"IMC" (space) message & send to 7575

سب کچھ بکھر رہاہے

آہ! زیارت میں قائداعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ جل کر خاکستر ہوگئی۔چھ برس کی صاحبزادی حرین نے ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر بے ساختہ پوچھا : ان لوگوں نے اپنے بابا کے گھر کو کیوں تباہ کیا؟ان طالبات کا کیا قصور تھا جنہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا؟جواب دینے کے بجائے میں دیر تک ندامت سے سر جھکائے کھڑا رہا۔جواب دیتا بھی کیا۔ہم نے اپنے بچوں کو ایک ایسا پاکستان دیا جہاں بانیٔ پاکستان کی آخری آرام گاہ تک محفوظ نہیں۔ علم اور روشنی کاہر دیا بجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ملالہ یوسف زئی خوش قسمت تھی کہ جان لیوا حملے میں بچ گئی لیکن کوئٹہ کی سردار بہادر خان خواتین یونیورسٹی کی چودہ طالبات موت کے سودا گروں کے ہاتھوں نقد جاں ہار گئیں۔ شدت پسند چاہتے ہیں کہ لوگ بچیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے احتراز کریں تاکہ مستقبل کی مائیں علم کے نور سے محروم ہوجائیں ۔ سوشل میڈیا پر کچھ سادہ لوح یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا کام نہیں ۔ شدت پسندوں کی شان میں قصیدے لکھے جاتے ہیں۔بڑی ڈھٹائی سے دہشت گردی کے اقدامات کا جواز پیش کیاجاتاہے ۔ انتہا پسندوں کے حامی سیاست،میڈیا اور کاروباری طبقہ میں نہ صرف موجود بلکہ فعال اور موثر بھی ہیں۔ ہرروزچندہ اکٹھا ہوتاہے۔رسائل وجرائد چھپتے ہیں۔نفرت پھیلانے والی کتابیں سر عام بکتی ہیں۔کوئی پوچھنے یا روکنے والا نہیں۔ ریاست کا سارا ڈھانچہ مفلوج ہوچکا ہے۔عوام کے جان ومال کا کوئی محافظ نہیں۔ اکثر سرکاری اہلکار مقتدرحلقوں کی چاپلوسی میں مصروف ہیںیا پھر مال بٹور نے میں۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ سب کچھ بکھر رہاہے۔ کراچی اور بلوچستان میں آسانی سے امن نہیں ہونے دیا جائے گا۔اغیار نہیں چاہتے کہ پاکستان معاشی طور پراپنے پائوں پر کھڑا ہو۔مسلسل داخلی مسائل میں الجھا رہے تاکہ تعمیر وترقی اور معاشی خوش حالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو۔ کراچی اور بلوچستان جو پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان کے قدرتی وسائل اور وہاں دستیاب اقتصادی مواقع سے استفادہ نہیں کرنے دیا جاتا۔ بلوچستان کے منفرد محل وقوع اور بے محابا قدرتی وسائل کی وجہ سے اس صوبے پر روزاوّل سے ’غیروں کی‘ نظر کرم ہے ۔ منصوبہ بندی سے یہاں پاکستان مخالف ماحول پیدا کیا گیا ۔پچاس کی دہائی میں بائیں بازو کے زیراثر سوویت یونین کے حامیوں نے پنجاب کی مخالفت کے عنوان سے عام لوگوں کا ذہن پراگندہ کیا۔ بعد میں پنجاب اور وفاقی اداروں کی نالائقیوں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا ۔ پے درپے آپریشن اور سرداری نظام نے عام شہریوں کی زندگی اجیرن بنائی۔ زمانہ طالب علمی میںکراچی میں مقیم بلوچ طلبہ میں ملک سے بیزاری اور لاتعلقی کا رویہ دیکھتا تو دل کڑھتا۔ اکثر پاکستان کی بجائے اپنی علیحدہ شناخت پر اصرار کرتے۔ ڈاکٹر مالک کی بطور وزیراعلیٰ تقرری قابل تحسین سہی لیکن وہ تنہا بلوچستان کے حالات سدھار سکتے ہیں اور نہ سیاسی فضا بدل سکتے ہیں۔وہ اسی وقت قوم پرستوں کو نظریاتی محاذ پر شکست دے سکتے ہیں جب صوبے پر ان کا سکہ رواں نظر آئے۔چند دن پہلے وہ کوئٹہ پریس کلب کے پہلو میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ احتجاجی کیمپ میں اظہار یکجہتی کے لیے تشریف لے گئے۔یہ طرز سیاست دودھاری تلوار کا ہے۔اس کا جزوی فائدہ یہ ہواکہ عام لوگ جو دکھی ہیں‘ وزیراعلیٰ کی توجہ اورہمدردی سے متاثر ہوئے۔ اس طرح کے نمائشی اقدامات کا نقصان یہ ہوا کہ وزیراعلیٰ کی بے بسی آشکار ہوگئی۔حکمران احتجاج نہیں مظلوموں کی دادرسی کرتے ہیں۔ظالموں کا ہاتھ روکتے اور مظلوموں کا سہارا بنتے ہی اچھے لگتے ہیں۔ نو منتخب وزیراعلیٰ کو کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ایک مسئلہ دہشت گردی کا ہے جو ملکی اور غیر ملکی اشتراک سے پروان چڑھی ہے۔ اس کی سرکوبی طاقت ہی سے ہی ممکن ہے۔اصل مسئلہ یہاں پائی جانے والی سیاسی بے چینی ہے جس کا حل مالیاتی پیکج اور متوسط طبقے کے ایک بلوچ سیاستدان کو وزیراعلیٰ بنانے میںنہیں۔مسائل کے حل کے لیے ٹھوس سیاسی پہل قدمی کی ضرورت ہے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ بلوچوں کی مڈل کلاس نے ووٹ نہیں ڈالے۔اکثر بلوچ آبادی والے شہروں اور قصبوں میںووٹنگ کا تناسب بہت کم رہا۔وہ ڈاکٹر مالک کے وزیراعلیٰ بننے پر جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔ ایسے اسباب بھی نہیں جو انہیں قومی دھارے میں شامل ہونے پر آمادہ کرسکتے ہوں۔ جس دن ڈاکٹر مالک نے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا ۔اسی دن پانچ مسخ شدہ نعشیں ملیں۔ الیکشن کے بعد سے اب تک سترہ مسخ شدہ نعشیں مل چکی ہیں۔ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ خوف ودہشت کی موجودہ فضا کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مسابقت کا ماحول پیدا کیا جانا چاہیے۔تمام اسٹیک ہولڈرز کو سیاسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جائے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔قطع نظر اس کے کہ کس کا کیا نظریاتی پس منظر ہے تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو مثبت سیاسی اور سماجی سرگرمیاں کے لیے وسائل اور مواقع فراہم کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔صحت مندانہ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے موجودہ تعفن زدہ فضا کو نئے رخ پر ڈالا جاسکتاہے۔ وزیراعلیٰ کو جرأت دکھانا ہوگی ۔وزیرعلیٰ ہائوس کی بلند فصیلوں سے باہر نکل کر عام شہریوں کے ساتھ ربط وضبط استوار کرنا ہوگا۔میڈیا اور معاشرے کے فعال طبقات کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔اسٹیبلشمنٹ کو اچھا نہیں لگے گا لیکن عام لوگوں کے دل جیتنے کے لیے روایتی طریقوں سے ہٹ کر غیرروایتی ا قدامات کرنے ہوں گے۔شدت پسندوں کے عزائم کو اسی وقت ناکام بنایا جاسکتاہے جب ڈاکٹر مالک رائے عامہ کو متاثر کریں ۔عام شہریوں کے اعتماد میں اضافہ کریں۔ متوسط طبقہ کو زیادہ سے زیادہ ملازمتیں اور کاروبار کے مواقع فراہم کریں۔ امن کے ساتھ عام لوگوں کا مفاد وابستہ ہوگا تو وہ تخریب کاروں کو غیر موثر کرنے میں سرکار کی معاونت کریں گے۔ اتفاق سے بلوچ شہریوںمیں وزیراعظم نواز شریف کا بہت احترام پایاجاتاہے جس کا فائدہ اٹھایا جاناچاہیے۔وزیراعظم کوہر ماہ کوئٹہ جاناچاہیے۔وہاںکابینہ کا اجلاس کریں۔ بہترین سرکاری افسروں کو وہاں خدمات سرانجام دینے پر آمادہ کریں تاکہ لوگوں کے مسائل حل ہوں۔وہ تبدیلی محسوس کریں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ زیارت میں قائداعظم کی آخری آرام گاہ پر بلوچستان لبریشن آرمی کا پرچم لہرانے والے کوئٹہ کے گورنرہائوس پر اپنا جھنڈا لہرادیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں