مصرکی گلیوں اور بازاروں میںسینکڑوں شہریوں کا بہتاہوا خون اورلاشے دیکھ کر دل خون کے آنسو رو دیا۔ ہرطرف بکھرے بے سروپا لاشے کربلا کا منظر پیش کرتے رہے۔ دل ودماغ محو حیرت ہیں کہ اس ظلم پرجمہوریت کے دعوے داروں کی زبانیں گنگ کیوں ہیں ؟ دکھ اس بات کا ہے کہ مصر کی گلیوں اور بازاروں میں جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو خود مغربی دنیا نے شکست سے دوچار کیا کسی اور نے نہیں۔ آج شکستہ دل مصری نوجوان تبدیلی کے لیے سیاسی جدوجہد سے مایوس اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری شاداں وفرحاں ہیں کہ بغیر کسی محنت کے رضاکاروں کی ایک پوری نسل ان کے ہاتھ آگئی ۔ مغرب نے بھی اسلام پسندوں کے بہتے ہوئے لہو کو اور فوجی آمریت کے خلاف سیاسی جدوجہد اور مزاحمت کو تعصب اور سیاسی مفاد کی عینک سے دیکھا۔موقع پرستی کی تازہ ترین مثال امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری نے پیش کی۔انہوں نے کہا: مصر میںجمہوری حکومت کا تختہ عوام کی مرضی سے الٹا گیا۔جان کیر ی کے اس بیان نے دنیا میں جمہوریت کے علمبرداروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جو امریکا کو جمہوریت کا سب سے بڑا پرچارک تصورکرتے ہیں۔یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ جمہوری نظا م حکومت عالمی طاقتوں کے نزدیک دنیا میں اپنی پسندکی حکومتیں قائم کرانے کے ایک حربے کے سوا کچھ نہیں۔اسی لیے مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ کرنے والوں کی مالی اور سیاسی امداد کی گئی۔اس کے برعکس دنیا میں جہاں جہاں جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کیا جاتاہے وہاں امریکا سمیت یورپی یونین اقتصادی پابندیاں عائد کرتی ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اکانومسٹ نے مغرب کے اس دہرے معیار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا کہ اس دوغلے پن اور موقع پرستی کی سیاست نے دنیا میں جمہوریت کے علمبرداروں کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔اکانومسٹ کے مطابق یہ طرزعمل جمہوریت کی روح کے منافی ہے ۔مصر کے لبرل طبقات اور جماعتوں نے امریکا اور مغربی دنیا کو باور کرایا کہ صدر محمد مرسی کی حکومت ملک میں جمہوری آزادیاں سلب کررہی ہے ۔ اسرائیل کی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ ہے۔اس کا وجودخطے میں امریکا کے حلیف ممالک میں سیاسی بے چینی کا سبب بن سکتا ہے۔دوسری جانب معزول صدر محمد مرسی نے مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر متعدد اقدامات کیے لیکن وہ اقتصادی سدھار لانے میں ناکام رہے۔ایسا کرنا ممکن بھی نہ تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے آسان شرائط پر قرض دینے کو تیار نہیں تھے جبکہ عرب ممالک محمد مرسی کی حکومت سے خائف تھے۔ ا مریکا جس نے نائن الیون کے بعد عرب دنیا میں جمہوری قوتوں کی مدد اورقدامت پسند بادشاہتوں کے خاتمے کا علم بلند کیاتھا وہ مرسی کی موجودگی سے فائدہ اٹھانے اور جمہوری اداروں سے گہری وابستگی کے اظہار کے بجائے موقع پرستی کی سیاست کا شکار ہوگیا۔یوں مشرق وسطیٰ میں جمہوری جدوجہداور سیاسی بیداری کی تحریکوں کی خود ہی قبر کھودی۔ زخموں پر اس وقت مزید نمک چھڑکا گیا جب مصری فوج کے حالیہ ظالمانہ اقدامات پر مغربی دنیا میں قابل ذکر احتجاج تک نہ ہوا بلکہ مصری فوج کو ان کی درپردہ آشیر باد حاصل رہی۔ مصر کے لبرل طبقات اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے مغرب کی مددسے مرسی کی حکومت ختم کراکراسلام پسندوں کو شکست دی اور اب انہیں امید ہے کہ وہ مصر میں لبرل اور مغرب نوازحکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ افسوس! امریکا سمیت یہ عناصر بھول گئے کہ ان کے اس طرزعمل نے مسلم دنیا میں جمہوری نظام حکومت کے حامیوں کی قوت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔مسلم دنیا میں القاعدہ کے طرز فکر کی حامل شخصیات اور تحریکوں کی کمی نہیں جو پہلے ہی جمہوری نظام حکومت کو ڈھونگ قراردیتی ہیں۔وہ الجزائر کی مثال دیتی ہیں جہاں اسلام پسندانتخابات میں کامیاب ہوئے تو ان کے خلاف جوابی انقلاب برپاکردیا گیا۔اب مصر میں منتخب صدر مُرسی کے خلاف عوامی مظاہروں کو بنیاد بنا کر حکومت کو معزول کردیاگیا۔یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا کہ مرسی اور حسنی مبارک کو ایک ہی پیمانے سے نہیں ماپا جاسکتا۔مرسی کو عوامی تائید حاصل ہے اور وہ انتخابات جیت کر برسراقتدار آئے تھے۔ان کی حکومت میں دوسری جماعتوں کے لوگ بھی شامل تھے۔ اب مصر میں اخوان المسلمون کے حامی سراپا احتجاج ہیں۔ سینکڑوں لوگ احتجاجی تحریک کے دوران مارے گئے۔ پولیس اور فوجی دستوں کے ہاتھ شہریوں کے خون سے رنگین ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوائے الجزیرہ ٹیلی وژن یا ایرانی ذرائع ابلاغ کے مغربی ذرائع ابلاغ نے ان ہلاکتوں کی قابل ذکر کوریج نہیں کی۔قاہرہ میں شہید ہونے والے مغربی ممالک کے دارلحکومتوں میں کھلبلی نہیں مچاسکے۔کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔اگر اتنے ہی شہری ماسکو یا بیجنگ میں مارے جاتے تو دنیا میںکہرام مچ جاتا ۔ ذرائع ابلاغ نوحہ خوانی کرتے اور ہفتوں سوگ منایا جاتا۔انسانی حقوق کے علمبردا ر جلوس نکالتے۔اور تو اور پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی جو بھارتی اداکاروں کے ہونے والے بچوں کے بارے میں پل پل کی خبریں نشر کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں‘ مصر میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کو نظرانداز کردیا۔ یہ طرزعمل ایک مستقل بیماری ہے جو صرف لبرلز کا ہی خاصہ نہیں۔جولائی 1977ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تو دائیں بازو کی جماعتوں نے انہیں نجات دہندہ قراردیا۔پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) میں شامل جماعتیں ضیاء الحق کی کابینہ میں شامل ہوگئیں۔ وہ طویل عرصہ تک ضیائی آمریت کا نفس ناطقہ بنی رہی۔ انہوں نے اپنے نظریاتی اور سیاسی مخالفین کا قلع قمع کرانے کی ہر ممکن تدبیر کی۔ لبرل اور جمہوریت نواز سیاستدانوں، دانشوروں اور صحافیوں کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ کئی اہل فن و ہنرجنرل ضیا کے خوف سے بے وطن ہوئے۔ دائیں بازور کی سیاسی قوتوں اور دانشوروں کا خیال تھا کہ وہ فوج کی مدد سے پاکستان میں اسلام نفاذ کریں گے۔قانون سازی کریں گے اور ایک ایسا ملک تعمیر کرنے میںکامیاب ہوجائیں گے جہاں لبرل یا مذہب بیزار لوگوں کی گنجائش نہ ہوگی۔اتفاق سے افغان جہاد کی’ برکت سے‘ امریکا‘ عرب اور خلیجی ریاستوں نے مساجد ،مدارس اور ایسے اداروں کے قیام کے لیے فراخ دلی سے مالی معاونت فراہم کی ‘جو ایک مخصوص مذہبی شناخت اور روئیے کو پروان چڑھا تی ہے۔آج پاکستان تباہی کے جس دہانے پر کھڑے ہے اس کی بڑی ذمہ داری جنرل ضیا ء الحق کی حکومت اور ان کے حامیوں پر عائد ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے شب خون مارکر نواز شریف کی جمہوری حکومت کو چلتاکرکے پوری کی۔ ملک کے لبرل طبقات کی سرکردہ شخصیات پرویزمشرف کی حکومت میں شامل ہوگئیں ۔ان کا ٰخیا ل تھا کہ وہ فوج کی مدد سے دائیں بازوکی سیاسی اور سماجی بالادستی کو اُکھاڑ پھینکیں گے۔کئی ایک سیکولر عبقر ی یہ استدلال کرتے کہ فوج اور دائیں بازوکی قوتوں کو متصادم کردیا جائے تاکہ عسکری قوتوں کے اشتراک سے انہیں کمزور کیا جاسکے۔ نائن الیون کے حادثے نے دائیں بازو کے انتہاپسندوں اور بالخصوص مذہبی سیاسی جماعتوں کو ریاست سے متحارب کردیا جو روایتی طورپرعسکری اسٹبشلمنٹ کا بازو ئے شمشیر زن تھا۔تاریخ میں پہلی بار ملا ملٹری اتحادٹوٹا۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام میں ہی سیاسی جماعتوں اور قوتوں کی بقا کا رازمضمر ہے۔جب اور جہاں وہ غیر سیاسی ریاستی اداروں کے اشتراک سے ایک دوسرے کو پچھاڑنے اور گرانے کی کوشش کرتے ہیں تو پورا سیاسی عمل اور ڈھانچہ کمزور ہو جاتا ہے۔ آخری تجزیئے میں سیاسی قوتوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔غیر جمہوری اداروں کی بالادستی قائم ہوجاتی ہے۔