"IMC" (space) message & send to 7575

نیا باب

آج پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا باب لکھا جارہاہے۔ عوام اپنے ہاتھوں اپنے خوابوں کی تعبیر رقم کرنے میں آزاد ہیں۔پہلی باردھاندلی کے خوف سے آزاد الیکشن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ۔ آج ملکی تاریخ کا ایک انوکھا دن ہے۔قوم خوشی کے شادیانے بجارہی ہے اور سیاستدان سراٹھا کر فخر سے کہنے کے قابل ہیں کہ انہوں نے تبدیلی کے عمل کا ایک بڑا حصہ مکمل کرلیا ہے۔ اس موقع پر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ موجودہ ماحول پیدا کرنے میں سب سے بڑا کردار صدرآصف علی زرداری ،میاں محمد نوازشریف ،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ہے۔انہوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں مشکل ترین مراحل میں بھی ایک دوسرے سے تعلقات کار کو نبھایا ۔ بسااوقات کشیدگی بھی پیدا ہوئی ، مرو یا مار دو والی کیفیت بھی لیکن انہوں نے صبر اور حکمت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ان شخصیات اور اداروں کی تحسین کی جانی چاہیے جنہوں نے جمہوری نظام کو مضبوطی سے جڑیں پکڑنے کا موقع دیااور تاریخ میں امر ہوگئے۔ میاں نوازشریف نے غیر معمولی سیاسی تدبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ذاتی اور جماعتی نقصان برداشت کیا لیکن حکومت گرانے کی سازش نہ کی۔ان کی سیاسی بصیرت کی بدولت یہ ممکن ہوا کہ آج پیپلزپارٹی کا نامۂ اعمال خالی ہے۔ روایتی رونا دھوناہوا ہوچکا کہ انہیں مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور اسلام آباد میں ان کے خلاف سازش ہوئی۔آج پیپلزپارٹی کی شکست نوشتۂ دیوار ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اسے پورے پانچ برس ’عوام کی خدمت ‘ کاموقع دیا گیا۔اب عالم یہ ہے کہ وہ موثر اور ملک گیر انتخابی مہم توکجامقامی سطح پر اپنے حامیوںکو بھی متحرک نہیں کرپائی۔ پیپلزپارٹی کی موجودہ کیفیت اور پارٹی پر طاری سکتہ اس امرکی عکاسی کرتا ہے کہ سیاسی عمل کو چلنے دیا جائے تو معاشرہ اور ملک تبدیلی اور ارتقا کا عمل تیزی سے طے کرتے ہیں۔ صدر زرداری کی حکومت نے خارجہ پالیسی کے محاذ پر خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں۔امریکا کے ساتھ تعلقات میں در آنے والی کشیدگی کو ایک سطح سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔افغانستان جیسے مشکل ہمسائے کے ساتھ تعلقات میںنمایاں بہتری پیدا کی۔بھارت کے ساتھ جاری سرد مہری کو گرم جوشی میں بدلا۔گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنا اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے پروجیکٹ کا آغاز کرنا غیر معمولی اقدامات ہیں۔داخلی سطح پر صوبوں کو انتظامی اور مالیاتی طور پر نیم خودمختار بنادیا گیا۔پیپلزپارٹی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی یہ کامیابیاں ووٹروں کے لیے بے معنی بن گئیں کیونکہ ان دستوری اور انتظامی اصلاحات کے مثبت اثرات سامنے آنے میں وقت لگے گا جبکہ عوام کے چولہے بجھ چکے ہیں اور انہیںہنگامی بنیادوں پر ریلیف چاہیے۔ تختِ لاہور پر نون لیگ کے شہباز شریف بلاشرکت غیرے حکمران رہے۔انہوں نے بھاگ دوڑبہت کی لیکن متاثر کن نتائج پیدا نہ کرسکے۔پنجاب دوسروں سے بہتر ضرور رہاہے لیکن مثالی طرزحکومت کی فراہمی میں ناکام رہا۔ پنجاب نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو ملنے والے اختیارات سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا ۔سستی توانائی کی پیداوار کے منصوبوں پر کام نہ کیا گیا ۔ پنجاب کی صنعتیں بند اور کاروبار ٹھپ ہوگیا لیکن پنجاب میں بجلی پیدا کرنے کے چھوٹے چھوٹے منصوبے بھی نہ لگ سکے۔ متحدہ قومی موومنٹ ،قاف لیگ ،نیشنل عوامی پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام بھی براہ راست حکومت کا حصہ رہے۔صدر زرداری نے لگ بھگ تمام پارلیمانی جماعتوں کو حکومت کا حصہ بنایا۔سرکار میں شامل یہ جماعتیں عوامی مسائل کم کرنے کے لیے علامتی نوعیت کے اقدامات بھی نہ کرسکیں یا کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں۔اپنی جیبیں خوب بھریں حتیٰ کہ دم رخصت بھی مراعات کی ایک لمبی چوڑی فہرست قومی خزانے پر مسلط کرگئے۔اس طرزحکومت نے تبدیلی کے لیے تیسری قوت ’تھرڈ فرنٹ‘کا آئیڈیا متعارف کرانے میں آسانی پیدا کی۔لوگوں نے اور بالخصوص نوجوان نسل نے تبدیلی کی آواز پر لبیک کہا۔ عمران خان کی تحریک انصاف متبادل سیاسی قوت چند ماہ میں کھڑی ہوگئی۔ نون لیگ کے ترجمان لکھاری ہر روز ماتم کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کے سبب ان کی ممدوح جماعت کا نقصان ہوگا لہٰذا ووٹرز اپنے آپ کو نون لیگ کے لیے وقف کر دیں۔ ہمیں باور کرایا جاتاہے کہ جیسے اگر نون لیگ کو ووٹ نہ دیا گیا تو عذاب نازل ہوسکتاہے۔ منطق اور استدلال کے ان نابغوں کی علمی وجاہت کی شہرت چار دانگ عالم پھیل گئی ۔ نوے کی دہائی میں ایسی کہانیاں کارگر تھیں ۔ آج ایک بالکل مختلف ذہن کی نسل پولنگ اسٹیشن جارہی ہے‘ جو سرد جنگ کے زمانے کے ما ئنڈ سیٹ کی اسیر نہیں۔وہ نہیں جانتی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا کارنامے سرانجام دیئے اور عزت مآب میاں محمد نوازشریف نے دودھ اور شہد کی کون سی نہریں بہائیں۔انہوں نے آنکھ کھولی تو دیکھا کہ گھر میںبجلی ہے‘ نہ گیس۔ آٹا تک دستیاب نہیں۔باپ بے روزگار۔ سب سے کر ب ناک بات یہ ہے کہ دنیا میں پاکستان کو ’اچھوت‘ملک بنادیاگیا۔اس کے شہریوں سے دنیا خوف ہی نہیں کھاتی بلکہ نفرت بھی کرتی ہے۔دنیابھر میں کہیں بھی دہشت گردی ہو ، اس کے ڈانڈے پاکستان سے جاملتے ہیں۔ اسامہ بن لادن درجنوں بچوں او ربیگمات کے ہمراہ ایبٹ آباد میں مقیم رہے۔ اتنی بڑی غفلت اور نااہلی پر نہ کوئی استعفیٰ آیا اور نہ کوئی معطل ہوا۔کوئٹہ میں ہزارہ قبائل بھیڑ بکریوں کی طرح تہہ و تیغ کیے گئے۔ مگر کئی سیاسی قائدین اور مذہبی رہنمائوں نے اظہار ہمدردی کی زحمت تک گوارا نہ کی۔اس طرز سیاست پردل کڑھتا ہی نہیں خون کے آنسو روتاہے۔اٹھارہ کروڑ لوگوں کے ملک کو رسو ا کیا گیا۔ لوگوں کے حقوق پامال اور جذبات واحساسات کااستحصال کرکے اپنے عشرت کدے آباد کیے گئے۔ عمران خان کی تحریک انصا ف کوئی آئیڈیل جماعت نہیں۔اس کی حمایت کا محرک اس کی کارکردگی نہیں بلکہ چار چار باریاں لگانے والوں سے بیزاری کااظہار ہے۔کل شب گئے اسلام آباد کے ڈی چوک میں تحریک انصاف کے جلسے میں شریک ایک خاتون سے پوچھا :آج جلسے میں خان بھی موجود نہیں اس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں لوگ کیوں آئے ؟ترنت جواب ملا کہ یہ ہجوم پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی ناکامیوں کا ماتم کرنے جمع ہے۔ممکن ہے کہ کل یہ جماعت بھی لوگوں کی امیدوں پر پورا نہ اترسکے لیکن اس کی حمایت کے دوفائدے ہیں ۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی کامیابی سے پاکستان میں سیاست کی بنیاد بدل جائے گی۔آئندہ کے حکمرانوں کو کارکردگی کا مظاہر ہ کرنا ہوگا۔ دوسر ا بڑا فائدہ یہ ہے کہ عوام کو یقین آجائے گا کہ ووٹ کی پرچی میں اتنی طاقت ہے کہ وہ بڑے بڑے بُرج الٹ سکتی ہے۔ ایک دفعہ لوگوں نے روایتی سیاستدانوں کو مسترد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تو جاگیرداروں اور زور آوروں کے قلعے خودبخود زمین بوس ہونا شروع ہوجائیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ دیر پا تبدیلی صرف سیاسی عمل کے ذریعے آتی ہے۔آج گیارہ مئی کو یہ موقع دستیاب ہے کہ عوام اپنی پسندیدہ پارٹی یا شخصیت کو ووٹ دے کر کامیاب کریں۔ آج ووٹ ڈالتے وقت رحمت اللعالمین ﷺ کے یہ الفاظ یاد رکھنا ہوں گے۔ ’’تباہ ہوگیا وہ شخص جس کا آج اس کے کل سے بہتر نہیں‘‘۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں