"IMC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم نوا زشریف

گیارہ مئی کی شب انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کی خوشی میں میاں محمد نواز شریف کی تقریر متاثر کن تھی۔انہوں نے دیگر جماعتوں کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ اشتراک چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کو موجودہ گرداب سے نکالا جاسکے۔ان کا خلوص اپنی جگہ لیکن یہ ان کی سیاسی ضرورت بھی ہے ۔ عوام نے انہیں صرف وفاق اور پنجاب میں حکمرانی، جسے شریف برادران’ خدمت‘ کا نام دیتے ہیں، دیا ۔ باقی تین صوبوں میں دوسری سیاسی جماعتیں پورے طمطراق کے ساتھ حکمران ہوں گی۔وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کومضبوط حکومت بنانے میں کوئی چیلنج درپیش نہیں لیکن باقی ملک میں صورت حال مختلف ہے۔ کراچی اور سندھ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتاہے ۔قومی بجٹ میں ٹیکسوں کا کثیر حصہ یہ صوبہ فراہم کرتاہے۔تیل اور گیس کی سپلائی اور پیداوار کا منبع بھی سندھ ہے ۔صنعتی اعتبار سے بھی نسبتاً یہ صوبہ ترقی یافتہ ہے۔پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی اور سندھ پر پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کا برسراقتدار آنا یقینی ہے۔یہاں نون لیگ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان جہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں‘ سی آئی اے کی نگرانی میں ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے‘ اس صوبے میں نون لیگ کے حریف عمران خان کی حکومت بننے جارہی ہے ۔تحریک انصاف شدت پسندی کے مسائل کو طالبان کے ساتھ مذاکرات اور فوجی آپریشن روک کر حل کرنا چاہتی ہے ۔ اس علاقے میں اس کی بھرپور کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ بلاکسی لاگ لپیٹ کے خطے میں امریکی پالیسی کو مسترد کرتے اورعوامی جذبات سے ہم آہنگ رہے ۔ عمران خان ایک ہوشیار سیاستدان ثابت ہوئے جو عوام بالخصوص ملک کے فعال طبقات کے دل ودماغ میں گھر کر چکے ہیں۔ یہ امید رکھنا کہ عمران خان کی جماعت مسلم لیگ نون کے لیے ترنوالہ ثابت ہوگی سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔بلوچستان ہمیشہ کی طرح منقسم ہے ۔ نوازشریف کے قوم پرست جماعتوں کے ساتھ خوشگوار ذاتی مراسم نون لیگ کے لیے اس صوبے میں جگہ بناسکتے ہیںلیکن نون لیگ یہاں بھی حکومت سازی کے قابل نہیں۔ پیپلزپارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی اور قاف لیگ کو نشانہ عبرت بناکر عوام نے ثابت کیا کہ وہ تبدیلی اور امید کے چراغ جلائے رکھنا چاہتے ہیں۔وہ اچھی حکمرانی اور موثر انتظامیہ کی فراہمی کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ جماعتیں پانچ برس تک برسراقتدار رہنے کے باوجود عوامی توقعات پر پوری نہیں اتریں۔اس کے برعکس شہباز شریف کی محنت اور ریاضت کام کرگئی ۔پنجاب میں نون لیگ کو کامیابی ضرور ملی تاہم کئی اہم شہروں میں یہ بری طرح پٹی بھی ہے۔ اسلام آباد سے چھ ارب روپے کے سیکنڈل میں ملوث انجم عقیل کوٹکٹ دیا گیا۔ یہ شخص دولت اور رسوخ کے بل بوتے پر قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اگر وہ جیت ہوجاتاتو اسلام آباد کے باسیوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر چمکتا۔ ان انتخابات نے سیاست کی جہت ہی بدل دی۔اب ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر ملتاہے۔ معاشرے میں عمومی طور پر رجحان پایاجاتاہے کہ وہ جیت والی جماعت کو ووٹ دیتے ہیںلیکن اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں نے ثابت کیا ہے کہ محض کھمبے کھڑے کرنا کافی نہیں‘ امیدوار بھی معقول ہوناچاہیے۔ مسلم لیگ کو اپنی صفوں میں ٹھیکیداروں اور صاحب ثروت لوگوں کے علاوہ پیشہ ورانہ مہارت اور اچھی شہرت کے حامل لوگوں کو جگہ دینا ہوگی ۔ قومی منظرنامے پر نگاہ ڈالیں تو نوازشریف کے لیے ماحول زیادہ سازگار نہیں ۔انہیںتینوں صوبوں ،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں مخالف جماعتوں کی حکومت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ابھی تک ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری موجود ہیں۔افتخار محمد چودھری بھی ابھی چند ماہ تک چیف جسٹس رہیں گے۔ میڈیا آزاد ی کا عادی ہے ۔ وہ کرپشن اور بدعنوانی کو برداشت نہیں کرتا۔لوگ بجلی کی بلاتعطل سپلائی مانگتے ہیں۔شدت پسند اپنا ایجنڈا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ لوگوں کی توقعات پر پورا اتر سکے۔ اسٹبلشمنٹ شدت پسندوں کے خلاف نہ صرف سرگرم ہے بلکہ وہ دہشت گردی کے خلاف پالیسی سازی کی بھی ذمہ دار ہے۔ پیپلزپارٹی نے خارجہ امور میں بھی بہت سارے معاملات اس کے سپرد کیے رکھے۔نواز شریف کو مخالف سیاستدانوں اور دفاعی معاملات کے ذمہ دار اداروں کے ساتھ امور مملکت چلانے کی خاطر شراکت دار کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ان کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مخلوط حکومت کے حامی ہیں اور نہ اقتدار میں زیادہ شراکت داری گوارہ کر تے ہیں۔اسی پس منظر میں انہوں نے اپنے حامیوں سے درخواست کی کہ وہ دعا کریں کہ انہیں حکومت بنانے میں کسی کی محتاجی نہ رہے۔ ان انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کے طرزعمل نے کئی سوالات اٹھا ئے ہیں۔کراچی میں جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کے بائیکاٹ اور بعد ازاں الیکشن کمیشن کا یہ اعتراف کہ کراچی میں پوری طرح شفاف انتخابات کرانے میں کامیاب نہ ہوسکے‘ کراچی کے منتخب نمائندوں کی ساکھ کو متنازعہ بناتا ہے۔ متحدہ اگر ان جماعتوں کو الیکشن لڑنے دیتی تو اس کی نشستوں میں کوئی نمایاں کمی نہ ہوتی۔1977ء میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ہر دلعزیز رہنما تھے۔ حزب اختلاف کمزور اور غیر مقبول تھی لیکن اس کے باوجود دھاندلی کی گئی۔مخالف امیدواروں کو اغوا کرایا گیا۔ بیلٹ باکس چھین لیے گئے حتیٰ کہ مخالفین کا ناطقہ بند کردیا گیا۔اس طرزسیاست کے خلاف ایک طوفان اٹھااور بتدریج ایک تحریک بپا ہوئی۔اس کے بعدجو کچھ ہوا وہ صرف تاریخ ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ایم کیوایم کو کراچی اور حیدرآباد میں دوسری جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے جگہ دینی چاہیے ۔جن حلقوں میں دھاندلی ہوئی وہاں دوبارہ انتخاب ہونا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ قابل داد بھی ہے۔ان ہی کے دم خم سے ملک کاسیاسی کلچر تبدیل ہوا۔انہیں چاہیے کہ وہ نون لیگ کو کم ازکم چھ ماہ تک سکون کے ساتھ حکومت کرنے دیں۔غیر ضروری نکتہ چینی سے گریزکریں۔خیبر پختون خوا میں وفاقی حکومت کے تعاون سے عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔پختون عوام کی فلاح وبہبود کے علاوہ انہیں امن اور سکون کی زندگی فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔دفاعی اداروں کے اشتراک سے شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے پالیسی سازی کریں۔ یہ وقت ہے کہ تمام جماعتیں اہم قومی مسائل کے حل کے لیے جامع اور متفقہ حکمت عملی بنائیں۔ خاص طور پر معیشت کی بحالی، توانائی کے بحران پر قابو پانا، ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں اصلاحات اور سب سے بڑھ کر امن وامان کی بحالی کرنے کے لیے شدت پسندوں کو شکست دینا اور خطے کے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بحالی جیسے دیو ہیکل مسائل ہیں جن کا حل کسی ایک جماعت یا شخصیت کے پاس نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈر کو مل جل کران مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگلے پانچ سال تک نون لیگ، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور غالباًایم کیوایم وفاقی یا صوبائی حکومتیں چلارہے ہوں گے لہٰذا انہیں مل جل کر چلنا پڑے گا ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں