"IMC" (space) message & send to 7575

بنگلہ دیش: جماعت اسلامی پر پابندی

ڈھاکہ ہائی کورٹ نے بنگلہ دیش کی زیر عتاب جماعت اسلامی کو غیرقانونی قرار دے کر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ جماعت کا منشور ملک کے سیکولر آئین سے متصادم ہے لہٰذا اسے کالعدم قراردیا جاتاہے۔ یعنی اب وہ جنوری 2014ء کے عام انتخابات میں بطور جماعت حصہ نہیں لے سکے گی۔پہلے ہی اس کے چھ معمر راہنمائوں کو پھانسی یا عمر قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں اور ہزاروں حامیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔الزام ہے کہ انہوں نے 1971ء کی خانہ جنگی اور بعدازاں بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستانی فوج کاساتھ دیا۔ ان عدالتی فیصلوں کے خلاف جماعت نے سخت احتجاج کیا۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بنگلہ دیش میں 1991ء میں سیاسی جماعتوں نے مشترکہ احتجاجی تحریک چلا کر جنرل (ر) حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کو چلتاکیا اور جمہوری نظام حکومت قائم کیا۔جماعت اسلامی نے بھی بنگلہ دیش کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا۔ ریاست کے ساتھ مکمل وفاداری نبھائی ۔ زیرزمین سرگرمیوں میں ملوث ہوئی اور نہ ایسے گروہوں کی حوصلہ افزائی کی جو ریاست مخالف ہوں ۔ دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص محترمہ خالدہ ضیا کی عوامی نیشنلسٹ پارٹی کے ہمراہ حکومت میں شامل رہی۔اس کے وزراء پر بدعنوانی کے داغ نہیں اور ان کی کارکردگی کی بھی تعریف کی جاتی ہے۔اگرچہ گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی نے نسبتاً کم ووٹ حاصل کیے لیکن آزادمبصرین تسلیم کرتے ہیں کہ جماعت بنگلہ دیش کی سیاست میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ نئی نسل اور متوسط طبقہ پر اس کی سیاسی سوچ کے اثرات ہیں۔موقع ملے تو وہ انتہاپسندی، تشدد اور اعتدال پسند قوتوں کے مابین پل بن سکتی ہے۔ گزشتہ سات آٹھ برسوں میں بنگلہ دیش میں بڑی سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔معاشی سدھار آیا بالخصوص یورپی یونین کے ساتھ کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ خوشحال متوسط طبقہ وجود میں آیا۔ شرح ترقی نسبتاً تیز رفتاری سے بڑھی اور چار فیصد تک جاپہنچی۔سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیانے بھی ایک نیا جہاں آباد کیا ۔نوجوان لکھاریوں اور ادیبوں کی ایک ایسی نسل میدان میں اتری‘ جس نے 1971ء کے واقعات کی بڑی بے باکی سے تعبیر اور تشریح کی۔یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں جنم لینے والے ان بنگلہ دیشی نوجوانوں نے ’جنگی آزادی‘ کی کتھا رومانوی انداز میں لکھی۔جس سے پرانے زخم ہرے ہوگئے۔جذبات بھڑک اٹھے۔انصاف اور ’تحریک آزادی‘ کے مخالفین کو سزادلوانے کے لیے باقاعدہ ایسی تنظیمیں اور سوشل فورمز معرضِ وجود میں آگئے جنہوں نے رائے عامہ کو متحرک کیا ۔ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد بھی جماعت اسلامی کی ازلی حریف ہیں۔وہ جماعت اور عوامی نیشنلسٹ پارٹی کے درمیان اتحاد کو اپنی سیاست کے لیے خطرہ تصور کرتی ہیں۔دوسری جانب لبرل اور سیکولر حلقوں کی معتبر شخصیات کی رائے ہے کہ بنگلہ دیش کو حقیقی سیکولر ملک بنانے کے لیے جماعت اسلامی کی فکر سے فیصلہ کن لڑائی لڑنا ہوگی ۔خواہ اس کی کوئی بھی قیمت چکانا پڑے۔ان کے نزدیک مذہب کی بنیاد پر سیاست کی اجازت‘ بنگلہ دیش کے جسد قومی میں ٹائم بم نصب کردینے کے مترادف ہے۔جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی کہانی بیان نہیں کرسکتی۔ بتانے کو کچھ ہے بھی نہیں ۔کہتے ہیں کامیابی کے باپ ہزار اور ناکامی یتیم ہوتی ہے۔اس کا مقدمہ لڑنے والا کوئی نہیں۔ افسوس!جماعت مخالف خواتین وحضرات یہ ادراک نہیں رکھتے کہ سیاسی اور نظریاتی تحریکوں،جماعتوں اور شخصیات کو عصبیت حاصل ہوتی ہے۔وہ پھانسیوں ،جیلوں اور کوڑے کھانے سے پیوند خاک نہیں ہوتیں ۔ مظلومیت کی ردا اوڑھ لیتی ہیں۔ جو طبقات ان سے نفرت کرتے ہیں وہ بھی ان سے ہمدردی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں پیپلزپارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی اورایم کیوایم کوریاستی اداروں نے طاقت کے بل بوتے پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔تمام تر انتظامی مشینری اور وسائل استعمال کیے گئے ۔کہا گیا کہ یہ ملک دشمن جماعتیں ہیں لیکن لوگ نہیں مانے۔انتخابات میں ان جماعتوں کو کامیابی ملی۔ بنگلہ دیشی حکومت ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہی ہے ۔تاریخ سے کوئی لڑسکااور نہ جیت سکا۔ملکوں اور معاشروں کی تعمیر کی خاطر مخالفین کو معاف کردینا ہی بہترین انتقام تصور کیا جاتاہے۔یہی درس پیغامبر عالمﷺ نے دیا ۔عصری تاریخ میں نیلسن منڈیلا نے اپنے مخالفین کو معاف ہی نہیں کیا بلکہ انہیں حکومت کا حصہ بناکر ایک نئی تاریخ رقم کی۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے ضیاء الحق کے ساتھیوں کو اپنی کابینہ کا حصہ بنایا۔صدر آصف علی زرداری نے بے نظیر کے خون کے نام پر انتقامی سیاست کا بازار گرم نہیں کیا بلکہ مخالفین کے ساتھ نرمی اورلچک کا مظاہرہ کیا۔اس طرزسیاست نے جمہوری نظام کو توانا اور ملک کو استحکام بخشا ۔ جماعت اسلامی ایک نظریاتی تحریک ہے جو مذہبی اور سیاسی فکر پر کھڑی ہوئی۔اس کا مقابلہ سیاسی طور پر کیا جاسکتاہے اور کیا جانا چاہیے۔ اس کی قیادت کو زندانوں میں محبوس کر کے نہیں کیاجاسکتا۔دنیا کے کئی ممالک ایسے ناکام تجربات کرچکے ہیں۔مصر میں اخوان المسلمون کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی گئی۔ان کے راہنمائوں پرعقوبت خانوںمیں تشدد کیا گیا۔ القاعدہ اور کئی دوسرے انتہاپسند گرو ہ جو بنیادی طور پر اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر ہیں‘ انہی جیلوں کی پیداوار ہیں۔ القاعدہ کے ایمن الظواہری سمیت درجنوں افراد ایسے ہیں جوحکومتوں کے جبر کا شکار ہوئے۔سیاسی جدوجہد کے راستے بند ہوئے تو انہوں نے تشدد کی راہ اختیار کرلی۔ ریاستی ناانصافی جماعتوں اور سیاستدانوں کی گرفت کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔ جو عناصر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے داعی ہیں‘ وہ مضبوط دھڑے بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔الذوالفقار کی طرح کی تنظیمیں وجودپاتی ہیں۔جو ریاستی قوت سے ٹکراجاتی ہیں۔اعتدال پسند قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔جماعت اسلامی کے سیاسی اور جمہوری انداز فکر سے مایوس نوجوان کا ایک طبقہ پہلے ہی جمعیت المجاہدین بنگلہ دیش کے نام سے زیر زمین سرگرمیوں میں ملوث ہے۔بنگلہ دیشی حکومت کے موجودہ طرزعمل سے اس طر ح کے گروہوں کو تقویت ملے گی۔ وہ کبھی بھی بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام قائم نہیں ہونے دیں گے۔ اس موقع پر پاکستان کے بنگلہ دیش سے تعلقات خوشگوار نہیں کہ وہ انہیں کوئی مشورہ دے سکے۔وزیراعظم حسینہ واجد شاکی ہیں کہ پاکستان کا جھکائو خالدہ ضیا کی طرف کیوں رہاہے۔ اسلام آباداپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔جماعت کے لوگوں پر جو بیت رہی ہے اس کا گہرا تعلق 1971ء کے واقعات سے ہے۔ پاکستان اپنے آپ کو ان واقعات سے بری الذمہ قرارنہیں دے سکتا۔جماعت والے سولی چڑھیں گے تو بات پاکستان کے گریبان تلک جا پہنچے گی۔یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ۔بنگلہ دیش کی حکومت جماعت اسلامی سے فارغ ہوکر پاکستان سے مطالبہ کرے گی کہ وہ جنگی جرائم پرمعافی مانگے۔جو لوگ مارے گئے یا جن عورتوں کی عزت لٹی‘ ان کا تاوان ادا کرے۔ان پاکستانی فوجیوں پر مقدمہ چلایا جائے جو ’بنگالیوں ‘کے قتل عام میں ملوث رہے۔ یہ ایک طویل اور خطرناک منصوبہ ہے جسے بنگلہ دیش کا داخلی مسئلہ قراردے کر آنکھ بند نہیں کی جاسکتی ۔بتدریج اس کی پرتیں کھلیں تو ہمارے دفتر خارجہ کے ہوش ٹھکانے آجائیںگے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں