اکتوبر 1999ء میں پرویز مشرف کو اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی دو ہفتے ہی ہوئے تھے کہ میں تین ماہ کے لیے برطانیہ سدھار گیا۔ برمنگھم میں شہر کے عین قلب میں ایک عظیم الشان لائبریری استادہ ہے۔ فارغ اوقات میں جا کر انٹرنیٹ پر پاکستانی اخبارات کا مطالعہ کرتا۔ لائبریری کی ہر منزل پر ایک گھنٹے تک فری انٹرنیٹ اور مفت پرنٹ لینے کی اجازت تھی جو کسی نعمت سے کم نہ تھی کیونکہ ان دنوں انٹرنیٹ کی سہولت عام نہ تھی۔ چائے اور کافی بھی مل جاتی تھی۔ ایک دن کافی لینے گیا تو وہاں ایک ڈھلتی عمر کا انگریز بھی لمبی قطار میں کھڑا تھا۔ روز ایک دوسرے کو دیکھتے تھے اور مسکراتے لیکن پہلی بار باتیںکرنے کا موقع ملا۔ رسمی تعارفی جملوں کے بعد اس نے جھٹ سے پاکستان بارے گفتگو شروع کر دی۔ کہنے لگا: تمہارے ملک میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ لوگوں نے احتجاج کیوں نہیں کیا اور ایک آمر کو خوش دلی سے کیوں قبول کر لیا گیا؟ مجھے اس کا سوال ہی عجیب لگا۔ عرض کیا کہ ہم نے شکرانے کے نوافل پڑھے ہیں کہ ایک نااہل اور بدعنوان حکومت سے جان چھوٹی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جان کا منہ بن گیا جیسے حکومت نواز شریف کی نہیں بلکہ اس کی چھنی گئی ہو۔ سکستہ سا چھا گیا۔ گرم جوشی اور دوستانہ ماحول بدل گیا۔ پوچھنے لگا کہ تم لوگ کیوں ایسا سوچتے ہو؟ میں نے جوابی طور پر ایک طویل کہانی بیان کی کہ جناب جب بارہ اکتوبر کو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اسلام آباد کی میلوڈی مارکیٹ میں مٹھائی تقسیم ہوئی۔ یہ مارکیٹ وزیراعظم ہائوس سے تین کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے ذاتی طور پر کوئی صدمہ نہ ہوا بلکہ دوسرے شہریوں کی طرح میں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ میں نے جوش و خروش کے ساتھ کہا: نواز شریف کا دورِ حکومت کوئی آئیڈیل نہ تھا۔ انہوں نے دوتہائی اکثریت کا ناروا استعمال کیا۔ وہ ایک مہم جو مغل شہزادے کی طرح ہوا کے گھوڑے پر سوار تمام اداروں کو روندتے رہے۔ انہوں نے سب سے پہلے سپریم کورٹ پر یلغار کی۔ ججوں کو خریدا اور بالآخر منصف اعلیٰ سجاد علی شاہ کو بڑے بھونڈے طریقے سے رخصت کیا گیا۔ سپہ سالار جنرل (ر) جہانگیر کرامت نے نیشنل سکیورٹی کونسل کی تجویز پیش کی تو انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ اہم سرکاری عہدے دوستوں اور پارٹی کے ہمدردوں میں بانٹ دیئے۔ جان مارک انہماک سے میری باتیں سنتا رہا۔ اس نے بتایا کہ وہ لیبر پارٹی کا انسانی حقوق کا مشیر رہا ہے اور اب برمنگھم یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھاتا ہے، جہاں پاکستانی نژاد طلبا و طالبات کی کافی تعداد زیرِ تعلیم ہے۔ اور یہ کہ وہ کئی مرتبہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کا مطالعاتی دورہ بھی کر چکا ہے۔ اس نے بلاتکلف کہا کہ تم کوئی نئی بات نہیں کر رہے ہو‘ ایسے ہی دلائل میں بنگلہ دیش میں سنتا رہا ہے جہاں جنرل حسین محمد ارشاد نے مارشل لا کا نفاذ کیا تھا۔ کہنے لگا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے چند ماہ بعد لاہور گیا تھا۔ وہاں کی جامعات میں اساتذہ اور طلبہ بھی جمہوریت کی ناکامی کا رونا روتے اور فوجی آمریت کی حمایت میں استدلال کرتے تھے۔ جان نے میر ی انا کو سخت ٹھیس پہنچائی۔ میں نے ترنت جواب دیا کہ تمام تر ذہانت کے باوجود گورے محقق اور سیاستدان جنوبی ایشیائی لوگوں کے سماجی رویّوں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ جو کچھ آپ کے ہاں غیر اہم ہے وہ ہمارے ہاں بسااوقات مقدس آدرش ہوتا ہے۔ کشمیر ہی کی مثال لے لیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے ساتھ لوگوں کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ ان گنت کشمیری خاندانوں نے اپنے جگر گوشے کشمیر کی تحریک کی نذر کر دیئے۔ نواز شریف نے لوگوں کے جذبات کے علی الرغم کشمیر پر بھارت کے ساتھ نام و پیا م شروع کیا۔ وزارت خارجہ اور عسکری اداروں کو باہر رکھ کر سابق سفارت کار نیاز اے نائیک کے ذریعے بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنا شروع کیے۔ بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور تشریف لائے جو ایک تاریخی واقعہ تھا لیکن سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لیا گیا جس سے بدمزگی پیدا ہوئی۔ پرویز مشرف نے کارگل میں ناکام مہم جوئی کی۔ نواز شریف انہیں بچانے امریکا تشریف لے گئے۔ قوم کو اعتماد میں نہیں لیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب وہ پرویز مشرف کو نوکری سے نکال سکتے تھے کہ انہوں نے حکومت کی اجازت کے بغیر کارگل پر چڑھائی کی تھی لیکن وہ مصلحتاً خاموش رہے۔ بعدازاں مشرف اور ان کے حواریوں نے یکطرفہ پروپیگنڈے سے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ جیسے نواز شریف نے جیتی ہوئی بازی مذاکرات کے میز پر ہار دی۔ جان نے میری باتیں تحمل سے سنیں اور پیشکش کی ایک ایک کپ کافی مزید نوش کی جائے۔ اُس نے پوچھا: تم جمہوریت پر یقین رکھتے ہو؟ عرض کیا کہ سو فیصد۔ جان نے بڑے تحمل سے کہا: اگر لوگوں نے پالیسی امور میں فیصلہ کرنے کا اختیار وزیر اعظم اور کابینہ کو دیا ہے تو انہیں فیصلے کرنے دو بھائی۔ فیصلوں سے اختلاف ہے تو پارلیمنٹ میں بحث کرو۔ پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو مظاہرے کرو، جلوس نکالو۔ تحریک اعتماد لا کر حکومت کو چلتا کرو۔ جیل بھرو تحریک شروع کرو۔ لاکھوں لوگوں سے دستخط کرا کر یادداشت پیش کرو۔ اس کے باوجود حکومت پالیسی تبدیل نہیں کرتی تو پہیہ جام ہڑتال کرو۔ حکومت گھٹنے ٹیک دے گی۔ یہ سب نہیں کر سکتے تو اگلے انتخابات کا انتظار کرو۔ لوگ خود ہی اچھے بُرے کا فیصلہ کر دیں گے۔ مجھے جان کی باتیں بڑی احمقانہ لگیں۔ میں نے اسے باور کرایا کہ ہمارے پڑوس میں ایک طاقت ور ہمسایہ رہتا ہے جو ہردم ہماری سلامتی کے درپے رہتا ہے۔ دوسر ی جانب افغانستان میں زبردست عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں وہاں اس طرح کی کتابی باتوں کی گنجائش نہیں۔ ہمیں طاقت ور مرکز چاہیے۔ ایک ایسا حکمران جو ملک پر پوری قوت کے ساتھ حکومت کر سکے اور شفاف طرز حکومت قائم کر سکے۔ جان نے کہا: مجھے تمہاری باتوں سے اتفاق ہے لیکن دیکھو برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی انتخابات کرائے حالانکہ اس وقت الیکشن نہ کرانے کے سو بہانے دستیاب تھے۔ دیرپا سیاسی استحکام جمہوری عمل کے تسلسل سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سیاستدانوں کی لوٹ مار صرف اداروں کو مضبوط کرنے سے روکی جا سکتی ہے۔ جان نے کہا کہ کوئی شاٹ کٹ نہیں۔ اس نے بتایا کہ یورپ میں بھی کبھی راتوں رات موثر اور اچھی حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ سیاست بھی معاشروں کی طرح ارتقا کرتی ہے۔ وقت لیتی ہے اور لوگ تجربات سے سیکھتے ہیں۔ آپ یہ عمل ہی روک لیتے ہو اور امید کرتے ہو کہ جمہوریت اور سیاستدان بالغ نظر نہیں ہوتے۔ گفتگو تما م ہوئی اور ہم دونوں اپنی اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ یک دم جان پلٹ آیا اور کہا: ایک دن پاکستانی پچھتائیں گے کہ انہوں نے ایک آمر کا ساتھ دیا اور منتخب وزیر اعظم کی معزولی پر جشن منایا۔ جان کی باتیں سن کر میرا شک یقین میں بدل گیا کہ مغربی حکومتیں ہی نہیں بلکہ دانشور بھی پاکستان کو ایک مضبوط ملک نہیں دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ بدعنوان اور نااہل سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان ترقی نہ کر سکے۔ جان مجھے یہودی ایجنٹ لگا جو چن چن کر پاکستانیوں کی ذہن سازی کرتا ہے۔ آج جان کی باتیں یاد آتی ہیں۔ کاش میرے پاس اس کا ای میل ہوتا تو ستائش کا ایک پیغام چھوڑتا۔ اسے بتاتا کہ تمہاری باتیں حروف بحرف درست ثابت ہوئی ہیں۔ انسان دوسروں کے تجربات سے نہیں بلکہ خود غلطیوں سے سیکھتا ہے۔ قوم خوش ہے کہ چھ عشروں بعد آخر احتساب کا کوڑا برسا تو سہی۔