدالتوں کے چکر میں ضائع ہورہا ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں پی پی پی کے پاس جوشیلے اور جیالے مقررین کی ایک بڑی موثر ٹیم تھی۔اب بُرے وقتوں کے ساتھی کھڈے لائن لگادیے گئے ہیں۔ سلمان تاثیر بھی نہیں رہے ۔بیرسٹراعتراز احسن سیاستدان کم تجزیہ کار زیادہ بن چکے ہیں۔وہ پی پی پی کے حامیوں کو متحرک کرنے اور انتخابی مہم میںگرماگرمی پیدا کرنے کے لیے دستیاب نہیں۔ پیپلزپارٹی کا تیسرا بڑامسئلہ پنجاب ہے، جہاںقاف لیگ اور گجرات کے چودھری برادران کے تعاون کے طفیل پیپلزپارٹی پانچ برس تک برسراقتداررہی ۔ اب یہ اتحاد شکست و ریخت کا شکار ہوچکا ہے۔ چودھری برادران کے پاس پی پی پی کا کوئی متبادل نہیں۔صدر آصف زرداری نے بڑی محنت سے چودھری شجاعت حسین اور ان کے خاندان کے ساتھ عشروں پر محیط تلخی کو دفن کیا تھالیکن اب چودھری آزردہ اور ناراض ہیں۔وہ رہیں گے تو پی پی کے ساتھ ہی لیکن اس اتحاد کا دونوں فریقوں کو فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ پنجاب میں موثراور فعال سیاسی قیادت کی عدم موجودگی تیسرا بڑا مسئلہ ہے۔پی پی نے میاں منظور احمد وٹو کو وسطی پنجاب کا صدر مقرر کرکے غلطی کی۔منظور وٹو قاف لیگ چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تھے۔کچھ برس قبل وہ چودھری برادران کے قریبی حلیف تھے ۔ پیپلزپارٹی اقتدار کے قریب ہوتی نظر آئی تو موصوف پی پی میں شامل ہوگئے۔تجربہ کار سیاستدان ہیں ۔انہیں اپنا راستہ بنانا خوب آتا ہے۔بتدریج صدر زرداری کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔ انہیںوسطی پنجاب کا صدر مقرر کرتے وقت صدر زرداری کے ذہن میں تھاکہ وہ پنجاب میں پی پی پی کو منظم کریں گے اور نئے گروپوں کو بھی شامل کریں گے بالخصوص نون لیگ کے لوگوں کوتوڑیں گے۔ اس کے برعکس منظور وٹو نے پی پی کی حلیف جماعت قاف لیگ پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔قاف لیگیوں کو پی پی میں شامل کرنا شروع ہوگئے۔چودھری برادران کو خدشہ تھاکہ اگر منظور وٹو کو روکا نہ گیا تو وہ پوری کی پوری قاف لیگ کو پیپلزپارٹی میں شامل کرادیں گے۔اگرچہ صدر زرداری نے انہیں قاف لیگ کے لوگوں کو پی پی میں شامل کر نے سے منع کیا لیکن اس وقت تک پیپلزپارٹی اور قاف کے مابین تنائو پیدا ہو چکا تھا۔ اسی کشمکش میں پنجاب کے الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والی موثر سیاسی شخصیات دھڑادھڑنون لیگ میں شامل ہونا شرو ع ہوگئیں۔درجنوں کے حساب سے بااثر افراد نون لیگ میں شامل ہوئے۔کئی ایک تحریک انصاف میں بھی چلے گئے جبکہ پیپلزپارٹی کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔انہیں لاہور جیسے شہر سے معقول امیدوار نہیں مل رہے جو انتخابات میں حصہ لیں‘ مقابلہ تو دُور کی بات ہے۔علاوہ ازیں گجرات جو کہ چودھری برادران کی راج دھانی ہے‘ وہاں چودھری احمد مختار بضد ہیں کہ وہ چودھریوں کے مقابلے میں الیکشن لڑیںگے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو کئی سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پیر صد ر الدین شاہ راشدی نے فنکشنل لیگ جیسی ڈرائنگ روم پارٹی کو ایک فعال اور سرگرم سیاسی جماعت میں بدل دیا ہے۔فنکشنل لیگ نے سندھ میں پی پی مخالف قوتوں کو اکٹھا کیا ہے ۔بڑے پیرصاحب پگاڑا کی نواز شریف سے نہیں بنتی تھی‘دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے لیکن پیر صدرالدین کی نواز شریف سے گاڑھی چھنتی ہے۔ کمپیوٹر کی زبان میں دونوں کلک کرگئے ۔دوسری جانب سندھ میں نواز شریف نے بڑی کامیابی سے سندھی قوم پرستوں کو اپنا ہم نوا بنا یا ہے۔یہ قوم پرست پی پی کے کٹر مخالف ہیں۔نواز شریف کے ساتھ ان کے اتحاد نے فنکشنل لیگ کو نئی قوت بخشی ہے ۔وہ سندھ میں اسے ووٹ دیں گے۔یہ کہنا مبالغہ ہوگا کہ سندھ پی پی کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔غالب امکان ہے کہ وہ الیکشن میں سندھ کی اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی۔اس کے باوجود اتنا پورے وثوق سے کہا جاسکتاہے کہ فنکشنل لیگ نے پی پی کے قلعہ میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ صدر کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کا بھی سامنا ہے۔انہوں نے تمام تر دبائو اور دھونس کے پاک ایران گیس منصوبے کا افتتاح کیا ۔گوادر پورٹ کو چینی کمپنی کے حوالے کیا۔یہ دونوں اقدامات بہت بڑے معاشی دھماکے ہیں جن پر ان کے پرانے گناہ معاف کیے جاسکتے ہیں۔ان کے مثبت اثرات اگلے چند برسوں میں سامنے آئیں گے ۔یوں اگلے انتخابات میں پی پی بلاول بھٹو کی قیادت میں اس قابل ہوگی کہ وہ لوگوں کو بتاسکے کہ ان کا چولہا پاک ایران گیس لائن منصوبے کی تکمیل کے سبب چل رہاہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی پی پی کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی پر ناخوش ہے۔اگرچہ ان کی مرضی کے وزیرخزانہ تعینات کیے جاتے رہے ہیں ۔اس کے باجوود وہ کوئی معجزہ نہ دکھا سکے۔ اسٹیبلشمنٹ کو خوف ہے کہ اگر معاشی حالات میں سدھا رنہ آیا تو نہ صرف دفاعی بجٹ پور ا کرنے کے لیے رقم نہیں ہوگی بلکہ اہم دفاعی منصوبوں پر بھی پیش رفت رک جائے گی۔اس لیے وہ پی پی کی کوئی سیاسی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی کی سیاسی حکمت عملی سے یہ اخذ کرنا بعید از قیاس نہیں کہ وہ گیارہ مئی کے انتخابات سے زیادہ توقعات وابستہ کیے ہوئے نہیں ہیں۔ صدر زرداری کے ذہن میں اگلا انتخاب ہے ۔اس وقت تک رائے عامہ پی پی کی کمزوریاں فراموش کرچکی ہوگی اور ان کی ناراضگی کا رخ حکمران جماعت کی جانب ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں