برما کے درویوار پر جلی حروف سے لکھا ہے:یہ ہماری نسل ہیں نہ ہمار اخون،نہ ہمارے بچے۔ بنگالی کالوں کو اپنے ملک سے باہر نکالو۔رکشوں اور گاڑیوں پر سٹکرز چسپاں ہیں: مسلمان کا وجود ہمارے ملک کی سلامتی اور وحدت کے لیے خطرہ ہے لہٰذا انہیں برما چھوڑنا ہوگا یا پھر موت کے لیے تیار رہنا ہوگا۔دکھ اس بات کا ہے کہ یہ پیغام دنیا کے ایک مہذب اور بظاہر امن وآشتی کے علمبردار مذہب بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے دیاگیا ۔آٹھ لاکھ مسلمان برما کی کل آبادی کا محض چار فیصد ہیں ۔اس کے باوجود سمجھ سے بالاتر ہے کہ برما کی اکثریتی آبادی ان سے خائف کیوں ہے؟ المیہ یہ ہے کہ مسلم مخالف مہم کی قیادت وہاں کامذہبی طبقہ بدھ بھکشو کر رہے ہیں۔ کچھ برس قبل بدھ بھکشوئوں نے بہت بڑا جلوس نکالا کہ مسلمانوں کو برما سے بے دخل کیا جائے۔کہاجاتاہے کہ اس جلوس کی پشت پناہی برما کی فوجی حکومت نے کی تھی۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اعتراف کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی نسل کشی سرکاری سرپرستی میں ہورہی ہے۔ پولیس اور ریاستی مشینری اکثر بلوائیوں کی معاونت کرتی ہے۔کئی مقامات پر مسلمانوں کو تحفظ کی یقین دہانی کراکر نہتا کیا گیا لیکن بعد میں انہیں مشتعل ہجوم کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر برمی مسلمانوں پر گزرنے والی قیامت کے مناظر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتاہے۔اجتماعی قبریں،معصوم بچوں اور عورتوںکی بے گور وکفن نعشیںچار سو پھیلی ہوئی ہیں۔ بے بسی کا یہ عالم ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتاکہ مظلوموں کی کیسے مدد اور ظالم کا ہاتھ کیسے روکا جائے ؟گزشتہ برس جون میں شروع ہونے والی نسل کشی میں اب تک ایک لاکھ تیس ہزار مسلمانوں کو بے گھر کیا گیا۔یہ لوگ کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔انسانی حقوق واچ نے لکھا : کئی مقامات پر اجتماعی طور پر مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔محض ایک واقعہ میں چالیس کے لگ بھگ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔اب عالمی میڈیا میں یہ واقعات کسی حدتک چھپنے لگے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ 1990ء سے مسلمانوں پر تشدد کیا جارہاہے لیکن دنیا کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تھی۔ برمی مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی جڑیں برطانوی استعمار کی اس خطے میں موجودگی کے دوران پیداہونے والی کشیدگی میں پیوست ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے دوران برما میں آباد مسلمانوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا۔و ہ برطانیہ کے شانہ بشانہ جاپان اور جرمنی کے خلاف مختلف محاذوں پر برسرپیکار رہے ۔اس کے برعکس برما کے بدھوں نے اپنے ہم مذہب جاپانیوں کا ساتھ دیا اور برماکے لوگ آزادی بھی چاہتے تھے۔بعدا زاں آزادی کے بعد مسلمانوں اور بدھوں میں موجود خلیج مزید بڑھتی گئی۔انہیں بنگالی آبادکار قراردے کر شہریت نہیں دی گئی۔انہیں روزگار اور اپنے ہی ملک میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل ہونے کی اجازت نہیں۔برما میں پیدا ہونے والے مسلمان بچوں کی رجسٹریشن تک نہیں کی جاتی۔عشروں پہلے شاعر نے کہا تھا ۔ ع ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات برما کی فوج نے گزشتہ چھ عشروں میں متعدد مرتبہ مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش کی۔انہیں تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔مسلمانوں کے خلاف تعصب اور ان کے اجتماعی انخلاء پر سرکاری اور قومی سطح پرعمومی اتفاق رائے پایا جاتاہے ۔برما کے صدر تھیان سین (Thein Sein )کہتے ہیں کہ اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمان کسی دوسرے ملک میں پناہ حاصل کرلیں۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انہیں مہاجر کیمپوں تک محدود رکھا جائے یا کم ازکم ان کو بدھ آبادی سے الگ تھلگ کردیا جائے۔ حزب اختلاف کی رہنماآنگ سان سوچی( Aung San Suu Kyi)کی جمہوریت کے لیے قربانیاں اور جدوجہد کو دنیا خراج تحسین پیش کرتی ہے۔انہوں نے طویل عرصہ تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیںاور فوجی آمریت کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑی رہی۔وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ روارکھے گئے سلوک پر احتجاج نہیں کرتیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کو یکساں شہری حقوق دینے کی حمایت کی تو رائے عامہ ان کے خلاف ہوجائے گی۔ انہیں پہلے ہی مغرب کی پروردہ قراردیا جاتاہے۔ جب سے پرتشدد واقعات میں تیزی آئی ،مسلمان نوجوان جان بچانے کی خاطر بیرون ملک بھاگ رہے ہیں۔وہ آسانی سے بنگلہ دیش جاسکتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی حکومت نے برما کے ساتھ اپنی سرحد بند کررکھی ہے۔ جو بھی برمی باشندہ بنگلہ دیش میں داخل ہوتاہے اسے زبردستی واپس بھیج دیا جاتاہے حالانکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کوئی بھی ملک ایسے شخص کو جس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو واپس نہیں بھیج سکتا ۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو الاقوامی قوانین کی پروا ہے اور نہ اسلامی اخوت اور بھائی چارہ کی روایت کا پاس۔کچھ لوگ سمند ر کے راستے تھائی لینڈ پہنچتے ہیں جہاں سے انہیں ملائشیا بھیجا جاتاہے ۔تھائی لینڈ کی حکومت انہیں پناہ تو نہیں دیتی لیکن انہیں ملائشیا جانے میں مدد ضرور فراہم کرتی ہے۔ ترکی وہ واحد مسلمان ملک ہے جس کے وزیرخارجہ نے برما کا دورہ کیا۔ ترک وزیراعظم طیب اردگان کی بیگم کو مہاجرین کے کیمپوں میں آنسو بہاتے اور روتے دیکھا گیا ہے۔وہ معصوم اور بے گناہ عورتوں کے ننگے سروں کو ڈھانپتے ہوئے تڑپ اُٹھیں۔ ابھی شاید ہی دنیا کے کسی ملک یا ادارے نے برما کی حکومت کا ہاتھ روکنے کی سنجیدہ کوشش کی ہو۔نہ ہی کسی ادارے کی طرف سے بے گناہ شہریوں کا خون بہانے پر مجرموں کے خلاف مقدمات چلانے کامطالبہ کیا گیا۔ مسلمان ممالک کو دنیا کے دیگر انصاف پسند ممالک کے تعاون سے عالمی سطح پر برما کے مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔یہ مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ جن لوگوں نے بے گناہ شہریوں کو قتل کیا یا ان کے گھر بار لوٹے، آزادانہ تحقیقات کے بعد انہیں قرارواقعی سزادی جائے۔غیر منصفانہ اور امتیازی قوانین کا خاتمہ ہونا چاہیے اور برمی مسلمانوں کو یکساں شہری حقوق دیئے جائیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب، ترکی اور ملائشیا کے تعاون سے برما کے مسلمانوں کے تحفظ کی مہم شروع کرے ۔عالمی اداروں کو متحرک کیا جائے بالخصوص اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کو تاکہ وہ برما کی حکومت پر دبائو ڈال سکیں۔علاوہ ازیں مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی مہاجرین کے لیے ریلیف مہیا کرے۔انہیں برما کی ظالم حکومت کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے۔اگر اس موقع پر مسلم حکمران مُردوں کا سا سکوت نہیں توڑیں گے تو رائے عامہ جو پہلے ہی ان سے شاکی ہے مزید ناراض ہوگی۔انتہاپسند عناصر کے موقف کو تقویت ملے گی کہ حکمرانوں کو سوائے مال ودولت کے انبار جمع کرنے اور ذاتی نموونمائش کے علاوہ مسلمانوں کے کسی بھی کازسے دلچسپی نہیں۔