"IMC" (space) message & send to 7575

تجارتی را ہ داری

چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ نے دورۂ پاکستان میں بظاہر بڑے تپاک کا اظہار کیا لیکن نجی گفتگو میں پاکستان کو درپیش چیلنجوں پر گہری تشویش کا اظہار کیاہے۔خاص طور پر شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے نتیجہ میں ریاست کی کمزور ہوتی ہوئی عمل داری پرمضطرب ہیں۔انہوں نے اپنے ملاقاتیوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ چین کی معاشی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار داخلی سیاسی استحکام اور علاقائی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں مضمر ہے۔پاکستان بھی تیزی کے ساتھ ترقی کرسکتاہے بشرطیکہ وہ چین کے ماڈل سے سبق سیکھے اور داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک کے ساتھ تنازعات کی شدت کو کم کرے۔ لی کی جیانگ کے دورہ میں ہونے والی گفتگو اور مذاکرات سے یہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں چین کی تین بڑی ترجیحات ہیں۔1۔پاکستان کو بطور فوجی طاقت کے برقراررکھنا تاکہ خطے میں بھارت کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رہے۔ اسی لیے دونوں ممالک کے دفاعی اداروں سے گہرے روابط قائم ہیں۔2 ۔پاکستان کے زمینی راستوں کا استعمال کرکے تجارت اور کاروبار کو وسعت دینا۔3۔پاکستان کی مدد سے سنکیانگ میں جاری مسلم علیحدگی پسندی کی تحریک پر قابو پانا۔ اس وقت چینی قیادت کی اولین ترجیح پاکستان کے ساتھ تجارتی اور کاروباری روابط کو فروغ دینا ہے۔ اس پس منظر میں چینی وزیر اعظم نے اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں تجارتی راہ داری کی اہمیت اجاگر کرکے پاکستان کو یہ تلخ حقیقت باور کرانے کی کوشش کی کہ خطے کے ممالک کے مابین تجارت اور کاروبار کے امکانات سے فائدہ اٹھا کر وہ خوشحال ملک بن سکتاہے۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع بڑی منفرد نوعیت کا ہے۔اس کے مغرب میں ایران ،شمال میں افغانستان،شمال مشرق میں چین، مشرق میں بھارت اور جنوب میں بحیرۂ عرب کی 1,050کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے ۔یہ جغرافیائی محل وقوع دنیا کو پاکستان کی طرف متوجہ کیے رکھتاہے۔یہ پاکستان کا اسٹریٹجک اثاثہ بھی ہے فاور کاروبار کے لامحدود امکانات بھی وا کرتاہے۔ اس کی سرزمین سے گزرکر درجنوں ممالک سے تجارت کی جاسکتی ہے۔ یہ علاقائی تجارت کا فطری مرکز بنتاہے ۔ اس کے قرب وجوار کی ریاستیں بالخصوص وسطی ایشیائی ممالک بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال ہیں لیکن انہیں بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے سمندری گزرگاہ دستیاب نہیں۔انہیں تیل اور گیس کی فروخت کے لیے پاکستان کی راہ داری چاہیے۔ ان ممالک میں سیاسی اور تجارتی اثرورسوخ حاصل کرنے کے لیے محض علاقائی ممالک ہی نہیں بلکہ عالمی طاقتیں بھی سرگرم ہیں۔اگرگزشتہ اکیس برس میں پاکستان ان ممالک کے کاروباری اور تجارتی حلقوں میں اثرورسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو آج خطے کی تقدیر بدل چکی ہوتی۔کراچی، بن قاسم اور گوادر کی بندرگاہوں پر تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی۔اب میدان میں کئی ایک اسٹیک ہولڈر ہیں اور مسابقت کا ماحول ہے۔ایران بھی ان ممالک کی مارکیٹ پر بالادستی حاصل کرنا چاہتاتھا۔ بھارت کی مدد سے ایرانی بلوچستان میں چاہ بہار کے نام سے نئی بندرگاہ تعمیر کی گئی اور اسے فری ٹریڈ اینڈانڈسٹریل زون قراردیا گیاہے۔ 1991ء میں جب نوازشریف وزیراعظم تھے ،ان کی خواہش تھی کہ پاکستان خطے کے ممالک کو راہ داری فراہم کرے تاکہ علاقائی تجارت کے ذریعے معاشی خوشحالی حاصل کی جاسکے ۔لاہور تا راولپنڈی موٹر وے کا منصوبہ اس سوچ کی ایک جھلک ہے ۔ اسٹبلشمنٹ پر پورے خطے پر غلبہ حاصل کرنے کا بھوت سوار تھا لہٰذا ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔بعد ازاں ان کی حکومت ختم ہوگئی اور یہ منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اب چین چاہتاہے کہ وہ پاکستان کے محل وقوع سے فائدہ اٹھائے۔اسی لیے چین کے وزیراعظم بار بار تجارتی راہ داری پر توجہ مرکوز کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔چین نے کثیر سرمائے سے شاہراہ قراقرم کی توسیع کی۔ چین کی تیزرفتار معیشت کو تجارتی راہ داری ہی نہیں ‘انرجی کے لیے راہ داری بھی چاہیے تاکہ بلاخوف و خطر اسے مشرق وسطیٰ سے تیل کی ترسیل جاری رہے ،بالخصوص اس کی مغربی ریاست سنکیانگ کے لیے۔ گواد رمیںچین کی براہ راست موجودگی اسے احساس دلاتی ہے کہ اس کے تجارتی مفادات کو خطرہ درپیش نہیں۔ خود چین علاقائی ممالک سے ریلوے اور سڑکوں کے ذریعے مربوط ہورہاہے بالخصوص وسطی ایشیا ئی ممالک کے ساتھ۔چین کاشغر کے نواح میں ایک بہت بڑا اقتصادی زون بنارہاہے ۔وہ درآمدات اور برآمدات کے لیے گوادر بندرگاہ پر انحصار کرے گا۔اس طرح سنکیانگ کے لیے پاکستان بنیادی تجارتی راہ داری بن جائے گا۔یہ بھی پیش نظر رہے کہ سنکیانگ کا اسٹرٹیجک محل وقوع بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔یہ خطہ چین کو جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مربوط کرتاہے۔سنکیانگ میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان رابطے اورکاروبار کا مرکز بن جائے۔سنکیانگ کی صنعتوں کی پیداوار کو گوادر کے راستے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو برآمد کیے جانے کا منصوبہ ہے۔شاہراہِ قراقرم ان تمام علاقوں کے درمیان رابطے کا واحد زمینی راستہ ہے جس پر محفوظ سفر یقینی بنانا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اور بالخصوص صدر آصف علی زرداری کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے علاقائی تعاون کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی۔پاکستان اور افغانستان کے مابین ایک معاہد ہ طے پایا جس کے تحت اسے پاکستان کے زمینی راستے سے بھارت کو برآمدات کرنے کی اجازت دی گئی۔اس کے بدلے میں افغانستان نے پاکستان کو وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارت کی رسائی دی ۔ ایران سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ شروع کیا گیا اور گوادر چین کے حوالے کیا تاکہ وہ اسے فعال اور منافع بخش بندرگاہ بناسکے۔صدر زرداری نے چین کے ساتھ روایتی دفاعی تعلقات کا رخ کاروبار اور تعمیراتی سرگرمیوں کی طرف موڑا۔ تمام تر لفاظی اور شاعری کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ پاک چین تعلقات میں ابھی وہ گہرائی نہیں جو پاکستان کی زوال پذیراقتصادیات کو سہارا دے سکے۔اگلے برس افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء ہوجائے گا تو ہر سال پاکستان کی نذرکیے جانے والے اربوں ڈالر کا سلسلہ بھی بند ہوجائے گا۔چین کسی بھی ملک کونقد روپیہ فراہم نہیں کرتا بلکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتاہے۔2008ء میں اسلام آباد نے بیجنگ سے درخواست کی کہ وہ عالمی بینک سے اسے 7.5ارب ڈالر کا قرض آسان شرائط پر دلانے میں مدد دے۔چین نے جوابی طور پانچ سو ملین ڈالر پیش کردیئے ۔دوسری جانب یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک میں باہمی تجارت کا حجم کافی کم ہے ۔ چین کی فلپائن سے تجارت کا حجم پاکستان سے تین گنا زیادہ ہے ۔ ابھی تک پاکستان کی یہ بڑی سفارتی کامیابی تصور کی جاتی ہے کہ اس نے امریکا اور چین دونوں کے ساتھ تعلقات میں تواز ن برقرار رکھا ۔اس وقت بھی یہ توازن برقراررکھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے اندر امریکا کے خلاف جذبات میں شدت ہے اور چین کی طرف جھکائو بھی بہت ہے۔ یہ پیش نظر رہے کہ چین امریکا کے ساتھ کسی بھی قسم کے تصادم میں نہیں الجھانا چاہتابلکہ وہ امریکا کے ساتھ افغانستان اور پاکستان میں تعاون چاہتاہے تاکہ ان دونوں ممالک میں امن قائم ہو۔شدت پسندی کا خاتمہ ہو تاکہ چینی مسلمانوں پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں اور وہ آسانی کے ساتھ قومی دھارے میں شامل ہوں اورعلیحدگی کی تحریک کی حمایت نہ کریں۔ ہماری نئی حکومت کو اعلیٰ ترین سطح پر یہ کوشش کرنا ہوگی کہ چین پاکستان میں زیادہ سے زیادہ براہ راست سرمایہ کاری کرے ۔محض مفاہمت کی یادداشتوں پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا۔راہ داری کے منصوبے کی تکمیل میں بہت سے خطرات پوشیدہ ہیں جن سے نبردآزما ہونے کی ابھی سے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔کئی ایک طاقتیں اسے سبوتاژ کرنا چاہیں گی جنہیں حکمت کے ساتھ ناکام بنانا ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں