"IMC" (space) message & send to 7575

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

ایبٹ آباد کمشن رپورٹ میں بعض ایسے دلچسپ اور چونکا دینے والے تبصرے پڑھنے کو ملتے ہیں جو بظاہر غیر اہم ہیں لیکن ارباب بست و کشاد کی خرمستیوں اور نااہلی کی حکایت سناتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر ملکی رہنمائوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو ئوں کا سرکاری سطح پر ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔چنانچہ کچھ معلوم نہیں ہوپاتا کہ غیر ملکی رہنمائوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں کیاطے پایا۔چنانچہ سفارش کی گئی کہ آئندہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کاریکارڈ رکھنے کا اہتمام کیاجائے۔ رپورٹ کا یہ حصہ پڑھتے ہوئے کارگل جنگ کے دوران میاں محمد نواز شریف کا دورہ امریکا یاد آیا۔جنرل پرویز مشرف کی شروع کردہ مہم جوئی ناکامی سے دوچار ہونے لگی تو نوازشریف کو صدر بل کلنٹن کی مدد سے پاک بھارت کشیدگی رکوانے کے لیے واشنگٹن بھیجا گیا۔ دو دن تک جاری رہنے والی اس سربراہی کانفرنس میں نواز شریف اصرار کرتے رہے کہ وہ صدر کلنٹن سے تنہائی میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔کلنٹن ٹالتے رہے ۔ اصرار حد سے زیادہ بڑھ گیاتو کلنٹن نے اپنے معاون خصوصی بروس رائیڈل کے ہمراہ نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی تاکہ وہ گفتگو کا ریکارڈ رکھ سکیں۔ نوازشریف نے ایک بار پھر تنہائی میں ملاقات کی درخواست کی لیکن کلنٹن نے معذرت کرلی۔ پاکستان میں بھی اعلیٰ سطحی سرکاری ملاقاتوں اور گفتگوئوں کا ریکارڈرکھنے کا سلسلہ طویل عرصہ تک برقراررہا۔ نوکری شاہی برطانیہ کی تربیت یافتہ تھی۔ حکمران بھی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ریاستی امور کی انجام دہی میں مروجہ طور طریقوں پر عمل پیرا ہوتے۔ وہ ذہانت اور فطانت میں بھی ہم عصر عالمی رہنمائوںسے کم نہ تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرداخلہ مرحوم نصیر اللہ بابر نے ایک ملاقات میں بتایا کہ قدرت نے بھٹو صاحب کو بلا کا حافظہ عطافرمایاتھا۔انہیں کچھ بھولتاہی نہ تھا۔ وہ بہت اعلیٰ درجے کے منتظم تھے۔ ہر کام بڑی توجہ اور دلچسپی سے کرتے ۔ کسی علاقے کا دورہ کرتے تو لوگ مطالبات کرتے ۔ جو بھی وعدہ یا گفتگو کرتے اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا اور بعد ازاں فالو اپ ہوتا۔ دوبارہ اس علاقے میں جاتے تو گفتگو کا آغاز پچھلے دورے میں کیے جانے والے وعدوں یا مطالبات سے کرتے تو لوگ ششدر رہ جاتے۔ جہاز یا گاڑی میں نوٹس لکھواتے۔سینئر بیورکریٹ طارق مسعود نے بتایا کہ بھٹو جہاں بھی جاتے ان کے ساتھ فائلوں کا ایک انبار جاتا۔فرصت میسر ہوتی تو سرکاری کاموں میں لگ جاتے۔اب تو گنگا الٹی بہتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر)شجاع پاشا نے ایبٹ آباد کمشن کے روبرو رونا رویا کہ وزیردفاع سمیت کوئی پالیسی دستاویزات کو پڑھتا ہے اور نہ ہی سیاسی قیادت میں مطالعہ کا کلچر ہے۔اس کے برعکس ماضی قریب کے حکمران نہ صرف ’راج نیتی‘ پر عبور رکھتے بلکہ وہ اپنے آپ کو عصرحاضر کے امور سے باخبر رکھنے کی بھرپور کوشش بھی کرتے تھے۔جنرل ضیاء الحق نماز فجر کے بعد دوگھنٹے تک اخبارات کا مطالعہ کرتے ۔کئی کالم نویس آج تک اتراتے ہیں کہ صدر ضیا ان کے کالم پڑھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔ ضیا کالم ہی نہیں کتابیں بھی پڑھتے اور دوستوں کو تحفے بھی دیتے ۔صدیق سالک جیسا بلند پایہ ادیب ان کے تعلقات عامہ کا سربراہ تھا۔ممتاز اقبال ملک فوج کے ماہنامہ کے طویل عرصہ تک ایڈیٹر رہے۔ ایک ملاقات میں انہوں نے بتایاکہ حکم تھا کہ کوئی اچھی کتاب مارکیٹ میں آئے تو فوری طور پرضیاء الحق کو پیش کر دی جائے۔کتاب پسند آتی تو احباب کو بطور تحفہ بھیجتے۔بسااوقات مصنف کو ستائشی خط بھی لکھواتے۔ ذاتی طور پر صحافیوں ،دانشوروں اور ادیبوں سے رابطے میں رہتے۔رات گئے لوگوں کو فون کرتے اور رائے عامہ کا موڈ جاننے کی سعی کرتے۔ گیارہ برس تک بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والے ضیا ء الحق حکمرانی کے ہر فن سے آشنا تھے۔انہوںنے کامیابی سے قوم کو پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی مخالف دھڑوں میں تقسیم کیے رکھا۔بھلا ہوصدر آصف علی زرداری اور عمران خان کا کہ انہوں نے اس بے معنی اور بے کیف تقسیم کی روح قبض کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ا چھی کتابوں کی شیدائی تھیں۔جزرس ہونے کے باوجود کتابوں پر خرچ کرتیں ۔جنرل حمید گل جیسے سیاسی مخالفین تک کو کتابوں کے تحفے دیتیں۔ ایل کے ایڈوانی نے انہیں The 48 Laws of Powerنامی کتاب پیش کی تو کئی دنوں تک مسرور رہیں۔ ملنے والوں کو دلچسپ حصے پڑھ کر سناتیں اور بتاتیں کہ یہ کتاب ایڈوانی ’جی‘نے انہیں تحفہ دی ۔ روایت ہے کہ ایڈوانی سندھی ہونے کے ناطے محترمہ کو پسند کرتے اور سیاست میں ان کی کامیابی کے متمنی رہتے۔ دہلی میں ایک دوست نے بتایا کہ ایڈوانی کو بے نظیر کے مستقبل اور سیاست سے نہ صرف گہری دلچسپی تھی بلکہ وہ مشترکہ دوستوں کے توسط سے ان کے بارے میں خبر بھی لیتے رہتے ۔یہ کتاب علم سیاست کے پنڈت کوتلیہ چانکیہ کی ارتھ شاستر کا جدید ایڈیشن لگتی ہے۔ترجمہ تو نہیں ہے لیکن حکمرا نی اور کامیابی کے جو نسخے ارتھ ساشتر میں سکھائے گئے تھے کم وبیش وہی جدید لب ولہجے میں اس کتاب میں پیش کیے گئے ہیں۔ ارتھ شاشتر نے اسلوب سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔بھارت کے کچھ بڑے سیاستدانوں کے بابت کہا جاتاہے کہ وہ یہ کتاب سرہانے رکھ کر سوتے تھے۔ بے نظیر کے ساتھ کام کرنے والے افسر بتاتے ہیں کہ کوئی ایک بھی فائل ایسی نا ہوتی جو محترمہ کی نظر سے نہ گزرتی۔وہ ایک ایک سطر کا بغور مطالعہ کرتیں اور احکامات جاری کرتیں۔یہ گئے زمانے کے قصے کہانیاں ہیں۔اب سیاست ہو یا صحافت‘ ہر شعبہ زندگی روبہ زوال ہے۔ ادارے مضبوط ہونے کے بجائے انحطاط کا شکار ہیں۔ سیاستدانوں کو راہ راست پر رکھنا اور انہیں قائدے کلیہ کے مطابق امور مملکت چلانے میں مدد دینا سرکاری افسروں کا فرض منصبی تصور کیا جاتا ہے‘ لیکن اب وہ موم کی ناک اور سورج مکھی کا پھول ہیں۔ صاحب اختیار جیسا چاہتاہے وہ اسی قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔اللہ اللہ تے خیرسلا۔ ہندوستان کی مثال دیتے ہیں تو بعض دوستوں کو برا لگتا ہے لیکن بسااوقات حوالہ دیے بنا بات بنتی نہیں۔ بھارتی وزیراعظم ہر اہم قومی مسئلہ پر خود قائد حزب اختلاف کو بریف کرتے ہیں ۔ کئی برس سے وزیراعظم من موہن سنگھ بغیر کسی پروٹوکول کے ایل کے ایڈوانی کے گھر جاتے ہیں اور انہیں پاک بھارت تعلقات سمیت ہر اہم ایشوپرہونے والی پیش رفت اور سرکار کی حکمت عملی سے آگاہ کرتے ہیں۔اٹل بہاری واجپائی سونیا گاندھی کے پاس خود نہیں جاپاتے تھے لہٰذا قومی سلامتی کے مشیر برجیس مشرا کو ہر اہم موقع پر سونیا سے مشورہ لینے اور بریفنگ دینے بھیجتے۔کیا آپ کو یاد ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر سب سے پہلے امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے پیش رو جارج ڈبلیو بش کو دی۔اس پس منظر میں ہمیں بھی اپنی ادائوں پر غور کرنا ہوگا ۔اپنے گربیان میں جھانک کر پوچھنا ہوگا کہ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں