لاہور کے جلسے میں عمران خان کے اسٹیج سے گرکر زخمی ہونے پر پورا ملک سوگوار ہے۔ حریف سیاستدانوں نے جس طرح اس حادثے پر اظہارِ افسوس اور ان کی صحت اور سلامتی کی دعائیں کیں وہ غیر معمولی اور متاثر کن عمل ہے۔ اس طرزعمل نے یہ یقین مزید پختہ کیا کہ پاکستان میں جمہوری کلچر اور روایات جڑپکڑ چکی ہیں۔سیاست‘ بلوغت کی منزلیں طے کرچکی اور اب جمہوری نظام کو نوے کی دہائی کی طرح سبوثاژ نہ کیا جاسکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے جنون کے بغیر یہ انتخابات بے کیف اور بے مزہ ہوتے۔انہوں نے امیدکی ایک کرن روشن کی اور مایوسی اور بے بسی کی شکار قوم کو یقین دلایا کہ وہ ایک ایسا پاکستان تخلیق کرسکتے ہیں جس کا خواب قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھاتھا ۔ جس کی بنیادوں کو لاکھوں شہید وں کے لہونے سینچا۔ زخمی اور نڈھال خان نے کمزور سی آواز میں کہا: اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی جو اپنی حالت خود نہیں بدلتی۔ شاید ہی کوئی پتھر دل ہو جو یہ سن کر تڑپ نہ گیا ہو۔ انتخابی مہم میں تبرا بازی معمول کا حصہ ہے لیکن اسے حدود وقیود میں رکھا جانا ضروری ہے ورنہ یہ کلچر بن جاتاہے۔عالم یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے پائے کے سیاستدان نے عمران خان کویہودیوں کا ایجنٹ قراردیا اور فرمایا: انہیں ووٹ دینا حرام ہے۔الیکشن مہم میں سیاستدانوں کا ایک دوسرے پر الزامات لگانا اور پھبتیاں کسنے سے عوام محظوظ ہوتے ہیں تاہم مخالف سیاستدانوں کو دائرہ اسلام سے خارج اور یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینا ناقابل قبول حرکت ہے۔ اس بیان کو ذرا گہرائی سے دیکھا جائے تو انہوں نے ملک میں تھوک کے حساب سے پائے جانے والے شدت پسندوں کو عمران خان کے خلاف اکسایا ہے۔ پاکستان میں فتوے آسانی سے مل جاتے ہیں۔ جو کوئی آپ کو پسند نہ ہو اسے ایجنٹ قراردے کر شکار یوں کے آگے ڈال دیا جاتاہے۔ صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کو کہے اے کافر‘ تویقینا ان دونوں میں ایک اس بات کا مستحق ہوتا ہے۔ اگر وہ شخص جس کو کافر کہا گیاہے ایسا ہی ہے تو خیر ہے اور نہیں تو یہ الفاظ کہنے والے پر لوٹ جائیں گے (صحیح مسلم کتاب ایمان حدیث 20)۔اس حدیث کی روشنی میں مولانا فضل الرحمان ہی نہیں بلکہ ہم سب کو اپنے اپنے طرزگفتگو کا جائزہ لینا چاہیے۔ فضل الرحمان اور عمران خان کے مابین نوک جھونک برسوں سے جاری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے مولانا فضل الرحمان کے سیاسی نعرے ہتھیا لیے۔مولانا خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقہ جات میں امریکا کو چیلنج کرنے والے ،ڈرون حملوں کے مخالف اور طالبان کے حامی کے طور پر شناخت کیے جاتے تھے۔عمران خان نے جس جرأت اور استدلال کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر افغانستان اور قبائلی علاقوںمیں جاری فوجی آپریشن کی مخالفت کی‘ ڈرون حملوں کو موضوع بحث بنایا‘ اس نے خیبر پختون خوا میں عمران خان کو ایک مقبول اور بہادر رہنما بنا کر پیش کیا ۔اس کی مقبولیت میں حیرت انگیز طور پر تیزی سے اضافہ ہوا۔ پرویز مشرف کے دور میں مولانا فضل الرحمان اسلام آباد کے پوش ترین سیکٹر کی ’’وزراء کالونی‘‘ میں قیام پذیررہے۔پیپلزپارٹی نے انہیںکشمیر کمیٹی کا سربراہ بناکروفاقی وزیر کے برابر مراعات اور پروٹوکول پیش کیا۔ ان کے بھائی عطاء الرحمان اور جماعت کے چند رہنما وفاقی حکومت کا حصہ رہے حتیٰ کہ مولانا محمد خان شیرانی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ بنوایا گیا۔ڈاکٹر خالد مسعود جیسی عالم فاضل شخصیت کی موجودگی میں اس ادارے کی ایک ساکھ قائم ہوئی تھی۔سنجیدہ حلقوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو توجہ سے سنا جاتا تھا ۔ مولاناشیرانی کی تعیناتی ایک سیاسی فیصلہ تھا جس نے اس ادارے کی آزادانہ حیثیت بری طرح مجروح کی۔ حکومت سے قربت اور سیاسی فائدے اٹھانے کے باوجود مولانا فضل الرحمان نے کوشش کی کہ وہ اپوزیشن کا کردار بھی ادا کریں۔ ان کی اس خواہش پر عمران خان نے پانی پھیر دیا۔ خان صاحب نے اپنی سیاست کی عمارت پشتونوں کو متحرک کرنے پر اٹھائی لہٰذا وہ فضل الرحمان کے فطری حریف بن گئے۔عمران خان نوجوانوں کے رہنما ہیں لہٰذا زبان بھی عامیوں والی بولتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور ٹی وی پر جاری مباحثوں میں شامل ہوکر اپنی دھاک منوائی لیکن اب وہ بڑی آسانی سے جلسوں میں عام لوگوں کے دلوں میں اترجاتے ہیں۔بری طرح زخمی ہونے کے باوجود انہوں نے شوکت خانم ہسپتال سے تبدیلی کا جوپیغام دیا وہ حیرت انگیز طور پر متاثر کن اور دل میں اُتر جانے والا تھا۔ عمران خان کا اندازِ گفتگو بعض اوقات سخت ہوتا ہے لیکن نوجوان کی محفلوں میں ایسی ہی جملے بازی چلتی ہے ۔وہ بے باکانہ گفتگو پسند کرتے ہیں۔ پشتون اور پنجابی معاشرہ چیلنج کرنے والے سیاستدانوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے جارحانہ سیاست کرکے اپنی جگہ بنائی تھی۔ دوسری جانب عمران خان کو میاں نواز شریف سمیت اپنے حریفوں پر یہ برتری حاصل ہے کہ وہ روایتی باتیں نہیں کرتے۔ بنیادی مسائل کی نشاندہی کرتا اور ان کے حل کا لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔ عمران خان نے اپنی شناخت ایک قوم پرست رہنما کے طور پر بھی منوائی ہے جوپاکستان کو عالمی برادری میں ایک باوقار ملک بناناچاہتاہے۔اس کے برعکس نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ کارگل کے فوجی آپریشن میں شامل فوجی کمانڈروں کا محاسبہ کریں گے ۔یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے۔ کارگل آپریشن نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور بے مثل قربانیوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔کارگل کے بعد دنیا نے کشمیر یوں سے رسمی ہمدردی جتانے کا سلسلہ بھی بند کردیا۔نواز شریف فرماتے ہیں : وہ تحقیقات سے بھارت کو بھی آگاہ کریں گے۔ ان کے یہ ارادے انہیں اسٹیبلشمنٹ کا ہدف بنادیں گے۔ پاکستانیوں کو قیادت سے شکوے اور شکایات ہیں لیکن وہ ان کی بھارت کے سامنے ناک نہیں رگڑواسکتے۔ 2008ء کے آخر میں بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی میں شدت پسندوں نے حملے کیے تو ایک بڑا بحران پیدا ہوا۔بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے کہا کہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھارت بھیجیں تاکہ وہ تحقیقات میں مدد کرسکیں۔سادہ لوح یوسف رضا گیلانی نے سیاسی مضمرات کا جائزہ لیے بغیر ہامی بھر لی۔ملک میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔لوگوں نے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ بھارت جائیں۔ اب نواز شریف کیسے کارگل کی تحقیقات سے بھارت کو آگاہ کریں گے اور ان کی کون مانے گا؟اچھا ہوتا کہ وہ گڑے مردے اکھاڑنے کے بجائے مستقبل کی جانب دیکھیں اور ماضی کی تلخیوں کو فراموش کردیں ۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ لوگ فتوے بازی کی سیاست سے عاجز آچکے ہیں۔انہیںبخوبی علم ہے کہ ان فتووں کااصل محرک سیاسی غرض ہے۔