وزیراعظم نوا زشریف چین سے واپسی کے بعد سے مسلسل ملک میں امن وامان کی بہتری اور انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں بندکرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔وہ داخلی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاطر متعدد اقدامات کررہے ہیں ۔انہوں نے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے پہلے اچھا کیا کہ آئی ایس آئی کے دفتر میں تفصیلی بریفنگ لی جس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی شریک تھے۔یوں فوج اور آئی ایس آئی دونوں کا نقطہ نظر وزیراعظم کے سامنے آگیا۔یہ بھی آشکار ہوگیا کہ دفاعی اداروں کو شدت پسندوں سے نمٹنے میں کیا مشکلات درپیش ہیں اور وہ سیاسی قیادت سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔وزارت داخلہ نے بھی انہیں بریفنگ دی اور بتایا کہ نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی( نیکٹا) نے دہشت گردی سے نمٹنے کی خاطر ایک جامع حکمت عملی وضع کی ہے۔جو محض مذاکرات اور شدت پسندوں کی بحالی تک محدود نہیں بلکہ اس کے دائرہ کار میںشدت پسندوں کے انفراسڑکچر کو تباہ کرنا ،انہیں ایک مخصوص علاقے تک محدود کرنا،ان کے پیغام کو روکنا اور عوام کو شدت پسندی کے خطرے سے آگاہ کرنے کے علاوہ جو انتہا پسندپرامن زندگی گزارنے کے خواہش ہوں انہیں واپس قومی دھارے میں شامل کرنا شامل ہے۔ یہ پہلامو قع ہے کہ حکومت ،فوج اور سیاسی جماعتیں انتہاپسندی کے خلاف متفقہ حکمت عملی تشکیل دینے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔قبل ازیں 1974ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں قومی سلامتی پر ایک وائٹ پیپر تیار کیا گیا تھا۔اس کے بعد اس موضوع پر سرکاری سطح پر کوئی جامع پالیسی دستاویز مرتب نہیں کی گئی۔گزشتہ بارہ برسوں میں بھی اس ایشو پر سویلین حکومتوں نے پالیسی سازی میں کوئی دلچسپی نہیں لی بلکہ شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ کو فوج کے سپرد کرکے خود کو بری الذمہ قراردے دیا۔ فوج نے دفاع سے متعلقہ اپنی گرین بک میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کیں اور ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات میں سب سے بڑا خطرہ پاکستان کے اندر سرگرم جنگجو ئوں کو قراردیا۔جنرل کیانی لگ بھگ اپنی ہر تقریر میں کہتے رہے کہ فوج عوامی حمایت کے بغیر جنگ نہیں جیت سکتی‘ لیکن کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا۔حتیٰ کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے ضروری قانون سازی کا مسودہ پانچ برس تک مختلف کمیٹیوں کے پاس پڑا رہا۔ ارکان اسمبلی کے پاس وقت نہ تھا کہ وہ اس مسودے پر ضروری بحث مباحثہ کرتے۔دنیا بھر میں قومی سلامتی کا تصور محض سرحدوں کا تحفظ نہیں ہوتا بلکہ معاشی استحکام اور قومی مفادات سے ہم آہنگ خارجہ پالیسی بھی اس کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔شہریوں کو روزگار اور تحفظ فراہم کرنا بھی قومی سلامتی کا لازمی جزو ہے۔علاوہ ازیں قومی سلامتی کی پالیسی کی تشکیل میں عسکری کے علاوہ سویلین اداروں کی مشاورت اور پورے عمل میںبھرپور شرکت ہی اسے قابل قبول شکل دینے کے علاوہ تمام سٹیک ہولڈرز کی اونرشپ عطا کرتی ہے۔ وزیراعظم نے جس وسیع پیمانے پر مشاورت کا عمل شروع کیا وہ ناگزیر بھی تھا۔ ایک طویل عرصے سے اسٹیبلشمنٹ ان معاملات کو اپنی مرضی سے چلاتی رہی ۔اب اسے سیاسی قیادت کے وژن اور ترجیحات کو مدنظر رکھنا ہوگا تو دونوں فریقین کے مابین براہ راست مکالمہ اور تبادلہ خیال ضرور ی ہے۔سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔وہ حکومت کو تنگ کرنے کے لیے کوئی بھی بے لچک یا غیر معقول پوزیشن لے لیتے ہیں۔ عمران خان ہی کی مثال لے لیں انہیں اب شدت سے احساس ہوا ہے کہ فوج کی مدد سے قومی سطح پر شدت پسندی کے خاتمے کے لیے پالیسی بنائی جانی چاہیے۔حکمرانی کے اپنے تقاضے اورآداب ہیں۔اداروں کے مابین اتفاق رائے نہ ہو تو کارگل جیسے واقعات ہوجاتے ہیں‘ جو ساری پیش رفت کو ضائع کردیتے ہیں۔ وزیراعظم نوا ز شریف کو مشوروں کی ضرورت نہیں ۔اس کے باوجود اتنا عرض کرنا مفید ہوگا کہ پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ محض اچھی حکومت کی فراہمی، گوادر سے کاشغر تک موٹروے کی تعمیر اور شہریوں کو روزگار کی فراہمی سے حل نہیں ہوگا۔اس مسئلہ کا گہرا تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت اور خطے میں مفادات کے حصول کے لیے اختیار کی گئی حکمت عملی سے ہے۔اسٹبلشمنٹ نے نوے کی دہائی میں جو حکمت عملی اختیار کی تھی وہ رفتہ رفتہ اسی حکمت عملی کے جال میں پھنس کے رہ گئی۔ایسا لگتا ہے کہ اسے اس کھیل کے انجام سے کوئی دلچسپی نہیں یا اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اس کھیل کو منطقی انجام تک پہنچاسکے۔ چنانچہ اب امریکا واپس جارہاہے اور ہم پر لرزہ طاری ہے کہ کہیں افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار نہ ہوجائے ۔ بڑی مشکل سے بھاگ دوڑ کرکے طالبان کو راضی کیاگیا کہ وہ قطر میں اپنا دفتر کھولیں تاکہ امن عمل کا حصہ بن سکیں۔امریکی تو خوش ہیں لیکن افغان صدر حامد کرزئی اوربھارت سیخ پا ہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ طالبان کا کوئی گروہ افغانستان میں کسی بھی سطح پر شریک اقتدار ہو اور وہ بھی پاکستان کے توسط سے۔درون خانہ ایران بھی ان کا ہمنوا ہے۔اب یہ ممالک پاکستان کے خلاف متحد ہیںاور امن عمل کو سبوتاژ کرنے میں جت گئے ہیں۔پاکستان کو قطر میں دفتر کھلوانے کا ڈنکا بجانے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔خاموشی سے مدد کرتا۔کریڈٹ نہ لیتا تو ممکن تھا کہ صورت حال مختلف ہوتی۔ اب مان لیا ہے کہ ہمارے تعاون سے یہ دفتر کھلا ہے تو اس عمل کو آگے لے جانے کے لیے درکار لوازمات بھی پورے کرنے چاہئیں۔ معمولی ایشوز پر یہ دفتر بند نہیں ہونا چاہیے۔ نواز شریف کو یہ تلخ حقیقت مدنظر رکھنا ہوگی کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے ڈانڈے خطے کی عمومی صورت حال سے ملتے ہیں۔ یہ2005 ء کی بات ہے کہ راقم الحروف کو پیپلزپارٹی کے راہنمائوں سردار آصف احمد علی اور چودھری لطیف اکبر کے ہمراہ جامعہ ملیہ دہلی میں پاک بھارت امور پر ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔اگرچہ پاک بھارت تعلقات میں پائی جانے والی سردمہری گرم جوشی میں بدلنا شروع ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے حوالے سے بھاریتوں کے تحفظات کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہاتھا۔آصف احمد علی سے نہ رہا گیا انہوں نے شرکاء کو مستقبل کی طرف دیکھنے اور ماضی کو دفن کرنے کی صلاح دی تو اسٹبلشمنٹ سے گہری قربت رکھنے والے صحافی پروین سوامی بھڑک اٹھے ۔انہوں نے کہا:اگر پاکستان نے اپنا رویہ نہ بدلا تو بھارتی وزیراعظم اپنے خفیہ اداروں کو جوابی کارروائی کرنے کی اجازت دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔اس کے بعد پاکستان کا حشر دنیا دیکھے گی۔ چند ماہ پہلے کابل جانے کا موقع ملا جہاں سینئر افغان راہنما اور سابق وزیرخزانہ اشرف غنی نے بلا کسی لگی لپٹی کے ہمیں کہا کہ اگر پاکستان باز نہ آیاتو ہمارے نوجوان یہ جنگ اس کی سرزمین پر جاکر لڑیںگے۔کرزئی پاکستا ن کو سبق سکھانا چاہتا ہے۔ روس بھی زیادہ خوش نہیں۔ گزشتہ برس روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے آخری لمحات میں دورہ پاکستا ن ملتوی کرکے ہمیں ہماری اوقات یاد دلائی۔ امریکاکے ساتھ تعلقات کی حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک بھی ایشو پر ہمارا نقطہ نظر یکساں نہیں ۔پاک بھارت تعلقات ہوں یا افغانستان کے ساتھ معاملات ۔مشرق وسطیٰ کے بارے میں پالیسیاں ہوں یا چین کے ساتھ دوستی۔ہر معاملے میں دونوں ممالک کا نقطہ نظر اور سوچ ایک دوسرے سے لگا نہیں کھاتی۔ باخبر لوگوں کو یہ اندیشہ کھائے جارہاہے کہ امریکا کے افغانستان سے نکلنے کے بعد ہمارا کیا بنے گا۔ ڈاواں ڈول معیشت کو کون سہارا دے گا؟ عالمی بینکوں سے قرض لینے میں کون مدد کرے گا؟ افغانستان کے اندر جاری کشمکش کیا رخ اختیار کرے گی؟ امریکی صدر بارک اوباما کا موڈ بہت خراب ہے وہ صدر حامد کرزئی کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں سے عاجز آچکے ہیں۔ امریکی یہ عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ وہ پوری فوج بھی نکال سکتے ہیں۔اس صورت میں خوف ناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ ان مسائل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ علاقائی حکمت عملی وضع کی جائے۔ خطے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے انتہاپسندی کا مقابلہ کیا جائے۔