وزیراعظم میاں نواز شریف کی کاروباری سوجھ بوجھ کا عملی مظاہر ہ شروع ہوچکا ہے۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ وہ ملک میں معاشی انقلاب لانے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ لیکن اتنی بات اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان کے اقدامات کی سمت درست ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد چین بھیجا جارہاہے جو چین اور پاکستان کے مابین جدید ریلوے ٹریک کی تعمیر ،ریلوے کی موجودہ پٹڑی کی بہتری اور ایکسپریس وے بنانے کے منصوبوں پر مذاکرات کرے گا۔ احسن اقبال ایک ذہین اور قابل شخصیت ہیں جو پرویز مشرف کے زمانے میں بھی جماعتی سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ علمی ،سفارتی اور سماجی دائرہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ان کے ہمراہ وزیراعظم کے مشیر طارق فاطمی بھی بیجنگ جارہے ہیں۔دس برس پہلے کی بات ہے کہ میں ایک تقریب میں مدعو کرنے سابق وزیرخارجہ آغا شاہی کے گھر گیا۔آغاشاہی نے قہوا پلوایا اورخرابی صحت کی بنا پر تقریت میں شرکت سے معذرت کرلی۔رخصت چاہی تو کہنے لگے چند ماہ پہلے طارق فاطمی ریٹائر ہوئے ہیں یہاں اسلام آباد ہی میں رہتے ہیں‘ انہیں دعوت دیں۔ میںنے جو بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افسر دیکھے ہیں طارق فاطمی کا شمار ان میں ہوتاہے۔فاطمی ہمیشہ قومی حمیت اور وقار پرڈٹ جاتے ہیں۔ نواز شریف کا وزارتِ خارجہ اور دفاع اپنے پاس رکھنا بظاہر ایک غیر ضروری فیصلہ نظرآتاہے لیکن گہرائی سے دیکھا جائے تو غیر معمولی اور برق رفتار ترقی کا جو وژن وہ متعارف کرانا چاہتے اس کو حقیقت میں متشکل کرنے میں وزارت خارجہ نے کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ اقتصادی حالت سدھارنے کے لیے پاکستان کو اپنے محل وقوع سے فائدہ اٹھانا ہے۔اقتصادی راہداری کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے ۔خود نواز شریف نے ایک جلاس میں ان امکانات کی طرف اشار ہ کیا جو پاکستان کو علاقائی تجارت کا مرکز بناسکتے ہیں ۔انہوں نے کہا : ہمیں روایتی سوچ سے اوپر اٹھ کر یعنی Out of box دستیاب اقتصادی مواقع سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اس طرح کے کاموں میں طارق فاطمی جیسے افراد موزوں ہوتے ہیں جو نون لیگ کا سیاسی وژن تشکیل دینے والی ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور دفاعی اداروں کی سوچ اور فکر کا بھی گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ وزارت خارجہ کا المیہ یہ ہے کہ اسے فوجی حکومتوں کے دوران آزادی کے ساتھ کام نہیںکرنے دیا گیا۔اہم فیصلہ اسٹیبلشمنٹ خود کرتی رہی ۔امریکا بھی وزارت خارجہ میں ’اپنا بندہ‘لگانے کے چکر میں رہتا رہا۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا بندہ لگوانے میں دلچسپی رکھتی رہی ہے۔خود وزارت خارجہ کا رجحان بھی اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر کو آگے بڑھانے کا رہاہے۔ آج کے زمانے میں ایسی شخصیت کا وزارت خارجہ میں ہونا ضروری ہے جو وزیراعظم ہائوس، وزارت خارجہ اور جنرل ہیڈکواٹرز راولپنڈی کے درمیان تعلقات کار میں توازن پیدا کرسکے۔ ساٹھ کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیرخارجہ جہاں وزارت خارجہ کی استعداد کار بڑھائی وہاں انہوں نے اسے نظریاتی دائرہ میں بھی تقسیم کردیا۔امریکا اور چین نواز، ایران اور سعودی عرب نواز لابیز کی باتیں عام سننے کو ملتی ہیں۔ ہر ایک ریاستی پالیسی کو اپنے ڈھب پر چلانے کی کوشش کرتاہے۔ان گروہوں کو کسی ایک نکتے پر جمع کرنا کوئی سہل کام نہیں۔ چین تیزی سے اس منصوبے پر کام کرنا چاہتاہے تاکہ وہ سنکیانگ کو ترقی دے سکے اور ملحقہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کا وسیع نیٹ ورک منظم کر سکے۔ گوادر کی خوبی یہ ہے کہ کاشغرسے محض پندرہ سو کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے جبکہ چین کی مشرقی بندرگاہ 3,500 کلومیٹر دور ہے۔اگر ریلوے لائن بچھ جاتی ہے تو یہ فاصلہ چند گھنٹو ں میں طے ہوجائے گا۔ چین کے وزیراعظم لی کی شیانگ نے نواز شریف کے ساتھ اپنی حالیہ میٹنگ میں ان منصوبوں پر عملی کام شروع کرنے کی ضرورت پر زوردیا۔چین کے پاس وسائل کی کمی ہے نہ فنی مہارت کی۔ چینی چاہتے ہیںکہ پاکستان لمبی لمبی کہانیا ں کرنے اور انگنت مفاہمت کی یادداشتوں کے قبرستان آبادکرنے کے بجائے منصوبو ں کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کرے۔جب نواز شریف خود اس طرح کے منصوبو ں میں دلچسپی لیں گے تو پھر انہیں حقیقت کا رنگ دینا آسان ہوسکتاہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے خدشات کی دھند بھی چھٹ رہی ہے۔وفاقی وزیرپٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ مکمل ہونا چاہیے اور اسے نظرانداز کرنے کے خدشات میں کوئی حقیقت نہیں۔ ان منصوبوں کی اسٹرٹیجک اہمیت ہے اور دفاعی نقطہ نظر سے بھی اہم ہیںتاہم حکمت عملی کا تقاضہ ہے کہ ان کی دفاعی اہمیت کے پہلو کو کم سے کم زیربحث لایا جائے۔ اقتصادی اور کاروباری اہمیت کو شعوری طور پر اجاگر کیا جائے تاکہ وہ ممالک جو پاکستان کے دفاعی عزائم سے خائف ہیں خوف زدہ نہ ہوں۔ نوازشریف کا یہ کہنا کہ بھارت بھی پاکستان کے راستے چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت کرسکتاہے، سفارتی چھکا ہے۔ قدیم محاورہ ہے : ہنوز دلی دور است ۔ ریلوے لائن کی تعمیر اور راہداری بننے میں کافی وقت درکار ہے۔ ابھی سے بھارت کو اپنے پیچھے لگانا دانائی نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے بجائے ان میں شراکت دار بن جائے ۔اس طرح بلوچستان میں جاری شورش کا درجہ حرارت بھی کم ہوسکتاہے اور علیحدگی پسندوں کو ملنے والی کمک بھی رک سکتی ہے۔ علیحدگی پسندوں کو یہ سمجھانا دشوار ہے کہ عالمگیریت کے موجودہ زمانے میں کسی خطے کو الگ تھلگ رکھنا ممکن نہیں۔عرب ممالک بیرونی سرمائے اور انسانی وسائل سے استفادہ نہ کرتے تو زیر زمین تیل کے ذخائر کے باوجودوہ آج بھی ریگستانوں کی خاک چھان رہے ہوتے۔اس وقت کئی خلیجی ریاستوں میں مقامی آبادی سے زیادہ بیرونی ممالک کے کارکن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ غیر ملکی کارکنوں نے ان ممالک کو بنایا، سنوارا اور دنیا میں باعزت مقام دلایا۔گوادر میں غیر مقامی لوگوں کی آمد سے بلوچستان ترقی کرے گا۔سردار ی نظام ٹوٹے گا۔عام لوگوں کے حالات زندگی بہتر ہوں گے۔پورا ملک معاشی ثمرات سے مستفید ہوگا۔ مقامی آبادی کے جائز خدشات کے ازالے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر قانون سازی کی جاسکتی ہے ۔ انتظامی احکامات کے ذریعے ملازمتوں اور کاروبار میں مقامی آباد ی کا حصہ مختص کیا جاسکتاہے لیکن محض خدشات کی بنا پر بڑے منصوبے ترک نہیں کیے جاسکتے۔گوادر بہت بڑا تجارتی مرکز بننے جارہاہے۔جہاں ملک کے طول وعرض سے لوگ جاکر کاروبار اور تجارت کریں گے۔ کالم ختم کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیر کی کتاب میں درج کچھ واقعات یاد آتے ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ کس طرح پرویز مشرف کو برسراقتدارآنے کے بعد بتدریج نوکر شاہی نے اپنی گرفت میں لے کر روایتی حکمران بنایا۔وہ جو بھی کوئی بڑاکام کرنا چاہتے سرخ فیتہ اسے ناکام بنا دیتا۔ نوازشریف حکومت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے لہٰذا نوکرشاہی دبی ہوئی ہے لیکن وہ د ن زیادہ دور نہیں جب نوکر شاہی نظام کو اپنی گرفت میں لے کر موجودہ حکومت کو بھی ایک روایتی حکومت بنادے گی جو مکھی پر مکھی مارتی ہے ۔نواز شریف کو چاپلوس اور خوشامدی افسروں سے ہوشیار رہنا ہوگا تاکہ وہ بہبود عامہ کے کام اور بڑے فیصلے کرسکیں۔