پرویز خٹک نے تیس برس تک دشتِ سیاست کی خاک چھانی۔ شب ورو ز ریاضت کی اور بالآخر قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی ۔وہ خیبر پختون خوا میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے ۔ حکمرانی کے لیے یہ پاکستان کا سب سے مشکل صوبہ ہے۔قانون کی حکمرانی ،میرٹ کی بالادستی اور سرکاری خزانے کے دیانت دار ی سے استعمال کے تصورات یہاں بڑے کمزور ہیں۔صوبے کو ،ہر دم بغاوت پر آمادہ لوگوں کو منظم کرنے ،انہیں ایک لڑی میں پرونے اور پھر انہیں اپنی طاقت بنانے کے لیے ،ایک سحرانگیز قیادت کی ضرورت تھی۔ ایسے قائد کی ضرورت، جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا۔وہ کھڑا ہوتا تو کوئی بیٹھ نہ پاتا۔ اشارہ کرتا تو بے ہنگم ہجوم ساکت ہوجاتا مگر پرویز خٹک کو دیکھتاہوں تو وہ سندھ کے قائم علی شاہ کی طرح عام سے وزیراعلیٰ نظر آتے ہیں۔حاکم کم اور صدر انجمن تاجران کی طرح سیدھے سادے زیادہ۔ کاش! عمران خان خود وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالتے۔ شہباز شریف کے مقابلے میں خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ کا سیاسی قد کاٹھ ہوتا۔ لوگوں کے دلوں پر خان کا سکہ چل چکاہے۔وہ رعب دار اور دبنگ شخصیت کے مالک ہیں۔انہیں ڈرایا جاسکتاہے نہ بہکایا۔نوکر شاہی دب کے رہتی۔بے لگام وزراء پر حاکم اعلیٰ کی ہیبت طاری رہتی۔صوبے میں نیا جوش وولولہ پیدا ہوتا۔نوجوان متحرک ،شدت پسندوں کے حوصلے پست اور نوجوانوں کے لیے متبادل سرگرمیوں کے لیے فضا سازگار ہوتی۔ تحریک انصاف کا مقابلہ شہباز شریف سے ہے جو لگ بھگ آٹھ برس تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔پنجاب ایک منظم صوبہ ہے۔یہاں انتظامیہ کا کنٹرول موثر اور نوکر شاہی فعال ہے۔شہباز شریف ایک متحرک وزیراعلیٰ ہیں۔ انہیں ترقیاتی سرگرمیوں کو تیزی سے مکمل کرانے اور حکومت کی عمل داری قائم کرنے کا طویل تجربہ حاصل ہے۔اسلام آباد میں نون لیگ کی حکومت ہونے کے باعث انہیں بیرونی سرمایہ کاری لانے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ترقیاتی منصوبوںکے لیے مالی وسائل کے حصول میں بھی کوئی دقت نہیں۔ نو ن لیگ جان چکی ہے کہ ووٹ اب کارکردگی پر ملتا ہے۔ پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ موجودہ طرز حکومت سے بیزار اور بغاوت پہ آمادہ ہے۔لہٰذا نون لیگ کا سارا زور ترقیاتی کاموں پر ہے۔وہ پاکستان کا نقشہ بدلنے کا عزم رکھتے ہیں۔نوا زشریف کی حالیہ ہفتوں کی سرگرمیوں کا محور توانائی کے بحران کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتے گزراہے۔ان کا سارا زور پاکستان میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے عہد کا آغاز کرنے پرہے۔پنجاب اور بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت ہے ،لہٰذا وہ ڈٹ کر ان صوبوں میں روزگار کی فراہمی اور انفراسڑکچر کی تعمیر پر زور دیں گے۔ اس کے برعکس خیبر پختون خوا ایک پسماندہ صوبہ ہے۔گزشتہ بتیس برس سے افغانستان میں جاری جہاد اوربعد ازاں جاری شورش نے سب سے زیادہ صوبہ سرحد کو متاثر کیا۔قبائلی علاقے میں عملاً جنگ جاری ہے۔دہشت گردی کے کئی ایک نیٹ ورک صوبے میں متحرک ہیں۔عالمی اور علاقائی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی سرگرم ہیں۔ہر کوئی اس صوبے کو غیر مستحکم کررہاہے۔ عمران خان کو ایک خستہ حال اور بکھرا ہوا صوبہ ملا ۔انتظامیہ مفلوج ہے اور نوکرشاہی کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ نے پورے نظام کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں۔دوست اور دشمن کی تمیز عنقا ہے۔ طالبان اور ان کے حامی دینی مدارس کے علاوہ ہر طرح کے تعلیمی ادارے تباہ کرتے رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ تعلیم میں یہ صوبہ نہایت ہی پسماندہ ہے۔ ایک کروڑ اسی لاکھ کی آباد ی میں محض35.3 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔19 فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گزار تے ہیں۔بیس لاکھ سے اوپرافغان مہاجرین مستقل طور پر آباد ہیں۔ صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔جو تھوڑی بہت صنعتیں تھیں وہ بھی پنجاب منتقل ہوچکی ہیں۔سرمایہ کار دوبئی یا اسلام آباد ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ٹیکس کا رواج نہیں۔صوبے کے اپنے مالی وسائل محدود اور چیلنج لامحدود ہیں۔این ایف سی ایوارڈ کے بعد وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا لیکن سکیورٹی ادارے اور پولیس پر اٹھنے والا بے محابا خرچ صوبے کا خزانہ چاٹ جاتاہے۔ماضی کے ہر وزیراعلیٰ نے اپنے اپنے انتخابی حلقوں کو نوازا۔ پورے صوبے کی تعمیر وترقی پر توجہ نہیں دی گئی۔ عالمی اداروں کو یہاں کام کرنے نہیں دیا جاتا۔خیبر پختون خوا کے دور دراز علاقوں کا تو ذکر ہی کیا، پشاور کے لیے بھی ویزے کا حصول جوئے شیر لانے کے متراف ہے ۔غیر سرکاری اداروں بالخصوص ترقیاتی این جی اوز کے کارکنوں پر حملے کیے گئے حتیٰ کہ وہ پاکستان سے بھاگ نکلیں۔ اب امریکہ اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا ء شروع ہوچکاہے۔وہ پاکستان کی مالی امداد میں کٹوتی کرنے کو بے تاب ہیں ۔بتدریج اگلے چند سال میں پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد بہت محدود ہوجائے گی۔دوسری جانب عمران خان ڈرون طیاروں کو گرانے کے پرچم بردار بن چکے ہیں۔وہ حزب اختلاف کی سیاست کرنے کے عادی ہیں۔ آداب حکمرانی سیکھنے میں انہیں وقت لگے گا۔ وہ امریکہ سے ٹکرائو کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا کے پی کے، کے لیے مغربی ممالک یا عربوں سے مالی امداد کے پیکجز کی توقع سادہ لوحی ہوگی۔ محض نمائشی اقدامات سے جوہر ی تبدیلی نہیںآتی۔پرویز خٹک کہتے ہیں : میں وزیر اعلیٰ ہائوس میں قیام نہیں کروں گا۔میاں نوا زشریف نے اعلان فرمایا :وزیراعظم ہائوس کے بجائے پنجاب ہائوس میں قیام کروں گا۔وہ وقت لدگیا جب لوگ ایسے بیانات سے بہل جاتے تھے۔سیاسی اور سماجی رویوں میں تبدیلی محض نمائشی اقدامات سے ممکن نہیں ،اس کے لیے بنیادی پالیسی تبدیلی کرنا ہوگی تاکہ حقیقی تبدیلی لائی جاسکے۔ عمران خان کی تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ خیبر پختونخوا میں امن وامان بحال کریں۔ شہریوں کا انتظامیہ پر اعتماد بحال کریں۔ شدت پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کریں۔ جو جنگجو مذاکرات اور مکالمے پر آمادہ نہیں،دفاعی اداروں کی مدد سے ان کا قلع قمع کیا جائے۔ایک بار خیبر پختون خوا اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا، وہاں امن قائم ہوگیا، جرائم پر قابو اور شدت پسندوں کو غیر موثر کردیا گیا تو پاکستان کے آدھے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔اس بدقسمت صوبے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت عمران خان میں بہ درجۂ اتم پائی جاتی ہے۔وہ یہ معجزہ کرکے دکھاسکتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنا زیادہ وقت پشاور میں گزاریں۔صوبائی معاملات کی خود نگرانی کریں اور حکومت کو مسلسل مشاورت فراہم کریں۔اتحادی جماعتوں کی قیادت سے رابطہ رکھیں۔ پرویز خٹک کو بھی ان کی بھرپور حمایت درکار ہوگی تاکہ وہ بغیر کسی بلیک میلنگ کے حکومت چلاسکیں۔