"IMC" (space) message & send to 7575

حاجی بلور کے آنسو

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور پولیس کے جوانوں اور پارٹی کارکنوں کو لحد میں اتارنے گئے تو شدت غم سے رو پڑے۔ تڑپتے کیسے نہ؟ چند ماہ قبل انہوں نے اپنے ہیرے جیسے بھائی بشیر احمد بلور کی جدائی کا صدمہ سہا۔ بلور خاندان پر حملوں کی دونوں مرتبہ طالبان نے ذمہ داری قبول کی۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اے این پی، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو نشانہ بنائے گی لہٰذا عوام ان کے جلسوں سے دور رہیں۔ عام انتخابات کے اعلان کے بعد سے اے این پی کے جلسوں پر سات حملے ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود حاجی بلور نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ تمام تر مشکلات کے باوصف سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے اور شدت پسندوں کا مقابلہ کریں گے۔ سیاسی نظریات سے وابستگی کی جتنی بھاری قیمت اے این پی نے چکائی اس کی کوئی نظیر ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اے این پی کے رہنمائوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے لیکن وہ شدت پسندوں کے خوف سے بھاگے نہ خائف ہوئے۔ اب بھی پورے قد سے میدان میں کھڑے ہیں۔ قاضی حسین احمد کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ طالبان نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے اسے امریکا کی کارستانی قرار دے کر اپنی جان چھڑائی۔ طالبان کا نام تک نہ لیا۔ بے چاری اے این پی کو تنہا خیبر پختون خوا میں شدت پسندوں کے مقابلے کے لیے میدان میں اتارا گیا۔ ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ گزشتہ بارہ برسوں میں وہ یہ صلاحیت تک پیدا نہیں کر سکے کہ قومی سطح کے رہنمائوں کو سکیورٹی ہی فراہم کر دیتے‘ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کامیاب آپریشن کرنے کی توقع تو دور کی بات ہے۔ ان بارہ برسوں میں پولیس کا نظا م سدھر سکا اور نہ خفیہ اداروں کو فعال اور موثر بنایا جا سکا بلکہ اس دوران ان کی کارکردگی کا معیار پہلے کے مقابلے میں گرا۔ بائیس سو کے قریب افراد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے نام پر پولیس کی حراست میں ہیں لیکن ان پر عدالتوں میں مقدمات نہیں چلائے جا رہے ہیں۔ چلائے بھی جائیں تو سنگین سے سنگین جرم میں دس یا بیس برس کی سزا سنائی جاتی ہے۔ مجرم چند برس بعد رہا ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں چالیس برس بسا اوقات پچاس برس کی سزا بھی سنائی جاتی ہے تا کہ جرائم پیشہ عناصر کو سخت پیغام د یا جا سکے۔یہاں صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے جو انتظامیہ کے غیرسنجیدہ طرز عمل کی عکاسی کرتی ہے۔ اسلام آباد اور پنجاب میں لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کس عذا ب سے گزر رہے ہیں ۔کوئی کہتا ہے کہ سیاستدانوں بالخصوس قومی قیادت کا پروٹوکول کم کرو تو خوب تالی بجتی ہے۔ یہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ کون سے رہنمائوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی قوت مسلم لیگ نون ہے۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اگلی حکومت بنانے جا رہی ہے۔ نون لیگ نے سو صفحات سے زائد پر مشتمل منشور جاری کیا۔ دہشت گردی کے حوالے سے ان کے منشور میں کیے گئے اظہار خیال کو دھیان سے پڑھا جائے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ شدت سے احسا س ہوتا ہے کہ مسلم لیگیوں کو ادراک ہی نہیں کہ پاکستان کو انتہاپسندوں کے ہاتھوں کس قدر بڑا چیلنج درپیش ہے یا پھر وہ اس موضوع پر کوئی ٹھوس حکمت عملی پیش ہی نہیں کرنا چاہتے۔ تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اُبھرتی ہوئی اور مقبول جماعت تصور کیا جاتا ہے۔ یہ جماعت بھی شدت پسندی کے موضوع پر خاموشی کی چادر تانے ہوئے ہے۔ پشاور کے سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حمایت کی لہر ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت سے مماثل ہے۔ کئی ایک اور آزاد جائزوں میں بھی بتایا گیا کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ عمران خان افغانستان میں امریکی فوجوںکی موجودگی کو پاکستان میں ہونے والے حملوں کا جواز بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں دم توڑ جائیں گی۔ اب امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان سمیت صدر حامد کرزئی کی حکومت طالبان کو مذاکرات کے ذریعے سیاسی عمل کا حصہ بننے کی دعوت رہی ہے۔ اس کے باوجود وہ تخریبی کارروائیوں سے باز نہیں آتے۔ مطلب واضح ہے کہ طالبان کا اصل مسئلہ صرف امریکا نہیں بلکہ ان کا سیاسی ایجنڈا ہے۔ وہ بزور قوت اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکیوں کی خطے میں موجودگی ان کے وجود کو جواز فراہم کرتی ہے اور طاقت بھی۔ وہ آسانی سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک ایسے ماحول میں خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کیسے امن بحال کر سکے گی؟ دوسری جانب یہ جماعت ٹکٹوں کی تقسیم پر شدید داخلی بحران سے دوچار ہے۔ان کے کچھ بہی خواہ جنہوں نے ہر فورم پر تحریک انصاف اور عمران خان کا دفاع کیا‘ کی تحریروں اور گفتگو سے متاثر ہو کر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کی صفوں میں شامل ہوئی‘ نہ صرف مایوس ہیں بلکہ حیرت و استعجاب کی تصویر ہیں۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ تحریک انصاف بھی روایتی سیاست کاروں کے ہاتھوں پامال ہو گی۔ یہ وقت ہے کہ عمران خان تحریک انصاف کے اندر پائے جانے والے مسائل کے حل کی سعی کریں نہ کہ ان پر اصرار۔ گزشتہ پانچ برس میں پیپلز پارٹی کی حکومت شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ کو عسکری قیادت پر چھوڑنے کے بعد خود داخلی سیاسی مسائل میں الجھی رہی۔ روزنامہ دنیا کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن رئوف کلاسرا نے کرپشن اور بدعنوانی کے ہوش ربا قصے سرکاری دستاویزات پر مبنی ثبوتوں کے ساتھ میڈیا میں پیش کیے۔ ان کی خبروں اور کالموں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ حکومت کی ترجیحات مال بنانے کے سوا کچھ نہ تھیں۔ بدقسمتی! رحمن ملک جیسے غیرسنجیدہ شخص کو وزیر داخلہ بنایا گیا جو متنازعہ بیان بازی کے ماہر ہیں لیکن ڈھنگ کا کوئی کام نہ کر سکے۔ انہوںنے پہلے ہی ہلے میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ بعدازاں انسداد دہشت گردی کے ادارہ نیکٹا کا قیام کئی برس تک محض اس لیے زیر التوا رہا کہ وزیر داخلہ چاہتے تھے کہ ان کا اس ادارے پرکنٹرول ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت، شخصیت یا ادارہ شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر ایک اپنی جان چھڑاتا ہے اوراپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشوروں پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کو درپیش سب سے بڑے چیلنج سے نبرد آزما ہونے میں مکمل طور پر غیرواضح ہیں۔ اگلی حکومت سے گزارش ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کا بطور وزیر داخلہ انتخاب کرے جو پوری تندہی کے ساتھ شدت پسندی کے خلاف چومکھی جنگ لڑ سکے۔ شہباز شریف کی طرح کا کوئی سیاستدان یہ ذمہ داری نبھا سکتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں