شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے نائب امیر ولی الرحمن کی ڈرون حملے میں ہلاکت نے طالبان کے ساتھ مصالحت کی حکومتی کوششوں کو زبردست دھچکا لگایا ہے۔ میاں نوازشریف نے برسراقتدارآنے سے قبل ہی تحریک طالبان کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔مولانا سمیع الحق‘ جو طویل عرصے سے سیاسی منظرنامے سے غائب تھے،نہ صرف دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں بلکہ موصوف نے فرمایا ہے : طالبان میری باپ کی طرح عزت کرتے ہیں۔مولانافضل الرحمن بھی لنگوٹ کس کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مشق فرمارہے ہیں۔جماعت اسلامی‘ جو کہ طالبان میں زیادہ مقبول نہیں ،بھی خیبر پختون خوا حکومت کا حصہ ہے۔طالبان سے مذاکرات کی پرچم بردار تحریک انصاف عملاً خیبر پختون خوا میں برسراقتدار آچکی ہے ،محض رسمی کارروائی باقی ہے۔امریکہ خود افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع کرچکا ہے جبکہ افغان صدر حامد کرزئی طالبان کے ساتھ مکالمہ شروع کرنے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بری طرح بے تاب ہیں۔ بظاہر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ماحول ہر طرح سے سازگار تھا۔اس کے باوجود امریکہ نے ڈرون حملہ کرکے مذاکراتی فضاہی بدل ڈالی۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟تحریکِ طالبان‘ جو پہلے ہی مذاکراتی عمل کو شک کی نظر سے دیکھتی تھی‘ اب غالباًاس عمل سے کنارہ کش ہوجائے گی‘ نہیں تو داخلی انتشار کا شکار ہوجائے گی۔دوسری جانب امریکہ نے نوازشریف اور عمران خان کے لیے داخلی سطح پر سخت مشکلات پیدا کردی ہیں۔دونوں جماعتیں ڈرون حملوں کی سخت مخالف ہیں اور پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔چودھری نثار علی خان ،جو وزارت داخلہ کا منصب سنبھالنے کو ہیں ،بڑی شدومد کے ساتھ ڈرون حملوں کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ چند دن پہلے امریکی صدر بارک اوباما نے کہا تھا کہ جب تک امریکی افواج کا انخلا مکمل نہیں ہوجاتا اس وقت تک خطّے میں ڈرون حملے جاری رہیں گے‘ البتہ یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ان حملوں میں عام شہر ی ہلاک نہ ہوں۔غالباً اسی محتاط پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ محدود ہوچکاہے اور صرف منتخب اہداف کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس حملے کی مذمت کی لیکن حقیقت میں سرکاری ادارے خوش ہیں۔ ولی الرحمن ایک بہت بڑا ہدف تھے۔انہیں تحریکِ طالبان کا دوسرا اہم ترین کمانڈر تصور کیا جاتاتھا۔پاکستان کو امریکہ سے شکایت رہتی تھی کہ وہ صرف ان طالبان کمانڈروں کے خلاف ڈرون حملے کرتاہے جو افغان حکومت کے خلاف لڑتے ہیں‘ جبکہ پاکستان مخالف طالبان کی سرگرمیوں کو نظرانداز کردیتاہے۔ ولی الرحمن کی ہلاکت سے تحریکِ طالبان کی تنظیم اور سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچاہے جو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے بڑا ریلیف ہے۔ تحریکِ طالبان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اوران کے سرکردہ کمانڈروں کا قلع قمع کرنے میں ڈرون حملوں نے اہم کردار ادا کیا۔بیت اللہ محسود جیسا جنگجو‘ جس کے ہاتھ بے گناہ پاکستانیوںکے خو ن سے رنگے ہوئے تھے‘ ڈرون حملے میں مارا گیا۔الیاس کشمیری‘ جو پاکستان کی دفاعی تنصیبات پر حملوں کا ذمہ دار تھا‘ بھی ڈرون حملے میں جاں بحق ہوا۔امسال جنوری میں ایک ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر ملا نذیر ماراگیا۔جذباتی قصے کہانیاں برطرف‘ ڈرون حملوں نے تحریک طالبان کی کمر توڑی۔ ایک معروف صحافی‘ جو شدت پسندوں کی سرگرمیوں کا بڑی توجہ سے مطالعہ کرتے ہیں،نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ پاکستان میں 338 ڈرون حملوں میں 50 اہم القاعدہ رہنما ہلاک ہو چکے ہیں۔اسلام آباد میں شمالی وزیرستان کے طلبہ سے ملاقات میں بھی یہ احساس ہوا کہ ڈرون حملوں کے بارے میں ان کا تاثر کافی مختلف ہے۔ان میں سے کئی ایک اسے شدت پسندوں کے خلاف کارگر ہتھیار قراردیتے ہیں۔ ولی الرحمن کی ہلاکت کے بعد اب تحریکِ طالبان کی اعلیٰ قیادت بُری طرح تنہا اور خوف زدہ ہے۔ان کے ساتھی ایک ایک کرکے ہلاک کردیے گئے ہیں۔ ہر وقت موت کے سائے ان کے سروں پر منڈلاتے ہیں۔دوسری جانب افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ان کے پاس کوئی ایسا جادوئی نظریہ نہیں جس کی بنیاد پر وہ لوگوں کو اکٹھا کرسکیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور دانشور جب پاکستان میں امن کے قیام کی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں تووہ یہ تلخ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ یہ مسئلہ محض پاکستان کی حکومت اور چند گروہوں کے مابین صلح سے حل نہیں ہوگا بلکہ اسے وسیع تر علاقائی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔تحریکِ طالبان کو ئی آزاد اور خودمختار گروہ نہیں۔ اس کا ایجنڈا بہت وسیع ہے اور وہ عالمی انتہاپسند گروہوں کے نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان میں طاقت کے ذریعے شریعت کا نفاذ چاہتی ہے۔ ان کوششوں میں وہ پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی جان لے چکی ہے ۔ علاوہ ازیں وہ افغانستان میں جاری جنگی کارروائیوں سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے کے لیے تیار نہیں ۔وہ پاکستانی فورسز کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کرنے کے لیے بھی آمادہ نہیں ۔ وہ پاکستان کے اندر ایک مخصوص فرقے کے پیروکاروں کی نہ صرف مخالف ہے بلکہ ان کے خلاف مسلسل حملے کیے جارہے ہیں تاکہ وہ خوف زدہ ہوکر ملک سے فرار ہوجائیں یا پھر اپنی مذہبی شناخت بدل دیں۔صرف کراچی میں گزشتہ چار ماہ میں 69 افراد فرقہ وارانہ حملوں میں مارے گئے۔پشاو رمیں شیعہ آبادی والے علاقے میں موٹر سائیکل سواروں نے حملہ کرکے شہریوں کو ہلاک وزخمی کیا۔ان حملوں کے پس منظر میں تحریکِ طالبان سے منسلک گروہوں کا ہاتھ بتایا جاتاہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صور تحال سے کیسے باہر نکلا جائے؟اس کا حل جامع علاقائی حکمت عملی کی تشکیل میں مضمر ہے۔یہ تلخ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ پاکستان میں امن کا ہر راستہ کابل سے گزرتاہے۔ کابل میں مضبوط حکومت ہوگی تو وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روک سکے گی۔بھارت کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہوں گے تو وہ افغانستان کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرکے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار نہیں کرے گا۔ عرب ممالک اس علاقائی حکمت عملی میں شراکت دار ہوں گے تو وہ اپنے حامی گروہوں کو لگام دینے میں پاکستان کی مدد کرسکتے ہیں۔ میاں نوا زشریف کو برسراقتدار آکر اس مسئلہ کو وسیع تر علاقائی تناظر میں دیکھنا ہوگا ۔یہ کوئی امن وامان کا مسئلہ نہیں جو اچھی حکومت اور لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرکے حل کیا جاسکتاہو۔اس کے لیے افغان حکومت کے ساتھ اخلاص اور بھرپور مشاورت کے بعد مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ امریکہ کو اس مسئلہ سے علیحدہ کیا جاسکتاہے اور نہ ڈرون حملے روکے جاسکتے ہیں جب تک کہ پاکستان کے زیرانتظام علاقوں میں شدت پسند گروہ موجود ہیں۔ میاں نواز شریف نے جس طرح سچائی کے ساتھ قوم کے سامنے بجلی کے بحران پر بات کی انہیں شدت پسندی کے مسئلہ پر بھی قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا۔یہ مسئلہ مولانا فضل الرحمن یا سمیع الحق کی بساط میں نہیں۔نہ ہی ان حضرات کی کوئی شنوائی ہے۔ لہٰذا ان پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔