"IMC" (space) message & send to 7575

پرویز خٹک بمقابلہ شہباز شریف

ایک خبر کے مطابق خیبر پختون خوا کے نو منتخب وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ صوبے میں ایسی شاندار حکومت قائم کروں گا کہ لوگ شہباز شریف کو بھول جائیں گے۔پیپلزپارٹی کے سینئر راہنما سینیٹر رضا ربانی فرماتے ہیں :سندھ میں پیپلزپارٹی مثالی حکومت قائم کرے گی۔ چوراسی سالہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے دو ارب ڈالر کی لاگت سے کراچی میں سرکلولرریلوے کا منصوبہ شروع کرنے کامژدہ سناتے ہوئے کہا:کراچی کے شہری شہباز شریف کی میٹرو بس کو بھول جائیں گے۔ مذکورہ بیانات سے عیاں ہوتا ہے کہ آج کے پاکستان میں ووٹ اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے جماعتوں اور شخصیات کو کارکردگی کے پیمانے پر پرکھا جانا شروع ہوچکا ہے۔ دنیا میں کئی ممالک ہیں جو دہشت گردی اور کرپشن جیسے مسائل کے باوجود ترقی کررہے ہیں۔مثال کے طور پربھارت جس کی ترقی کا شہرہ چاردانگ عالم میں پھیلا ہوا ہے ۔ بھارت کے ایک سو بیس ضلعوں میں پولیس یا انتظامیہ قدم نہیں رکھ سکتی ۔خود وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا کہ مائو نواز باغیوں سے ملک کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔سابق سیکرٹری داخلہ جے کے پلائی نے خدشہ ظاہر کیاکہ 2025ء تک مائو نواز باغی دہلی پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ بھارتی قیادت نے یہ راز پالیا ہے کہ پورا ملک یکساں ترقی نہیں کرسکتا نہ ہی شورش زدہ علاقوں میں مکمل امن بحال کیا جاسکتاہے۔لہٰذا جو علاقے تیز رفتار ترقی کے لیے موزوں ہیں وہاں قسمت آزمائی جائے۔ بھارت کی اقتصادی حالت سست روی کا شکار ہے لیکن چند ریاستیں جن میں گجرات ،بہار، مہاراشٹرااور اُڑیسہ شامل ہیں تیزی سے ترقی کررہی ہیں‘ انہیں ’کمائو پوت‘ کہا جاتاہے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں دارالحکومت دہلی کے معاشی پنڈتوں کے پاس کوئی آئیڈیا نہیں جو ملکی معیشت میں آنے والی گراوٹ کا مداوا کرسکے۔اب ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ امریکی ریاستوں کے گورنروں کی طرح مضبوط اقتصادی ڈھانچہ اور سازگار ماحول فراہم کریں تاکہ بھارت ترقی کرتاہوا نظر آئے۔اس ضمن میں انہیں مرکزی حکومت بھرپور تعاون بھی فراہم کرتی ہے۔ 2000ء تک بھارت کی علاقائی جماعتیں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرتی تھیں۔ کم ہی اچھی حکومت کی فراہمی یا عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کا وعدہ کیا جاتا۔ مرکزی حکومت کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی کہ وہ شہریوں کی فلاح وبہبود کے منصوبے بنائے۔بتدریج علاقائی جماعتوں کو احساس ہوا کہ اگر وہ عوامی بھلائی کے منصوبے بنائیں تو انہیں سیاسی فائدہ حاصل ہوسکتاہے؛ چنانچہ شہریوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے ریاستی وسائل کا منہ کھول دیا گیا۔ عالیشان سڑکیں، شاپنگ مال اور آسمان کو چھوتی عمارتوں کی تعمیر نے گجرات ،بہار اور چند ایک دوسری ریاستوں کی کایا پلٹ دی۔مسابقت کا ماحول پیدا ہوا۔ اُڑیسہ اور مہاراشٹرا کی حکومتوں نے روزگار، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ مرکوز کی۔رفتہ رفتہ لوگ مذہب اور ذات پات کے تعصبات سے اوپر اٹھ گئے اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینے لگے۔ نریندر مودی کو دنیا جو بھی کہے انہوں نے گجرات کو حیرت انگیز تیز رفتاری سے ترقی دی۔ گجرات کے دارالحکومت احمدآباد کو دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ٹائم میگزین نے مودی پر کورسٹوری چھاپی تو دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔بجا طور پرلوگوں نے اعتراض کیا کہ وہ گجرات میں مسلم کش فسادات کے ذمہ دار ہیں ۔ ٹائم نے لکھا : گجرات ایک ماڈل ریاست ہے جہاں شہریوں کو بجلی،پینے کا صاف پانی اور نسبتاً فعال انتظامیہ دستیاب ہے۔ کل تک کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاتھا کہ ایک دن اُڑیسہ کا شمار بھی بھارت کی تیزی سے ترقی کرنے والی ریاستوں میں ہوگا۔ یہ ریاست آٹھ فیصد سے اوپر کی شرح سے ترقی کررہی ہے ۔یہ معجزہ محض اس لیے ممکن ہوا کہ ایک امریکا پلٹ انجینئر نوین پتائک نے ریاست کے معدنی اور قدرتی وسائل کا دیانت داری اور ذمہ داری سے استعمال کیا‘ بدعنوانی پر قابو پایا اور انتظامیہ کو جوابدہ بنایا۔ یہ ریاست 165بلین ڈالر کی سرمایا کاری کے معاہدے کرچکی ہے جن میں سے بارہ ارب ڈالر صرف اسٹیل میں لگنے ہیں۔ایک بین الاقوامی جریدے سے اخذ کیے گئے ان ہوش ربا اعدادوشمار پر یقین نہیں آتا‘ اگرچہ غلطی کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2005ء میں نتیش کمار نے وزارت اعلیٰ سنبھالی تو بہار کا دارالحکومت پٹنہ اغوا کاری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ تبدیلی لانے کے لیے نتیش کمار کے پاس کو ئی راکٹ سائنس نہیں تھی ۔ سادہ اطوار اور پختہ سیاسی عزم کا حامل وزیراعلیٰ انتظامیہ کی پشت پر چٹان کی مانند ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ جلد از جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی خاطر ججوں کو تحفظ فراہم کیا گیا۔جلدی فیصلے کرنے والی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔ انہی عدالتوں نے جو کل تک مجرموں کے سامنے بے بس تھیں اسی ہزار مجرموں کو سخت ترین سزائیں دیں۔ جرائم کا گراف گر گیا۔شہریوں کو تحفظ ملا تو سرمایہ کاری شروع ہوگئی ۔رفتہ رفتہ زراعت اور صنعتی ترقی کا پہیہ رواں ہوگیا۔ بہار آج نہ صرف خوراک میں خودکفیل ہے بلکہ زرعی اجناس کا برآمد کنندہ بھی بن چکا ہے۔ بھارت میں ریاستوں کے مابین دولت ،ترقی اور خوشحالی میں مسابقت کا ماحول پیداکرنے میں ذرائع ابلاغ نے نمایاں کرداراداکیا ۔ لوگ مودی اور نتیش کمار کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔ کارکردگی کی بنیادپر مودی کو بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) نے انتخابی مہم کا انچارچ مقرر کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اگلے برس ہونے والے چنائو میں بی جے پی کامیاب ہوئی تو مودی وزیراعظم ہوں گے۔ اتفاق سے آج کل پاکستان کے دوبڑے صوبوں خیبر پختون خوا اور سندھ میں نون لیگ کے بجائے تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ہمسایہ ممالک کے تجربات سے سبق سیکھیں تو وہ اپنے صوبوں کے عوام کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ چند سالوں میں سندھ اور خیبر پختون خوا اپنے بے پناہ قدرتی وسائل اور محل وقوع سے فائدہ اٹھاکر نہ صرف خوشحال صوبے بن سکتے ہیں بلکہ علاقائی تجارت کا مرکز بننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ نون لیگ کی حکومت کو پنجاب میں اپنی کارکردگی مزید بہتر کرنا ہوگی تاکہ وہ دیگر صوبوں کے لیے مثال بن سکے۔خیبرپختون خوا عمران خان کی تحریک انصاف کے لیے ایک تجربہ گاہ ہی نہیں بلکہ امتحان گا ہ بھی ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکتے ہیں۔ کامیابی کی صورت میں پورا ملک ان کی امامت قبول کر سکتا ہے۔ناکامی کی صورت میں وہ عوامی نیشنل پارٹی کی مانند حرفِ غلط کی طرح مٹ سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی سندھ میں کارکردگی کا مظاہرہ کرکے قومی سیاسی منظرنامے پر ازسر نو ابھر سکتی ہے ورنہ قاف لیگ کی طرح وہ بھی تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوجائے گی۔ امکانات اپنی جگہ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ راست گو محمود خان اچکزئی کو موقع ملا تو انہوں نے اپنے بھائی کو بلوچستان کا گورنر نامزد کردیا۔ لگ بھگ تمام سیاستدان غیر اعلانیہ طور پر ایک نکتے پر متفق ہیں کہ سرکاری اور منفعت بخش عہدوں پر قریبی عزیزوں کے سوا کسی کو مامور نہ کیا جائے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو بیدار رہنا ہوگا تاکہ ان رجحانات کی مزاحمت کی جاسکے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں