عام انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی سرگرمی کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہوا لیکن آفٹر شاکس ابھی تک جاری ہیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں وزیر،مشیر اور اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے خواہش مند ایڑی چوٹی کا روز لگا رہے ہیں۔ہر ایک اپنی قربانیوں کی دہائی دے رہاہے۔شریف خاندان سے وفاداری کا واسطہ دیا جاتاہے اور نون لیگ سے پرانی اور خاندانی وابستگی کو بڑھاچڑھا کر بیان کیا جاتاہے۔شہروں میں ہر چوک کی نکڑ پر میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے ہمراہ تصویروں والے پوسٹر اور بینر لگ چکے ہیں۔موٹر وے پولیس کے سربراہ اور حبیب بینک کے حکام کی مسرت اور وارفتگی کا عالم دیکھنے کے لائق ہے ۔ انہوں نے اخبارات میں اشتہارات چھپوا کر وزیراعظم کو مبارک کا پیغام دیا۔ وہ سیاسی کارکن اور رہنما جن کے اپنی جماعتوں میں اعلیٰ سطح کے رابطے نہیں وہ دربدر ہورہے ہیں۔ہر سیاسی جماعت کے اندر ایک طوفان اٹھ رہاہے۔جماعت اسلامی کے امیر سیّد منور حسن نے استعفیٰ پیش کرکے اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ۔اے این پی نے بھی اپنی شکست تسلیم کی لیکن ناکامی کی ذمہ داری حکیم اللہ محسود پر ڈال کر اپنی جان چھڑا لی۔صدر آصف علی زرداری اور مخدوم امین فہیم نے بھی خفیہ ہاتھ کا ذکر کیا۔امین فہیم نے تو ایجنسیوں کو مبارک بھی دی حالانکہ نگران حکومتیں ان کی مرضی سے قائم ہوئیں۔الیکشن مہم کے دوران بھی تمام اداروں پر صدر کا اثر ورسوخ سب سے زیادہ رہا۔اس کے باوجود وہ شکوہ کررہے ہیں۔ اکثر جماعتوں کے کارکن اور نظرانداز شدہ رہنما صدمے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔اسمبلیوں کے ٹکٹ ’اندھا بانٹے روڑیاںوہ بھی اپنے اپنوں کو‘ کے مصداق درجنوں کی تعداد میں سگے بہن بھائی ،میاں بیوی حتی کہ باپ بیٹاقومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ خواتین کی نشستوں پر بھی میرٹ کے بجائے دوستوں اور رشتے داروں کو ترجیح دی گئی۔نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے رشتے داروں کو نوازنے کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑڈالے۔ جماعتوں کے سینکڑوں ایثار کیش کارکن ہاتھ ملتے رہ گئے۔اسی کو کہتے ہیں: ع منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے میاں محمد اظہر نے قاف لیگ بنائی۔ 2002ء کے عام انتخابات میں وہ جماعت کے صدر تھے ۔ایک سازش کے تحت انہیں لاہور سے الیکشن میں ہرانے کا بندوبست کیاگیا اور بعد میں ان کا مکو ٹھپ دیا گیا۔ بتدریج وہ منظر سے غائب کردیئے گئے اور چودھری برادران اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوگئے۔ ملکی سیاسی تاریخ جماعتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے اٹی پڑی ہے۔پیپلزپارٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی قیادت سنبھالی تو ’انکلوں‘ کو میوزیم کی زینت بنادیا گیا۔ غلام مصطفٰے جتوئی ،غلام مصطفے کھر اور ممتاز بھٹو جیسے سینئر سیاستدانوں نے پیپلزپارٹی چھوڑی دی۔ کیسے کیسے سیاستدان شہرت کے افق سے ٹوٹے اور گوشہ گمنامی کی نذرہوگئے۔بعض تو بلدیاتی انتخابات جیتنے کے قابل بھی نہ رہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔بھارت میں کانگریس پارٹی کو قابل اور ذہین سیاستدانوںکا قبرستان کہا جاتاہے۔جو بھی شخصیت قومی سطح پر ابھرنے لگتی ہے اسے علاقائی سیاست تک محدود کردیا جاتا یا پھر کانگریس کے اندرغیر موثر بنادیا جاتا ہے تاکہ نہروخاندان کے لیے کوئی چیلنج پیدا نہ ہو۔ من موہن سنگھ جیسی ’بورنگ‘ شخصیت کو دو مرتبہ وزیراعظم بنایاگیا۔ وہ شعلہ بیان مقرر ہیں نہ اچھے منتظم ۔ان کے وزرا ء اربوں روپے کی مالیاتی کرپشن میں ملوث پائے گئے مگر وہ ان کے خلاف علامتی نوعیت کا ایکشن بھی نہ لے سکے۔برصغیر کی نفسیات میں چاپلوسی اور خوشامد رچ بس چکی ہے۔ سردار عبدالقیوم خان کہا کرتے تھے: انسان چالیس دن تک بھوکا پیاسا زندہ رہ سکتاہے بشرطیکہ اسے ایک اعلیٰ پائے کاخو شامدی دستیاب ہو۔ سیاستدان ذاتی وفاداراور تابع فرمان افراد کواعلیٰ جماعتی عہدوں پر فائز کرتے ہیں۔نکتہ چینی کو پسند نہیں کیا جاتالہٰذا قابل اور محنتی لوگوں کو اس ’کارخانے‘کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔جو شامل ہوجاتے ہیں وہ جلد ہی مایوس ہو کر کوئی گوشہ عافیت ڈھونڈ لیتے ہیں‘ جماعتی پالیسیوں پرتبرا بازی کرتے ہیں‘ میڈیا اور احباب سے داد پاتے ہیں۔جو زیادہ جوشیلے ہیں وہ پارٹی رہنمائوں کو دوغلہ قراردے کر دوسری جماعتوں میں پناہ تلاش کرتے ہیں مگر وہاںبھی مقام بنانا اور جماعتی قیادت کا اعتماد اور قرب حاصل کرنا سہل نہیں ہوتا۔ عام طور پرجماعتوں میں چاپلوسوں کا ایک گروہ پارٹی قیادت کے گرد مضبوط حصار قائم کیے رکھتاہے ۔ نئے لوگوں کو اندرونی حلقے میںداخل ہی نہیں ہونے دیاجاتا۔ سوال یہ ہے کہ دلبرداشتہ ہوکر کنارہ کشی اختیارکرلی جائے یا پھر کسی دوسری جماعت میں قسمت آزمائی کی جائے۔افلاطون کو علم سیاست کا جد امجد کہا جاتاہے۔ اس کاقول ہے کہ سیاست سے کنارہ کشی کا انجام یہ ہوگا کہ تم سے کم تر لوگ اٹھ کر تم پر حکومت کرنے لگیں گے۔ صدیوں کے مشاہد ے اور تجربے نے ثابت کیا ہے کہ سماجی تبدیلی کا سب سے موثر اور تیز رفتار ہتھیار سیاست ہے۔معاشرے کے فعال طبقات کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاسی حرکیات کا گہرا ادراک نہیں رکھتے ۔یہ ایک کھیل ہے جسے شطرنج کی طرح کھیلا جاتاہے۔یہاں دوست نہیں اتحادی ہوتے ہیں جن کے سینے میں دل نہیں مفاد ہوتا ہے۔ اسی لیے سیاست کو بے رحم کھیل کہا جاتارہا جو صبر آزما ہے اور مسلسل جدوجہد کا تقاضا کرتاہے۔ یہاں صلہ بھی ملتاہے مگر بسااوقات وقت بہت لگ جاتاہے۔ پڑے لکھے ، ذہین اور اصولوں سے وابستگی کے دعوے دار چاہتے ہیں کہ سیاست کو کتابی اصولوں کے مطابق چلایا جائے۔صحافی اور تجزیہ کار سیاستدانوں کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتے ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ سیاستدان اپنے ماحول کے قیدی ہوتے ہیں۔وہ ایک مخصوص فضا میں جیتے ہیں‘ اسی میں فیصلے کرتے ہیں۔کم ہی لوگ اس سے اوپر اٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔تبدیلی اور اصولوں کے پرچارک جلد اکتا جاتے ہیں۔وہ فوری نتائج چاہتے ہیںجب کہ سیاست آخری تجزیے میں بہت ہی مقامی شے ہے۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر جاری مباحث اس کو متاثر ضرور کرتے ہیں لیکن وہ فیصلہ کن عوامل نہیں ہوتے۔گزشتہ چند ماہ میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا شروع کی جو ایک زبردست مثبت رجحان ہے جسے قائم رہنا چاہیے۔روایتی سیاسی نظام میں اس طرح کے لوگوں کی گنجائش کم ہے لیکن اگر وہ ہمت نہ ہاریں اور جمے رہیں تو بتدریج جماعتوں کو اندر سے تبدیل کرسکتے ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ مڈل کلاس سیاست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔بددل اور مایوس کارکنوں کے لیے مفت مشورہ حاضر ہے : ع پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ!