"IMC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے تجربات

منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کا جس طرح مصرکی سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور پڑوسی ممالک نے استقبال کیا وہ مسلم دنیا میں پائے جانے والے فکری افلاس اور سیاسی نابلوغت کی عکاسی کرتاہے۔اس واقعہ نے اکتوبر1999ء کی یاد دلادی ۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کو کھڑے کھڑے ایوان اقتدار سے بے دخل کیاگیا تومحترمہ بے نظیر بھٹو سے لے کر نواب زادہ نصراللہ خان تک سب نے سکھ کا سانس لیا۔بتدریج سیاستدانوں اور رائے عامہ پر آشکار ہوا کہ حکمرانوں کو بدلنے اور دیرپا تبدیلی لانے کا طریقہ فوجی بغاوت نہیں‘ الیکشن ہیں جہاںشہری اپنی آزادمرضی سے حکومت بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔بعدازاں بے نظیر بھٹو کا جدہ میں سرور پیلس جاکر میاں نوا زشریف سے ملاقات اور مشترکہ سیاسی جدوجہد پر اتفاق رائے کرنا بڑی پیش رفت تھی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں صدر آصف علی زرداری،جنرل اشفاق پرویز کیانی اور میاں نواز شریف کو باہم لڑانے ،الجھانے اور ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کے ہر موقع کا بھرپور استعمال کیا گیا لیکن کوئی بھی چال کارگر ثابت نہ ہوئی۔ صدر زرداری نے ملک کی زمام کار ایک ایسے وقت میں سنبھالی جب وہ آمریت سے جمہوریت کی جانب سفر کررہاتھا۔اس عبوری مدت میں ایوان اقتدار میں ایک بردبار اور صلح جُو شخص کی ضرورت تھی جو اداروں کو باہمی تصادم سے بچا تے ہوئے یہ عرصہ پورا کرائے۔ آمریت کی علامت جنرل (ر) پرویز مشرف ایک ہی اسمبلی سے دو سری بارمنتخب ہونے کا کامیاب ڈرامہ رچاچکے تھے۔ انہیں ایوان صدر سے نکالے بنا جمہوریت پنپ سکتی تھی اور نہ تبدیلی کا دائرہ مکمل ہوتاتھا۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرمیجرجنرل (ر) محمود درانی سے کہا گیا کہ مشرف سے درخواست کریں کہ وہ صدارت سے مستعفی ہوجائیں۔ درانی کہتے ہیں: مشرف کو یہ پیغام دیا تو ان کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔ مستعفی ہونے سے انکار کردیا اور دلیل دی کہ وہ منتخب صدر ہیں۔انہیںباور کرایاگیا کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ مشترکہ طور پر پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک پیش کرسکتی ہیں۔ ناخوش مشرف نے عقل کی راہ لی اور دیار غیر سدھار گئے۔ پارلیمنٹ میںپیپلزپارٹی کو اکثریت حاصل نہ تھی۔ اس کے باوجود سیاسی مفاہمت اور تحمل کی پالیسی کی بدولت یہ ممکن ہوا کہ اساسی نوعیت کی آئینی تبدیلیاں کی گئیں‘ حتیٰ کہ پورا آئینی ڈھانچہ تبدیل کردیاگیا۔ یہ عمل تمام سیاسی جماعتوں کی شراکت داری سے مکمل ہوا۔ماضی میں مذہبی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے آلۂ کار کے طور پر منتخب حکومت کے خلاف استعمال ہوتی تھیں۔ نائن الیون کا فائدہ یہ ہوا کہ مذہبی جماعتوں کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اتحاد ٹوٹ گیا۔چنانچہ وہ جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی کوششوں کا حصہ نہیں بنیں۔ خود انہیں بھی سمجھ آئی کہ غیر جمہوری نظام حکومت ملک کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتاہے۔ حالیہ پانچ برسوں میںسول ملٹری تعلقات کار میں بہت تنائو رہا۔کئی بار معاملات ہاتھ سے نکلتے نظر آئے۔صدر زرداری کی لچک اور تدبر نے جمہوری نظام کو سنبھالے رکھا۔طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کو اس حدتک افروختہ نہیں کیا گیا کہ وہ نظام کا بوریا بستر گول کردیتی ۔بتدریج سویلین نظام کی بالادستی کی کوشش جاری رکھی گئی۔اگرچہ اس عمل میں کامیابی کی رفتار سست تھی لیکن اس کے باوجود نمایاںپیش رفت ہو ئی۔ سیاسی قیادت نے خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی راہ ہموار کی ۔امریکا کے ساتھ جاری کشیدگی کو ایک حد پر منجمد کیاگیا۔ تحمل کی اس پالیسی نے رائے عامہ کی روایتی فکر بدل دی۔انہیں احساس ہوا کہ دیرپا تبدیلی جمہوری طریقوں سے ہی آتی ہے۔ عام شہریوں نے دل سے جمہوری نظام کو حکمران چننے اوربدلنے کے اصول کے طور پر قبول کرلیا۔ دنیا نے بھی پاکستان میں جمہوری نظام کی افادیت کا ادراک کیا اور غیر جموری قوتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔امریکا نے جو عمومی طورپر فوجی حکومتوں کی پشت پناہی کرتا رہا ہے‘ وہ بھی دوطرفہ تعلقات میں آنے والے نشیب وفراز کے باوجود گزشتہ پانچ برسوں میں جمہوری حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا۔ سویلین اداروں کی امداد میں اضافہ کیا گیا۔ہزاروں طلبہ کو سکالرشپ دیئے گئے۔ تعلیمی اداروں کی مالی اعانت کی گئی۔لائبریریوں کے قیام میں مدد دی گئی اور غیر سرکاری تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ فعال کردار ادا کریں۔ مغربی ممالک کے اس طرزعمل نے بھی ملک میں جمہوری اداروںکی مضبوطی میں کردار ادا کیا۔ پاکستان کے تجربات سے مسلم دنیا بہت کچھ سیکھ سکتی ہے کہ کس طرح سول ملٹری تعلقات کو عبوری دور میں برتا جاتاہے۔ مصر کی سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھ نہیں کہ وہ حریف ہی نہیںبلکہ حلیف بھی ہیں۔یہ نقطہ نظر کہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے ژولیدہ فکری کا انتہائی ادنیٰ درجہ ہے۔معزول صدر محمد مرسی کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں تھا کہ وہ راتوں رات مصر کے مسائل حل کرلیتے اور نہ موجودہ مصری حکمرانوں کے پاس ہی کوئی ایسا نسخہ کیمیا ہے کہ وہ ملک کی کشتی کو بھنور سے نکال سکیں۔ جماعتیں مذہبی ہوں یا سیاسی‘ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ نظام کی بقا میں ان کی اپنی بقا کا راز مضمر ہے۔غیر جمہوری قوتوں کی مدد یا ان کی شہ پر آنے والی تبدیلی دیر پا نہیں ہوتی بلکہ ملک کو تقسیم کردیتی ہے۔ مرسی کے مینڈیٹ کو پامال کیا گیا تو مرسی اور ان کے حامیوں سے یہ امید کیونکر رکھی جاسکتی ہے کہ وہ مخالفین کا حق حکومت تسلیم کریں گے یا پھر اگلے انتخابات میں برسراقتدار آنے والے صدر کو قبول کرلیں گے۔انہیں غیر جمہوری طریقے سے اقتدار سے بے دخل کیا گیا لہٰذاوہ اگلی حکومت کو ناکام بنانے کی سرتوڑ کوشش کریں گے۔ مصر کے پڑوسیوں اور ایک طبقے کو یہ ہضم نہیں ہوا کہ وہ جمہوریت کی راہ پر چلے۔ بتدریج ایک ایسا نظام قائم ہو جو خطے کے دوسرے ممالک کے لیے نظیر بن سکے۔انہوں نے سرکار کے مخالفین کو شہ دی اور کچھ مرسی اور ان کے ساتھیوں کی ناتجربہ کاری بھی تھی جو انہیں لے ڈوبی۔ افسوس! عرب دنیا کا ایک ملک جو فعال جمہوری ملک بننے کی صلاحیت رکھتا تھا وہ سیاسی انتشار کا شکار ہوگیا۔اس بحران سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ مصریوں کو باور کرایا جائے کہ تبدیلی بندوق کی نالی ہے نہیں بلکہ ووٹ کی پرچی سے آتی ہے۔وہ ووٹ کی پرچی پر بھروسہ کریں۔شہری سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑے ہوں۔مرسی اور ان کے حامیوں کو سیاسی جدوجہدسے ہی شکست دی جاسکتی ہے لیکن انہیں پس دیوار زنداں دھکیلنے اور تشدد سے نہیں جھکایا جاسکتا۔ اس طرزعمل سے القاعدہ کی طرح کے متشدد گروہ جنم لیتے ہیں جو پوری دنیا کے امن کو تہس نہس کردیتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں