الیکشن کا قصہ تما م ہوا‘ اب تعمیر پاکستان کا مرحلہ درپیش ہے۔ الیکشن کی تلخیاں دفن کرنے اور آگے بڑھنے کا وقت آن پہنچاہے۔ شام تک واضح ہوجائے گا کہ کون سی جماعت حکومت یاحز ب اختلاف کی نشستوں پر براجمان ہو گی۔ یہ پہلا الیکشن تھا جس میں لوگوں نے اپنی مرضی سے مختلف جماعتوں اور شخصیات کو ووٹ دیئے‘ امریکا بہاد ر کی مداخلت نہ ایجنسیوں کی درپردہ سازشوں کا روایتی خدشہ۔امید ہے کہ انتخابات کے بعد بھی حکومت سازی میں بیرونی یا داخلی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اس مرتبہ انتخابی مہم میں وہ تلخی بھی نہ تھی جو نوّے کی دہائی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے حامیوں میں ہوا کرتی تھی۔ پروپیگنڈے اور جوابی حملوں میں بھی کافی لحاظ رکھا گیا۔ عمران خان کی زبان پر بہت اعتراض ہوا مگر میرے ہم سن لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ ماضی میں کس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی نجی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 1993ء کے انتخابات میں عمران خان اور ان کی بیگم جمائمہ خان کے حوالے سے من گھڑت قصے کہانیاں عام کی گئیں۔ اس نازیبا مہم کے پس منظر میں کارفرما ذہن اور مالی وسائل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ شکر ہے کہ اب یہ ہتھیار کند ہوچکے ہیں کیونکہ اب معاشرہ ایسی ’بدعتوں‘ کو قبول نہیں کرتا۔ مذہب جو کبھی ووٹ حاصل کرنے کاآزمودہ حربہ تھا اب کارگر نہیں رہا۔انتخابات میں مذہبی جماعتوں اور شخصیات کی کارکردگی دیکھ کر بخوبی احساس ہوتاہے کہ انہیں اپنا آپ نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا ورنہ وہ قصۂ پارینہ ہوجائیں گی۔مولانا فضل الرحمان او رجماعت اسلامی جس طرح سیاست میں پِٹے وہ حیرت انگیز ضرور ہے لیکن سیاسی عمل کی کامیابی پر مہر تصدیق بھی ثبت کرتاہے۔ اگر سیاسی عمل کو روکا نہ جائے تو معاشرہ تیزی سے ارتقا کی منزلیں طے کرتاہے۔وہ تیزی سے خو ب او رناخوب میں شناخت کے قابل ہوجاتاہے۔ووٹر زطالبان کی دھمکیوں کوخاطر میں نہ لائے‘ اس کے باوجود کہ ہرپولنگ اسٹیشن پر موت کے انجانے سائے لہرا رہے تھے، لوگ جوق درجوق ووٹ ڈالنے آئے۔ ان انتخابات نے پاکستانیوں کو ایک مضبوط اور متحرک قوم بنا دیا ہے۔ہزاروں لوگ بیرون ملک اپنا کاروبار اور ملازمتیں چھوڑ کر ووٹ دینے اور الیکشن مہم چلانے آئے۔مایوسی امید میں بدل چکی ہے ۔عمران خان اور ان کے ساتھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوںنے پاکستان کا سیاسی کلچر بدل ڈالا۔اب اسلام آباد اور چاروں صوبوں میں قائم ہونے والی حکومتوں کو عوامی جوابدہی کا شدت سے احساس رہے گا۔لوگ باخبر اور فعال ہیں۔انہیں ووٹ کی طاقت کا ادراک ہے۔سرکاری تنظیمیں اور میڈیا حکومت کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔اچھی حکومت کی فراہمی کے لیے جن اجزائے ترکیبی کی ضرورت ہوتی ہے وہ اب دستیاب ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی مسرور ہے کہ لوگوں نے مخصوص مفادات کے علمبردار نظریہ سازوں کے روایتی مفروضوں کو مسترد کردیا کہ سیاست کو ہمیشہ بھٹو اور بھٹو مخالف کیمپ میں قید رکھا جانا چاہیے۔عوام نے سیاست کو تعمیر وطن ،موثر انتظامیہ ،تعلیم اور صحت کی اعلیٰ سہولتوں کی فراہمی اور پاکستانیوں کی عزت ووقار کی بحالی جیسے بلند آدرشوں سے منسلک کردیا۔آج کے پاکستان میں اسی گروہ کی سیاست سرفراز ہوگی جو شہریوں کی محرمیوں کا ازالہ کرے گا۔ ان کے معاشی مسائل ہی نہیں بلکہ کھویا ہوا وقار بھی بحال کرنے کے لیے بروئے کار آئے گا۔ سیاست میں آنے والی یہ تبدیلی بڑی مسحور کن ہے۔ ہمیں یہ ادراک کرنا چاہیے کہ پاکستان ایک کثیر جہتی ملک ہے، جہاں کئی زبانیں بولنے والے، رنگوں اور نسلوں ،فرقوں اور مذاہب کے پیروکار آباد ہیں۔انہیں ڈنڈے کے ذریعے متحدہ رکھا جاسکتاہوتا تو سقوط ڈھاکہ رونما نہ ہوتا۔انہیں مساویانہ حقو ق اور برابری کی بنیادوں پر سیاسی معاملات میں شراکت دار بنا کر ہی اس ملک کو مضبوط اور خوشحال بنایا جاسکتاہے۔ بلوچستان اور کراچی سے سامنے آنے والا مینڈیٹ اس امر کی عکاسی کرتاہے کہ شہریوں کی سوچ اور سیاسی فکر میں بعدالمشرقین پایا جاتاہے۔اس خلیج کو پاٹنے کی خاطر قومی جماعتوں کو ان شہروں اور خطوں میں وقت اور توانائی صرف کرنا ہوگی۔عام لوگوں کو ساتھ ملانا ہوگا تاکہ شراکت داری کا احساس ہو۔سینئر صحافی فاروق عادل نے اپنے ایک حالیہ کالم میں بروقت نشان دہی کی کہ کراچی میں ایک بھی ملک گیر جماعت کا جلسہ نہیں ہوا۔میاں نواز شریف سرے سے کراچی انتخابی مہم چلانے گئے ہی نہیں۔عمران خان مزار قائد پر حاضری دے کر لاہور پلٹ گئے ۔پیپلزپارٹی چاردیوار ی کے اندر سے تیر وتفنگ چلاتی رہی۔ اس نے ساری مہم اشتہارات کے ذریعے چلائی اور خوب چلائی ۔یہ تسلیم کرنا پڑتاہے کہ انہوں نے نون لیگ کو اس محاذپر بُری طرح پسپا کیا۔نون لیگ کی قیادت جس طرح اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی علمبردار ثابت کرتی تھی اس کا پول اس اشتہاری مہم نے کھول کر رکھ دیا۔ پس تحریر:بھارت میں قید پاکستانی قیدی ثنا ء اللہ کی نعش خاموشی کے ساتھ سیالکوٹ میں سپرد خاک دی گئی۔ایک دوسرے پاکستانی قیدی عبدالجبار پر تہاڑ جیل میں حملہ ہوا اور وہ بھی موت وحیات کی کشمکش میں ہے۔سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر کوئی بیان جاری کیا اور نہ اظہار افسوس کے دو روایتی بول بولے ۔ شہریوں کی جان ومال سے اس قدر بے توجہی برتنے کی حالیہ تاریخ میں نظیر تلاش کرنا محال ہے۔سربجیت سنگھ پر ہونے والے حملے پر میڈیا سراپا احتجاج اور سوگوار ہوا تو لوگ ہضم کرگئے۔ ریاستی اداروں کی ناکامیوں کا محاسبہ کرنا ضروری ہے لیکن ثنا ء اللہ کی موت پر قبرستان کی سی خاموشی نے میڈیا اورسیاسی جماعتوں کے طرزعمل کے حوالے سے کئی سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں اور بے چین بھی ہیں کہ آخر ہماری سیاسی جماعتیں اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے متحرک کیوں نہیں ہوتیں؟ہمارے شہری ڈرون حملوں میں مارے جائیں یا پھر دوسرے ملکوں کے قیدخانوں میں‘ لیکن کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیںہوتی۔ پاکستانیوں کا خون اتنا ارزاں نہیں کہ بے مقصدبہتا رہے اور نیرو فیس بک اور ٹویٹر پر خطے میں امن کی بانسری بجاتارہے۔ خطے میں اشتعال انگیزی کو فروغ دینے کی وکالت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن حکومت اور میڈیا کو اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ گزشتہ کئی ماہ سے ایک عرب ملک سے دھڑا دھڑپاکستانیوں کو نکالا جارہاہے کہ ان کے پاس ضروری دستاویزات نہیں۔ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو کئی عشروں سے اس ملک کی تعمیر میں اپنا خو ن پسینہ ایک کیے ہوئے ہیں‘ انہیں بدلے میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔وہ مغربی ممالک جنہیں گالی دیئے بنا ہمیں نیند نہیں آتی وہاں اس ایسے سلوک کا تصور بھی محال ہے۔نئی حکومت کو بیرون ملک اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا اور ایسے ممالک کو جو پاکستانیوں کے ساتھ بدسلوکی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھرپور احتجاج کرنا ہوگا۔