"IMC" (space) message & send to 7575

ا متحان

آج الیکشن کے ہنگام پیپلزپارٹی کو محترمہ بے نظیر کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔وہ مشکل ترین حالات میں بھی بہادری اور جرأت سے بروئے کار آتی تھیں۔ صدر زرداری کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے بڑی مہارت سے سیاسی دائو پیچ کھیلے اور اپنے حریفوں کو چاروں شانے چت کیا۔پانچ سال کی مدت پوری کی لیکن یہ حقیقت ہے کہ صدر زرداری کا شمار ملک کے مقبول رہنمائوں میں نہیں ہوتا۔انہیں خود بھی اس کا بخوبی احساس ہے ۔ اسی لیے وہ بھٹو خاندا ن کے ورثے اور روایت کو زندہ رکھنے کے لیے بلاول بھٹو کو سامنے لائے ۔اگرچہ بلاول کوچۂ سیاست میں نووارد ہیں اور سیاسی حرکیات سے زیادہ آشنا نہیں لیکن و ہ حلقہ یاراں میں ایک پُر جوش انسان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔پارٹی کے سینئر رہنمائوں سے احترام سے پیش آتے ہیں۔بے نظیر بھٹو کے ساتھیوں ہی سے نہیں بلکہ انہوں نے ناہید خان تک سے راہ ورسم برقراررکھی۔انہیں پارٹی میں واپس لینے کی کوشش کی گئی تو کئی ایک سٹیک ہولڈرز آڑے آگئے ۔ صدرزرداری کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور گزشتہ کئی برس سے ان کے ہمرکاب ہیں۔ سیاست کے نشیب وفراز کو قریب سے دیکھا ہے۔ جیل میں زرداری صاحب کی ڈھارس بندھاتی رہیں۔ وہ وکیلوں سے صلاح مشورہ کرتیں۔ بے نظیر بھٹو اور ان کے زیرِ حراست شوہر کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتیں۔ گاہے درگاہوں پر حاضری دیتیں، منتیں مانتیں۔بڑے اہتمام سے نجومیوں سے ملاقاتیں کرتیں اور ستاروں کی گردش کا احوال جانتیں۔بھائی کی رہائی کے لیے کون سا درواز ہ ہے جو انہوں نے نہیں کھٹکھٹایا۔ 2002ء میںنواب شاہ سے مقامی حکومت کے انتخابات میں حصہ لیا ۔ شہرکی نظامت سنبھالی۔بے نظیر کی شہادت کے بعد انہی کی نشست پر گڑھی خدا بخش سے الیکشن لڑکر اسمبلی میں پہنچیں اوران کے بچوں کی نگران مقرر ہوئیں۔پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو پرویز مشرف کی رخصتی کا ڈنکا بجا۔اسٹیبلشمنٹ صدر زرداری سے خائف تھی ۔چاہتی تھی کہ کوئی اور صدر بن جائے۔وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ2009ء میں صدر زرداری نے امریکی سفیر این پیٹرسن سے کہا : اگر انہیں کچھ ہوگیا تو بلاول بھٹو فریال تالپور کو صدر نامزد کریں گے۔ .وکی لیکس کے مطابق صدر زرداری کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق رہاہے۔انہوں نے متعدد مرتبہ امریکی اور برطانوی عہدے داروں سے اس خطرہ کا ذکر بھی کیا۔وکی لیکس میں فریال تالپور کا نام آیا تو مقتدر حلقوں اور سیاسی جغادریوں کو دوٹوک پیغام ملا کہ وہ صدر زرداری کے نزدیک قابل بھروسہ شخصیت ہی نہیں بلکہ پارٹی کی اہم رہنما بھی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے پُراسرار قتل کے بعد صدر زرداری کی نجی اور سیاسی زندگی میں فریال تالپور کا کردار غیرمعمولی طور پر بڑھا۔انہیں زرداری ہائوس اسلام آباد کا انچارج مقرر کیا گیاجو پارٹی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتاہے۔پارٹی کے سینئر رہنماخورشید شاہ سے آزادکشمیر کے معاملات لے کر فریال تالپور کے حوالے کیے گئے۔گلگت بلتستان کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو اُنہی کو اس مہم کا نگران مقرر کیا گیا۔انہوں نے سول انتظامیہ کی مدد سے یہ انتخاب بڑی آسانی سے جیت لیا۔بعد ازاں آزادکشمیر کے انتخابات ہوئے جہاں اُن کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔انہوں نے میڈیا کی چکاچوند سے دُور رہ کر آزادکشمیر میں پیپلزپارٹی کی بھر پور مدد کی۔بیرسڑسلطان محمود چودھری جیسے بااثر سیاستدان کو دوبارہ پارٹی میں لایا ہی نہیں گیا بلکہ انہیں انتخابی مہم کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا۔دوسری جانب مسلم کانفرنس ٹوٹ گئی ۔ اس کا ایک غالب حصہ مسلم لیگ نون سے جاملا۔فریال تالپور کو آزادکشمیر میں انتخابات میں کامیابی کا کریڈٹ دیاگیا ۔ پی پی کے اندورنی حلقوں میں وہ ایک ماہر سیاست کار کے طور پر اُبھریں۔ سندھ حکومت کے معاملات میں بھی فریال تالپور کا بڑا اہم کردار رہا۔ انہوں نے اندرون سندھ کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ کہا جاتا ہے کہ قائم علی شاہ ایک غیر فعال اور نمائشی وزیراعلیٰ تھے ،اصل اختیارات فریال تالپور کے پاس تھے۔یہ بھی سننے میں آیا کہ خورشید شاہ ،مخدوم امین فہیم اور پیر مظہر الحق جیسے پی پی کے تجربہ کار رہنمائوں کی فریال تالپور کے سامنے ایک نہیں چلتی تھی۔کئی افراد خاموشی سے پچھلی صفوں میں براجمان ہوگئے یا کردیئے گئے۔صدر زرداری نے فریال تالپور کی منشا کے بغیر میاں منظور احمد وٹو کو وسطی پنجاب کا صدر مقرر کیا لیکن وہ کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔آزادکشمیر کے معاملات میں بھی منظور وٹو اور فریال تالپور کی نہیں بنی بلکہ کشیدگی کی بازگشت عام تھی۔ سندھ ہو یا آزادکشمیر پی پی اچھی حکومت فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ چاروں جانب ایک جیسا ماحول بپا رہا۔شنید ہے کہ سندھ اور آزادکشمیر سے خوب مال بنایاگیا۔کرپشن کے کئی سکینڈل سامنے آئے ، جن کی آزادانہ تحقیق ہوئی نہ ان کی تردید مناسب سمجھی گئی۔ صدر زرداری امید کرتے ہیں کہ فریال تالپور اپنے حالیہ کامیاب سیاسی تجربات کی روشنی میں ملک بھر میں الیکشن مہم چلائیں گی۔اس وقت وہ عملاً پارٹی کی سربراہ ہیںلیکن کوئی معجزہ دکھانے کی پوزیشن میں نہیں۔پنجاب میں پیپلزپارٹی کا خیمہ ویران نظر آتا ہے۔راولپنڈی جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں ،وہاں پی پی کو انتخابات میں کھڑا کرنے کے لیے ڈھنگ کے امیدوار دستیاب نہیں ۔پاکستان بیت المال کے سابق سربراہ زمرد خان نے الیکشن لڑنے سے معذرت کر دی۔انہیں ایوان صدر بلا کر ڈانٹ پلائی گئی پھر جاکر انہوں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے۔ وہ بھلے آدمی ہیں ۔ انہوں نے بیت المال کے سربراہ کے طور پر ضرورت مندوں کی مقدور بھر خدمت کی۔راولپنڈی شہر کے صدر عامرفریدپراچہ انتخاب لڑنے سے بھاگ گئے۔وسطی پنجاب کی کئی نشستیں ہیںجہاں پی پی کی کامیابی کے امکانات کم ہیں حتیٰ کہ قمر زمان کائرہ ، منظور وٹو اور نذر محمد گوندل کے حلقوں میں بھی کانٹے دار مقابلے کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ جس تیزی سے پنجاب میں پیپلزپارٹی تحلیل ہوئی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاتھا۔ ایک نجی محفل میںصدر زرداری نے وزرا سے کہا کہ تم نے اپنی قبر خود کھودی ہے، کارکنوں کا خیال رکھانہ تنظیم کو مضبوط بنایا ،اب میں کیسے انہیں متحرک کروں، کارکن رنجیدہ ہیں کہ انہیں پانچ برسوں تک درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا،اب الیکشن مہم چلانے کی بے معنی درخواستیں کی جارہی ہیں۔ فریال تالپور شعلہ بیان مقرر نہیں جو ہجوم کو گرما اور روح کو تڑپا سکیں ؛ تاہم وہ ایک اچھی منتظم ضرور ہیں جو ریاستی مشینری کے استعمال سے نتائج پیدا کرتی رہی ہیں۔ اب ریاستی وسائل اور انتظامیہ کی بیساکھیاں دستیاب نہیں ،کارکن نارا ض ہیں اور عوام میں پارٹی کے لیے جوش وخروش نہیں۔اتحادی داغ مفارقت دینے کو بے تاب ہیں ۔ ایسا نظر آتاہے کہ صدر زرداری بلاول بھٹو کو اگلے انتخابات کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ فریال کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ وہ اس دوران مورچے پر ڈٹی رہیں تاکہ میدان خالی نہ رہے۔یہ انتخابات فریال کے سیاسی مستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں