چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے راولپنڈی میں یوم شہدا ء کی تقریب سے خطاب میں بڑے بنیادی نوعیت کے تحفظات کا دوٹوک الفاظ میں ازالہ کردیا۔ تقریر کے پہلے حصے میں انہوں نے انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے میں فوج کی بھرپور معاونت،جمہوری نظام کے ساتھ گہری وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ گیارہ مئی کا دن پاکستان میں نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔جنرل کیانی نے کہا: الیکشن وہ واحد راستہ ہے جس میں ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ پاک فوج اپنی تمام تر بساط اور صلاحیت کے مطابق انتخابات کے پرامن انعقاد میں بھرپور معاونت کرے گی۔ پاک فوج نے بھی پانچ سال ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ تقریر کے دوسرے حصے میں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ پاکستان کی بقا اور سلامتی کی جنگ ہے۔پہلی بار فوجی سربراہ نے ان عناصر کو متنبہ کیا جو اس جنگ کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی نہیں بلکہ اغیار کی جنگ لڑرہاہے۔ جنرل نے دوٹوک الفاظ میں کہا: دہشت گردی کی جنگ کے مقاصد پر اب بحث نہیں ہونی چاہیے۔ ملک کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے عناصر اگر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہیں تو انہیں آئین پاکستان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں جاری اس خونریزی کے باوجود کچھ حلقے اس بحث میں مصروف ہیں کہ یہ جنگ کیوں شروع کی گئی؟ اگر ایک گروہ اپنے غلط نظریات ہم پر مسلط کرنا چاہے اور انسانی جانیں لینے سے بھی دریغ نہ کرے تو اس کا قلع قمع کرنا ہمارا فرض ہے۔ دہشت گردی کی جنگ کو صرف فوج کی جنگ سمجھنا انتشار پھیلانے کے مترادف ہے۔ جنرل کیانی کی تقریر کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ اب انتخابات کے بروقت انعقاد کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ پاکستان میں جاری جمہوری عمل کو فوج پوری قوت کے ساتھ مکمل کرنے میں معاونت فراہم کرے گی۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ فوجی قیادت میں دہشت گردعناصر اور ان کے حامیوں کو فیصلہ کن شکست دینے کا عزم پایا جاتاہے اور وہ قومی سطح پر ان عناصر کو اب مزید ڈھیل دینے کی روادار نہیں، جو پاکستان کے شہریوں کی جان اور مال سے کھیلنے والوں کو ہیروبنا کر پیش کرتے ہیں۔اس پالیسی بیان کے بعد ایسے عناصر کے گرد گھیرا تنگ کیا جانا چاہیے جو ملک کے اندر شدت پسندوں کا سیاسی چہرہ ہیں۔انہیں پناہ اور نقل وحرکت میں مدد فراہم کرتے ہیں۔قومی سطح پر ان کے نقطہ نظر کا پرچار کرتے ہیں۔ افسوس !پاکستان میں سیاستدانوں اور فعال طبقات میں ایسے عناصر کا ایک پورا گروہ موجود ہے جو یہ سمجھتاہے کہ جب تک طالبان یا شدت پسندعناصر ان کے خلاف کارروائیاں نہیں کرتے اس وقت تک انہیں انتہا پسندوں کے خلاف زبان بند رکھنی چاہیے۔گزشتہ تین چار ہفتوں سے عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت پر مسلسل حملے ہورہے ہیں۔ان کے لیے الیکشن مہم چلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ پیپلزپارٹی‘ ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے انتخابی مہم چلانے پر مجبور ہے۔ایم کیوایم جو کراچی اور حیدرآباد کی منظم جماعت ہے اور اسے عوامی مقبولیت بھی حاصل ہے‘ نہ صرف خوف زدہ ہے بلکہ اس کے ووٹر اور حمایتی بھی حیران اور پریشان ہیں کہ وہ ان حالات میں کس طرح ووٹ ڈالنے جائیں گے؟دوسری جانب خود حکومت نے خیبر پختون خوا کے ستر فیصد پولنگ سٹیشنوں کو حساس قراردے دیا ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ اس صوبے کے ستر فیصد علاقوں میں ووٹ پڑنے کا تناسب بہت کم ہوگا۔تحریک طالبان پاکستان نے یہ بھی کہا کہ وہ انتخابات کے دن پولنگ بوتھ پر حملے کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں صر ف دوجماعتیں یعنی مسلم لیگ نون او رتحریک انصاف پوری آزادی اور بلاخوف وخطر بھرپور انتخابی مہم چلارہی ہیں۔ شدت پسندوں نے انتخابات کا روایتی ماحول بدل دیا ہے۔انہوں نے لبرل اور اعتدال پسند جماعتوں اور شخصیات کو سزادینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔جن جماعتوں کو وہ ناپسند کرتے ہیں عملاً ان کے لیے انتخابات میں حصہ لینا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ یہ تجزیہ حقیقت کے زیادہ قریب ہوگا کہ گیارہ مئی کے انتخابات کے نتائج پرانتخابی مہم کے کم اور طالبان کی سرگرمیوں کے زیادہ اثرات ہوں گے۔ ریاستی مشینری انتہاپسندوں کی سرگرمیاں روکنے میںبری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔نگران وزیراعظم کے انتخاب میںیہ پہلو شعوری طور پر نظرانداز کردیا گیا کہ ملک کو متحرک اور انتظامی صلاحیتوں سے مالامال نگران وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی ضرورت ہے جو چاروں صوبوں میں شہریوں کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ایک ایسا ماحول پیدا کرسکیں جہاںووٹرکو پولنگ بوتھ تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔موجودہ نگران وزیراعظم کا انتظامی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے اور انہیں ملکی مسائل کے بار ے میں بنیادی نوعیت کی معلومات بھی نہیں ۔ اس پس منظر میںیہ امید کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والی حکومت امن وامان کے مسائل ،دہشت گردی اور فرقہ وارانہ کشیدگی پر قابو پالے گی‘ دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ جن سیاسی قوتوں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے یکساں مواقع دستیاب نہیں ان کی اس شکایت میں کافی وزن ہے کہ انہیں آزادی سے انتخابی مہم چلانے دی گئی اور نہ ان کے حامی بلاخوف وخطر ووٹ ڈال سکیں گے۔ ایسی جماعتیں نہیں چاہیں گی کہ نئی حکومت کامیابی سے کاروبار مملکت چلاسکے۔ شدت پسندوں کو بھی توقع ہوگی کہ ان کے ساتھ لچک دار سلوک کیا جائے گا کیونکہ انہوں نے برسراقتدار آنے والی جماعتوں کی بالواسطہ مدد کی ہے۔کیا نواز شریف اور عمران خان شدت پسندوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرسکیں گے جو دفاعی اداروں اور بے گناہ شہریوں پر حملے کررہے ہیں اور اپنی مرضی پورے ملک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ بارہ برسوں سے اعصاب شکن جنگ جاری ہے لیکن مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف شدت پسندوں کے حوالے سے کوئی دوٹوک پالیسی اختیار کرنے کے بجائے ابہام کی شکار ہیں۔یہ ابہام کسی غلط فہمی کی بنیادپر نہیں بلکہ شعوری طور پر اختیار کیا گیا ہے تاکہ چھوٹے چھوٹے سیاسی فائدے حاصل کیے جاسکیں ۔ فوج ،سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کو مشترکہ طور پرشدت پسندی کے خلاف لڑنا ہوگا بلکہ جنرل کیانی کے بقول اب اس موضوع پر بحث بند ہوجانی چاہیے۔گزشتہ چند برسوں میں معاشرے میں شدت پسندی کے رجحانات میں نمایاں اضافہ ہواہے۔عالم یہ ہے کہ ممتاز شخصیات بھی ان واقعات کی مذمت کرنے سے کتراتی ہیں۔جنوری 2011ء میں گورنر سلمان تاثیر کے قتل پر ان کی اپنی جماعت پیپلزپارٹی نے سخت موقف اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو ماہ بعد وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو قتل کردیا گیا ۔ اب عالم یہ ہے کہ جس کا جی چاہتاہے بندوق اٹھا کر شہریوں پر اپنا سیاسی ایجنڈامسلط کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ لاہور میں عیسائیوں کے ایک سو ساٹھ گھر جلا دیئے گئے۔ ان واقعات کے بعد اقوام متحدہ اور امریکا سمیت دنیا کے کئی ایک ممالک اپنی سالانہ رپورٹوں میں پاکستان کو ایک ایساملک قراردینے والے ہیں جہاں اقلیتوں کو مذہبی آزادی میسر نہیں۔ اس ماحول میں جنرل کیانی کی تقریر سے بڑا حوصلہ ملا ہے۔داخلی کے علاوہ بیرونی دنیا کو بھی یہ پیغام ملاہے کہ پاکستان کے دفاعی ادارے شدت پسندوں سے لڑنے میں پوری طرح یکسو ہیںاور وہ قوم کو بھی یکسو کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔